محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم

ارشاد الرحمن
نبوت و رسالت انسانیت کے اوپر اللہ تعالیٰ کے احساناتِ عظیم میں سے ایک احسانِ عظیم ہے۔ انبیا و رسل کی بعثت و نبوت کو اللہ تعالیٰ نے احسان قرار دیا ہے۔ انسانی تاریخ میں یہی لوگ انسانیت کو ضلالت کی تاریکیوں سے نکالنے کی سعی و جدوجہد کرتے رہے۔ اللہ کے ان برگزیدہ فرستادوں نے اپنی دنیاوی زندگی کے مال و متاع کو انسانیت کی فلاح پر قربان کیا۔ ذاتی راحت و آرام کو انسان کی نجات کی جدوجہد میں گزار دیا۔ برسہابرس کی شبانہ روز مساعی میں ان کی زندگی کے لمحات صرف ہوتے رہے۔ کئی زندگی بھر اس ذمہ داری کی ادائی میں مشغول رہے، حتیٰ کہ ہزار سال تک انسانیت کو اللہ کے حیات آفریں پیغام کی طرف خفیہ و علانیہ اور لیل و نہار کے ہر لمحے بلاتے رہے۔ اپنی جانیں تک قربان کردیں مگر انسانیت کی نجات کی جدوجہد کا فریضہ ادا کرنے میں کسر نہ چھوڑی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ نبیوں اور رسولوں کی آمد اور بعثت کا مقصد ہی یہ تھا کہ انسانیت اُن کے نقش قدم پر چلے اور رب کی بارگاہ تک پہنچ جائے۔ وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا لِیُطَاعَ بِاِذْنِ اللّٰہِ (النساء4:64) ’’ہم نے جو رسول بھی بھیجا ہے اسی لیے بھیجا ہے کہ اذنِ خداوندی کی بنا پر اس کی اطاعت کی جائے۔‘‘
انبیاء کی اطاعت، پیروی اور اتباع اُن کی ذاتی اور شخصی اطاعت نہیں تھی اور نہ ہے، بلکہ یہ اِذنِ الٰہی سے کرائی جانے والی اطاعت دراصل اللہ کی اطاعت ہے: مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰہَ (النساء4:80) ’’جس نے رسول کی اطاعت کی اُس نے دراصل اللہ کی اطاعت کی۔‘‘
نبوت و رسالت سے سرفراز کی جانے والی تمام شخصیات انسان کے لیے اللہ تعالیٰ کے وضع کردہ طریقۂ زندگی ’’دین‘‘ کی داعی تھیں۔ اس دین کا نام اللہ تعالیٰ نے ’’اسلام‘‘ رکھا اور اس کے حاملین اور پیروکاروں کو ’’مسلم‘‘ کا نام دیا۔ انبیا اور رسل سب اللہ کے ’’دین‘‘ کی پیغام رسانی کے سنہری سلسلے کی کڑیاں ہیں۔ یہ سب منصبی طور پر ایک ہی خاندان کے چشم و چراغ اور گل ہائے سرسبد ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو نبوت اور رسالت کے بلند مقام پر فائز کیا۔ الٰہی اِصطفا و اِجتبا کا عظیم اعزاز اِن کے حصے میں آیا۔
اللہ تعالیٰ کے اپنے بیان کے مطابق اللہ نے ان میں سے بعض کو بعض پر فضیلت اور فوقیت بخشی۔ مگر انسانوں کے اختیار اور بس میں یہ بات نہیں اور نہ اُن کے لیے روا ہے کہ وہ انبیاکے درمیان اس فضیلت و برتری کا تعین کریں۔ تمام انبیا ایک دوسرے کی نبوت و رسالت کے حامی اور مددگار رہے۔ تائید و حمایت کا یہ فریضہ باقاعدہ ایک عہد کی صورت میں بیان ہوا ہے۔ نبوتِ محمدیؐ سے قبل کی شریعتوں کے حاملین آج دیگر شریعتوں حتیٰ کہ نبیِ اکرم حضرت محمد رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر ایمان لانا بھی فرض نہیں سمجھتے۔ مگر اللہ تعالیٰ کا یہ احسان خاتم النبیین حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کی امت پر ہے کہ اس کا نبیؐ اور اس کے پیروکار اُن ایمانیات کو اپنے ایمان کا جزوِ لازم سمجھتے ہیں جن کا تقاضا اور مطالبہ اللہ کی طرف سے کیا گیا۔ فرمایا گیا:
