افغانستان کے پارلیمانی انتخابات میں ووٹ ڈالنے کا عمل مکمل ہوگیا۔ آزاد الیکشن کمیشن (IEC)کے ترجمان ذبیح اللہ سادات کے مطابق ووٹوں کی گنتی جاری ہے اور 20 دن میں غیر سرکاری نتائج کا اعلان کردیا جائے گا، جبکہ ضابطے کے تحت الیکشن کمیشن اِس سال 20 دسمبر تک حتمی و سرکاری نتائج کے اعلان کا پابند ہے۔ افغانستان میں انتخابی عذرداریوں اور اعتراضات کا فیصلہ کرنے کے بعد سرکاری نتائج کا اعلان ہوتا ہے۔
افغانستان پر امریکہ کے قبضے کے بعد سے یہ تیسرے عام انتخابات تھے۔ گزشتہ پارلیمانی انتخابات 2010ء میں ہوئے تھے جس میں سرکاری طور پر ووٹ ڈالنے کا تناسب 35 فیصد بتایا گیا لیکن غیر جانب دار مبصرین کا خیال ہے کہ صرف 10 فیصد ووٹ ڈالے گئے، اور باقی سب کراچی برانڈ ٹھپے بازی کا کمال تھا۔ ضابطے کے مطابق پارلیمانی انتخابات 15 اکتوبر 2016ء کو ہونے تھے، لیکن امن وامان کی خراب صورت حال کی بنا پر یہ ملتوی ہوتے رہے، حتیٰ کہ اِس سال 7 جولائی کی تاریخ طے ہوئی، لیکن بائیومیٹرک (Biometric) نظام کے تجربے اور کمپیوٹرائزڈ انتخابی فہرستوں کی تیاری میں مزید وقت لگا، اور آخرِکار 20 اکتوبر کو انتخابات منعقد ہوئے۔ ووٹنگ کا آغاز صبح ساڑھے سات (پاکستان کے وقت کے مطابق 8) بجے ہوا اور پولنگ سرکاری طور پر اسی دن شام 4 بجے ختم ہوگئی، تاہم ووٹنگ کا تناسب انتہائی کم ہونے کی بنا پر ووٹ ڈالنے کا عمل اتوار کے دن شام 6 بجے تک جاری رہا۔ مزے کی بات کہ خطیر خرچ اور سخت محنت و مشقت سے تیار ہونے والے بائیومیٹرک نظام میں مسلسل خلل آتا رہا اور ایک تہائی سے زیادہ پولنگ اسٹیشنوں پر یہ نظام نہ چل سکا۔ سیاسی حلقے الزام لگارہے ہیں کہ ٹھپے بازی کے تحفظ کے لیے بائیومیٹرک نظام کی بساط جان بوجھ کر لپیٹی گئی ہے۔
کابل انتظامیہ کے مطابق ملک کے کُل 407 اضلاع میں سے 59 مکمل طور پر طالبان کے قبضے میں ہیں، اس لیے 119 اضلاع میں ووٹنگ کا اہتمام کیا گیا۔ امن و امان کی خراب صورت حال اور انتظامی مشکلات کی بنا پر غزنی صوبے کے 19 اضلا ع میں ووٹنگ ملتوی کردی گئی۔ 18 اکتوبر کو قندھار کے گورنر ہائوس پر شدید حملے کی وجہ سے صوبے کے تمام کے تمام 18اضلاع میں اب انتخابات 27 اکتوبر کو ہوں گے۔ گویا 407 میں سے 311 اضلاع یا تین چوتھائی افغانستان میں ووٹنگ ہوئی، لیکن کابل کے سفارتی و صحافتی ذرائع کا خیال ہے کہ مجموعی طور پر افغانستان کے 30 فیصد سے بھی کم علاقوں میں ووٹنگ کا عمل جاری رہ سکا۔
