حکومت کے خلافنئی صف بندی

پاکستان میں حزبِ اختلاف کی سیاست وہ نہیں ہوتی جو جمہوری اور پارلیمانی سیاست کے تناظر میں پڑھی یا سمجھی جاتی ہے۔ ہمارے ہاں حزب اختلاف کی سیاست عمومی طور پر حکومت کی مخالفت اور اُس کی سیاسی ساکھ کو قبول نہ کرنے سے جڑی نظر آتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مجموعی طور پر حزب اختلاف کی سیاست حکومتوں کی غلطیوں کی نشاندہی کرنے، متبادل حکومتی خاکہ یا پالیسی و قانون سازی ترتیب دینے، اور حکومت پر ایک مضبوط دبائو ڈالنے کے بجائے حکومت کو گرانا نظر آتی ہے۔ یہ ایک عجیب المیہ ہے کہ پاکستانی معاشرہ جہاں ایک بہتر اور شفاف حکمرانی کے نظام سے محروم نظر آتا ہے، وہیں ہمیں حزبِ اختلاف کی سیاست بھی حقیقی مسائل سے زیادہ افراد کی حمایت اور مخالفت میں کھڑی نظر آتی ہے۔
حزب اختلاف کیجماعتوںکو ایک متبادل حکومت کا درجہ دیا جاتا ہے، اور جمہوری معاشروں میں حزب اختلاف نہ صرف حکومتی امور کی نگرانی کرتی ہے بلکہ حکومت پر دبائو ڈال کر اُس کی سمت کو درست کرنے میں بھی اپنا کردار ادا کرتی ہے۔ لیکن پاکستان میں حزبِ اختلاف کی سیاست کا مقصد جمہوری عمل کو کمزور کرنا، منتخب حکومتوں کو گرانا اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ سازباز کرکے جمہوری عمل کو نقصان پہنچانا ہوتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ملک میں حزبِ اختلاف کی سیاسی ساکھ پر بھی سوالات اٹھائے جاتے ہیں۔ اس طرزِ عمل نے محاذ آرائی کی سیاستبڑھاوا دیاہے۔
اس وقت ملک میں تحریک انصاف کی حکومت ہے۔ اس حکومت کی سیاسی کمانڈ وزیراعظم عمران خان کے پاس ہے۔ وہ مرکز سمیت پنجاب اور خیبر پختون خوا میں براہِ راست حکومت کا حصہ ہیں۔ بلوچستان میں وہ بلوچستان عوامی پارٹی کی مخلوط صوبائی حکومت کا حصہ ہیں۔ اس طرح کہا جاسکتا ہے کہ مجموعی طور پر موجودہ حکمرانی پر تحریک انصاف کا غلبہ ہے۔ ان کے مدمقابل حزبِ اختلاف کی سیاست میں جو جماعتیں زیادہ سرگرم ہیں ان میں مسلم لیگ (ن)، پیپلزپارٹی، عوامی نیشنل پارٹی اور جے یو آئی نمایاں ہیں۔ ابتدا ہی میں ان تمام مخالف جماعتوں نے حکومت کے خلاف مل کر لڑنے کا فیصلہ کیا تھا، مگر ان جماعتوں کے داخلی مسائل اور مفادات نے ایک ہونے کے بجائے تقسیم رکھا۔حزب اختلاف کی جماعتوں کی تقسیم نے تحریک انصاف کی حکومت کو سیاسی محاذ پر فائدہ بھی پہنچایا۔
مسلم لیگ (ن) کی یہ شدید خواہش تھی کہ پیپلزپارٹی کے ساتھ مل کر وہ اپنی سب سے بڑی سیاسی مخالف تحریک انصاف کو حکومت میں سنبھلنے کا موقع ہی نہ دے، تاکہ اُس کی سیاسی ساکھ کو مجروح کیا جاسکے۔
سابق وزیراعظم نوازشریف اور متحدہ مجلس عمل کے سربراہ مولانا فضل الرحمن حکومت مخالف اتحاد میں شدت پیدا کرنے میں پیش پیش تھے، مگر پیپلزپارٹی کی سیاسی حکمت عملی کے باعث وہ ایک مضبوط حزبِ اختلاف کے طور پر متحد نہ ہوسکے۔ پیپلز پارٹی نے عملی طور پر انتخابات سے قبل سینیٹ کے چیئرمین کے انتخاب، عام انتخابات اور اس کے بعد وزیراعظم، اسپیکر، ڈپٹی اسپیکر اور حزب اختلاف کے انتخابی عمل میں متبادل حکمت عملی اختیار کرکے متحدہ حزب اختلاف سے کچھ سیاسی فاصلہ رکھا۔ لیکن اب جیسے جیسے سیاسی حالات بدل رہے ہیں، پیپلزپارٹی کے حقیقی قائد آصف علی زرداری کی سیاسی حکمت عملی بھی تبدیل ہورہی ہے۔ بہت عرصے کے بعد انہوں نے اپنی سیاسی چپ کو توڑا ہے۔ وہ حکومت اور عمران خان پر خوب برسے ہیں۔ ان کے بقول عمران خان کی حکومت نہ تو چل سکتی ہے اور نہ ہی وہ چلانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کی ذمے داری ہے کہ وہ متحد ہوکر اس حکومت کے خلاف پارلیمنٹ میں قرارداد پیش کریں۔ آصف علی زرداری نے عمران خان کو سلیکٹڈ وزیراعظم کہا، اور اس کا مطلب واضح ہے کہ وہ عوام کے منتخب کردہ نہیں بلکہ خاص طاقتوں کے منتخب کردہ فرد ہیں۔ اگر اس الزام کو درست بھی مان لیا جائے تو ماضی میں بھی جو حکومتیں بنی ہیں وہ انھی طاقت ور طبقات کی مدد سے بنتی رہی ہیں۔ آج جو جماعتیں اسٹیبلشمنٹ پر تنقید کررہی ہیں کل تک وہ اسی اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے اقتدار کے کھیل میں حصہ دار بنتی رہی ہیں۔ یہ عجیب مسئلہ ہے کہ اگر اسٹیبلشمنٹ کسی ایک فریق کی حمایت کرے تو سب ٹھیک ہے، لیکن اگر وہ کسی اور کی حمایت کرے تو اے جمہوریت کے خلاف سازش سمجھا جاتا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ بہت عرصے سے نوازشریف کی خواہش تھی کہ وہ آصف علی زرداری کے ساتھ اپنے سیاسی فاصلے ختم کریں اور مشترکہ طور پر عمران خان کی حکومت کے خلاف جدوجہد کریں۔ لیکن آصف علی زرداری ماضی کی تلخیوں اور وعدہ خلافیوں کے باعث نوازشریف پر سخت تنقید کرتے رہے اورکہا کہ ان سے تو اتحاد کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ آصف علی زرداری کا خیال تھا کہ نوازشریف اب سیاسی بوجھ ہیں اور ان کی طرف بڑھنے کا مطلب اسٹیبلشمنٹ سے اپنے تعلقات کو خراب کرنا ہے۔ لیکن لگتا ہے کہ آصف علی زرداری کو احساس ہوگیا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ سے اول تو ان کو کوئی ریلیف نہیں مل رہا، اور اگر وہ متحد ہوکر ایک طاقت نہیں بنیں گے تو اسٹیبلشمنٹ اور حکومت دونوں پر دبائو نہ ڈال کر خود کو بھی بڑی مشکل میں ڈال سکتے ہیں۔ بہرحال آصف علی زرداری کی سیاسی چپ کے ٹوٹنے پر یقینی طور پر نوازشریف اور مولانا فضل الرحمن بہت خوش ہوں گے۔ یہی وجہ ہے کہ زرداری صاحب کی اس پریس کانفرنس کے بعد اُن کی اور مولانا فضل الرحمن کی براہِ راست ملاقات کو بھی سیاسی تجزیہ کار بہت اہمیت دے رہے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن کےمطابق ان کی اور زرداری کی ملاقات میں اگلے ہفتے اسلام آباد میں مشترکہ اے پی سی بلانے پر اتفاق ہوگیا ہے۔ مولانا فضل الرحمن وہ فرد ہیں جو پہلے ہی دن سے حکومت کو تسلیم کرنے کے حق میں نہیں تھے، ان کی خواہش تھی کہ حزبِ اختلاف کی جماعتیں اسمبلی میں حلف اٹھانے کے بجائے سڑکوں پر آئیں اور حکومت کے خلاف ایک بڑی تحریک چلائیں کہ یہ جعلی اسمبلی ہے اور ہم اسے تسلیم نہیں کرتے۔ ان کا مطالبہ نئے انتخابات تھے، مگر حزبِ اختلاف کی کسی بھی جماعت نے ان کے اس مطالبے کی حمایت نہیں کی اس لیے مولانا کو خاموش ہونا پڑا۔ لیکن لگتا ہے کہ اب ان کےموقف کو دیگر جماعتوں کی حمایت حاصل ہوگئی ہے، اور یہی وجہ ہے کہ وہ اس حکومت کو ختم کرنے کا ایجنڈا رکھتے ہیں۔