اٰمَنَ الرَّسُوْلُ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَیْہِ مِنْ رَّبِّہٖ وَ الْمُؤْمِنُوْنَ کُلٌّ اٰمَنَ بِاللّٰہ وَ مَلٰٓئِکَتِہٖ وَ کُتُبِہٖ وَ رُسُلِہٖ لَا نُفَرِّقُ بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْ رُّسُلِہٖ(البقرہ2:285) ’’رسول اُس ہدایت پر ایمان لایا ہے جو اُس کے رب کی طرف سے اُس کے اوپر نازل ہوتی ہے۔ اور جو لوگ اس رسول کے ماننے والے ہیں انھوں نے بھی اُس ہدایت کو دل سے تسلیم کرلیا ہے۔ یہ سب اللہ، اور اُس کے فرشتوں اور اُس کی کتابوں اور اس کے رسولوں کو مانتے ہیں۔ اور ان کا کہنا ہے کہ ہم اللہ کے رسولوں کو ایک دوسرے سے الگ نہیں کرتے۔‘‘
مسلمانوں کا یہ عقیدہ اور ایمان ہے کہ انبیاو رسل کے درمیان تفریق نہیں کی جا سکتی۔ سب کے سب نبی اور رسول ہمارے ہیں، اسلام کے ہیں، اللہ کے دین کے داعی اور پیغمبر ہیں۔ سب برگزیدہ اور چنیدہ ہیں۔ ہم کسی کی نبوت میں شک کے روادار نہیں ہوسکتے، کسی کی تعلیم سے انکار نہیں کرسکتے، کسی کی حیثیت سے بے نیاز نہیں ہوسکتے۔ ہم ان سب کو انسانیت کے محسنین سمجھتے ہیں۔ نجات دہندہ اور حیات آفریں جانتے ہیں۔ یہی انسانیت کو حقیقی زندگی بخشنے والے ہیں۔ یہ ہمارا ایمان اور یقین ہے، یہ ہمارا عقیدہ اور اعتقاد ہے۔
آج دنیا میں کچھ ایسے بھی ہیں جو ان حقائق سے آگاہ نہیں۔ یا آگاہ ہیں تو تعصب اور عناد کی آتش میں جل رہے ہیں اور ان محسنینِ انسانیت کو اپنے پست خیالات اور رقیق جذبات کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ اس گستاخانہ اور موذی تاریخ کا سلسلہ جاننا چاہیں تو قرآنِ حکیم اس کو دو اور دو چار کی طرح بیان کرتا ہے۔ یہود اور نصاریٰ اللہ تعالیٰ کی نازک کردہ کتب کے حاملین تھے۔ انبیاء اور رسولوں کے امتی تھے۔ ان کی تعلیمات کے داعی اور مدعی تھے۔ مگر افسوس کہ انھی امتوں نے انبیاء کے قتل تک کا جرم معمولی بات سمجھی۔ انبیاء کو اذیت دینا اپنا رویہ بنائے رکھا۔ موسیٰ و عیسیٰ اور دیگر انبیائعلیہم السلام کے ساتھ جو کچھ ان امتوں نے کیا وہ تاریخ کا حصہ اور قرآنِ مجید کا متن ہے۔ انھوں نے اپنی اسی روش کو جاری رکھتے ہوئے پیغمبرِ اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلمکو بھی اپنی خساست کا نشانہ بنایا۔ یہ اللہ تعالیٰ کے دین اسلام کی روشنی کو گل کرنا چاہتے تھے مگر اللہ تعالیٰ کو یہ پسند نہیں تھا۔ لہٰذا اس کا دین دنیا میں پھیل کر رہا۔ محمدصلی اللہ علیہ وسلمکا کلمہ غالب ہوا۔ باطل پسپا ہوا اور حق کا بول بالا ہوا: یُرِیْدُوْنَ لِیُطْفِئُوْا نُوْرَ اللّٰہِ بِاَفْوَاہِہِمْ وَاللّٰہُ مُتِمُّ نُوْرِہٖ وَلَوْ کَرِہَ الْکٰفِرُوْنَ(الصف61:8) ’’یہ لوگ اپنے منہ کی پھونکوں سے اللہ کے نور کو بجھانا چاہتے ہیں۔ اور اللہ کا فیصلہ یہ ہے کہ وہ اپنے نور کو پورا پھیلا کر رہے گا خواہ کافروں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔‘‘
یہود و نصاریٰ نے اپنے نبیوں کے ساتھ اذیت، تکذیب اور قتل جیسا سلوک کیا اور بالکل یہی سلوک حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم سے بھی روا رکھا گیا۔ آپؐ کو شاعر کہا گیا، مجنون کہا گیا، ساحر کہا گیا۔ آپؐ کو جھٹلانے کا کوئی ہتھکنڈا چھوڑا نہ گیا۔ اذیت رسانی کا کوئی موقع اور رنگ جانے نہ دیا گیا۔ حتیٰ کہ قتل کی سازش بھی کی گئی بلکہ اقدامِ قتل کیا گیا… یہ تو اللہ کو منظور نہ تھا کہ ایسے ناپاک ہاتھ اس حرم نبوت و رسالت تک پہنچ جائیں، لہٰذا وہ نہ پہنچ پائے اور رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے حصارِ عصمت میں رہے اور محفوظ و مامون اُن کے چنگل سے باہر نکل آئے۔ اِدھر ابلیسی مکر اپنا دماغ کھپا رہا تھا اُدھر الٰہی تدبیر اپنا رنگ جما رہی تھی: وَ اِذْ یَمْکُرُبِکَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لِیُثْبِتُوْکَ اَوْ یَقْتُلُوْکَ اَوْ یُخْرِجُوْکَ وَ یَمْکُرُوْنَ وَ یَمْکُرُ اللّٰہُ وَ اللّٰہُ خَیْرُ الْمٰکِرِیْن(الانفال8:30) ’’وہ وقت بھی یاد کرنے کے قابل ہے جب منکرینِ حق تیرے خلاف تدبیریں سوچ رہے تھے کہ تجھے قید کردیں یا قتل کر ڈالیں یا جلاوطن کردیں۔ وہ اپنی چالیں چل رہے تھے اور اللہ اپنی چال چل رہا تھا، اور اللہ سب سے بہتر چال چلنے والا ہے۔‘‘
یہی لوگ تھے جن کو مخاطب کرکے یہ بات کہنے کا رسولِ کریمصلی اللہ علیہ وسلم کو حکم ہوا:
قُلْ یٰٓـاَیُّھَا النَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ اِلَیْکُمْ جَمِیْعَانِ الَّذِیْ لَہٗ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ یُحْیٖ وَ یُمِیْتُ فَاٰمِنُوْا بِاللّٰہِ وَ رَسُوْلِہِ النَّبِیِّ الْاُمِّیِّ الَّذِیْ یُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَ کَلِمٰتِہٖ وَ اتَّبِعُوْہُ لَعَلَّکُمْ تَھْتَدُوْنَ(الاعراف7:158) ’’اے محمدؐ، کہو کہ ’’اے انسانو، میں تم سب کی طرف اُس اللہ کا پیغمبر ہوں جو زمین اور آسمانوں کی بادشاہی کا مالک ہے، اس کے سوا کوئی خدا نہیں ہے، وہی زندگی بخشتا ہے اور وہی موت دیتا ہے۔ پس ایمان لائو اللہ پر اور اس کے بھیجے ہوئے نبی اُمی پر جو اللہ اور اس کے ارشادات کو مانتا ہے اور پیروی کرواُس کی، امید ہے کہ تم راہِ راست پا لو گے۔‘‘
اس بیان میں کئی حقیقتیں واشگاف کی گئیں، کئی طمانچے کفر کے منہ پر رسید ہوئے۔ اور ساتھ ہی ’’اب بھی مان جایئے!‘‘ کی آواز بلند کی گئی۔
انبیاء اور رسولوں کی تکذیب، تعذیب اور قتل بظاہر معمول کا جرم سمجھنے والے اس خوفناک انجام کی وعید سے شدید ناواقف ہیں:
اِنَّ الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ اللّٰہَ وَ رَسُوْلَہٗ لَعَنَھُمُ اللّٰہُ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَۃِ وَ اَعَدَّ لَھُمْ عَذَابًا مُّھِیْنًا (الاحزاب33:57) ’’جو لوگ اللہ اور اُس کے رسول کو اذیت دیتے ہیں اُن پر دنیا اور آخرت میں اللہ نے لعنت فرمائی ہے اور اُن کے لیے رسوا کن عذاب مہیا کردیا گیا۔‘‘
جب کفر و شرک، ظلم و جبر، جوروعدوان اور استہزاء و تضحیک نے شدت اختیار کرنا شروع کی تو انسانیت کے نجات دہندہ اور محسنِ انسانیت کو بھی اپنی حمایت و نصرت کا یقین دلایا:
اِنَّا کَفَیْنٰکَ الْمُسْتَھْزِئِ یْنَ(الحجر15:95) ’’تمھاری طرف سے ہم اُن مذاق اڑانے والوں کی خبر لینے کے لیے کافی ہیں۔‘‘