حزبِ اختلاف کی جماعتوں کا متحد ہونا اور مل کر سیاسی جدوجہد کرنا ان کا سیاسی اور جمہوری حق ہے۔ ان سیاسی جماعتوں کے بقول جس انداز میں پہلے دو ماہ میں تحریک انصاف نے حکومت کی اور ضمنی انتخابات میں اس کو بہت سی نشستوں پر شکست ہوئی اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ تیزی سے حکومت کی مقبولیت میں کمی واقع ہورہی ہے۔ ابتدا ہی میں اس غیر مقبول حکومت کو اور زیادہ دبائو میں لایا جائے۔ لیکن آصف علی زرداری نے سیاسی حکمت تبدیل کرتے ہوئے فوری طور پر حکومت پر بڑا دبائو ڈالنے اور مشترکہ قرارداد یا عدم اعتماد لانے کی جو بات کی ہے اس کے پیچھے اصل بات حکومت اور بالخصوص وزیراعظم کی جانب سے احتساب کا خوف ہے۔ بظاہر ایسا لگتا تھا کہ احتساب کاحالیہ عمل محض شریف خاندان تک محدود ہے، لیکن اب نہ صرف یہ عمل پیپلزپارٹی کی قیادت کی طرف بڑھ رہا ہے بلکہ بیوروکریسی سمیت مختلف طبقات براہِ راست اس کی زد میں ہیں۔ سب پر ایک ہی خوف طاری ہے کہ احتساب ان کو سیاسی طور پر مفلوج کرسکتا ہے۔
حال ہی میں سپریم کورٹ کی طرف سے جعلی بینک اکائونٹس کی چھان بین کے لیے بننے والی جے آئی ٹی نے انکشاف کیا ہے کہ ان اکائونٹس کے ذریعے 101ارب روپے کا ہیر پھیر kua gua ہے۔ ان کے بقول تحقیقات کے دوران بہت بڑا فراڈ سامنے آیا ہے، اکائونٹس کھولنے اور رقوم منتقل کرنے کے لیے پیچیدہ طریقے اختیار کیے گئے۔جعلی بینک اکائونٹس کے ذریعے 47ارب روپے کی ٹرانزیکشن سامنے آئی ہے، جبکہ 54ارب روپے کمپنیوں کے اکائونٹس میں ڈالے گئے ہیں۔ جے آئی ٹی نے الزام لگایا ہے کہ ان معاملات کی شفاف تحقیقات میں سندھ حکومت کوئی تعاون نہیں کررہی۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ پاکستان میں جہاں اور بہت سے سنگین مسائل ہیں وہاں ایک بڑا مسئلہ کرپشن اوربدعنوانی کی سیاست اورلوٹ مار کا بھی ہے۔ کرپشن اور بدعنوانی کے نام پر حکومت اور حکومت سے باہر ایک بڑے، طاقت ور سیاسی، انتظامی، قانونی اورکاروباری مافیا کی ریاستی نظام پر گرفت مضبوط ہے۔ اس لیے یہ طاقت ور طبقہ کسی بھی صورت نہیں چاہے گا کہ یہاں کوئی بھی شفاف اور بے لاگ احتساب کرے۔ یہی وجہ ہے کہ حزب اختلاف کی سیاست میں قومی مسائل کو کم اور احتساب سے بچائو کی سیاست کو زیادہ بالادستی حاصل ہے۔ مسئلہ حزب اختلاف کی جماعتوں کا نہیں بلکہ ان میں موجود اُس کرپٹ مافیا کا ہے جس نے ان جماعتوں میں جمہوریت، آئین اور قانون کی حکمرانی کی چھتری کے نیچے لوٹ مار کے کھیل میں حصہ دار بن کر حکمرانی کے پورے نظام کو بدعنوانی پر مبنی سیاست کی تصویر بنادیا ہے۔
حکومت حزب اختلاف کی اس نئی صف بندی کو صرف دو صورتوں میںمقابلہ کرسکتی ہے، اوّل: احتساب کا عمل نہ صرف شفاف بلکہ بلاتفریق ہو۔ اس میں وہ لوگ بھی شامل کیے جائیں جو کسی نہ کسی شکل میں حکمران طبقات کا حصہ ہیں۔کیونکہ اگر ایک بے لاگ اور سب طبقات کا احتساب ہوگا تو لوگوں میں اس احتساب کی ساکھ قائم ہوگی۔ دوئم: احتساب کے ساتھ ساتھ حکمرانی کے نظام میں شفافیت پیدا کرنا اور ایک اچھی حکومت کا تصور دینا، جس میں عام آدمی کے مسائل کے حل کو ترجیح اوّل حاصل ہو۔ ایسی صورت میں حزب اختلاف کی سیاست ابتدا ہی میں ناکامی سے دوچار ہوگی۔