پاکستان کی طرح افغان پارلیمان بھی دو ایوانوں پر مشتمل ہے، یعنی ولسی جرگہ یا قومی اسمبلی اور سینیٹ، جسے مشرانو جرگہ کہا جاتا ہے۔ ہفتے کو ولسی جرگہ کے انتخابات منعقد ہوئے۔ فارسی میں ولسی جرگہ کو ایوانِ نمائندگان کہتے ہیں۔ ولسی جرگہ کی نشستوں کی کُل تعداد 250 ہے جن میں سے 10نشستیں خانہ بدوشوں یا کوچیوں کے لیے وقف ہیں۔ 68 نشستیں خواتین اور ایک نشست ہندوئوں اور سکھوں کے لیے مختص ہے۔ انتخابات کے لیے 2665 امیدوار میدان میں تھے، جن میں سے 10 بم دھماکوں میں ہلاک ہوگئے۔ 8 کوچیوں سمیت 417 خواتین بھی قسمت آزمائی کررہی ہیں۔ قبائلی نظام کی وجہ سے افغانستان میں پارٹی نظام زیادہ مستحکم نہیں، اور لوگ آزاد امیدواروں کو ووٹ دیتے ہیں۔ اسی بنا پر انتخابات میں آزاد امیدواروں کی اکثریت ہے۔ امریکی قبضے کے بعد سے گلبدین حکمت یار کی حزب اسلامی پہلی بار انتخابات میں حصہ لے رہی ہے، اور حزب نے 2 خواتین سمیت 42 امیدوار میدان میں اتارے ہیں۔ سب سے زیادہ پارٹی ٹکٹ عبدالرشید دوستم کی جنبش ملّی نے جاری کیے ہیں جن کے نامزد امیدواروں کی تعداد 44 ہے اور 8 خواتین جنبش ملّی کی نمائندگی کررہی ہیں۔ شیعہ رہنما محمد محقق کی حزب وحدت کی جانب سے 5 خواتین سمیت 22 امیدوار نامزد کیے گئے ہیں۔ باقی جماعتوں نے 20 سے کم امیدواروںکو ٹکٹ جاری کیے ہیں۔
افغانستان میں ووٹر کی کم سے کم عمر 18 سال ہے۔ الیکشن کمیشن کے مطابق رجسٹرڈ ووٹروں کی کُل تعداد 89 لاکھ 18 ہزار ایک سو 7 ہے جس میں خواتین کا تناسب 34.4فیصد ہے۔ ان ووٹروں کے لیے ملک بھر میں 5100 ووٹنگ مراکز پر 21000 پولنگ بوتھ بنائے گئے تھے۔
انتخابی مراکز کا دورہ کرنے والے صحافیوں کا کہنا ہے کہ پولنگ والے دن شام 3 بجے تک صرف 1700 پولنگ سینٹرز کے 7000 پولنگ بوتھ کھل سکے، جبکہ بقیہ مراکز پر پولنگ کا عملہ بھی نہیں پہنچ پایا۔ طالبان نے افغانوں سے درخواست کی تھی کہ وہ انتخابی عمل سے دور رہیں۔ دوسری طرف داعش نے تمام انتخابی مراکز کو اپنا فطری ہدف قرار دیا تھا اور خوف و ہراس کی وجہ سے بہت کم ووٹر پولنگ مراکز تک پہنچے۔کابل انتظامیہ کے زیراثر علاقوں اور فارسی بان اضلاع میں ووٹروں کی لمبی قطاریں دیکھی گئیں۔ پشتون علاقوں کے انتخابی مراکز پر ہو کا عالم تھا۔ صرف گلبدین حکمت یار کی حزب اسلامی کے مضبوط مراکز پر معقول تعداد میں ووٹ ڈالے گئے جہاں خواتین میں ووٹ ڈالنے کا تناسب خاصا بہتر نظر آیا۔ ایک اندازے کے مطابق پولنگ کا وقت ختم ہونے تک صرف25 فیصد پولنگ بوتھ کھل سکے، چنانچہ اتوار کو 5 سے 10 فیصد اضافی پولنگ اسٹیشنوں پر ووٹ ڈالے گئے۔ حزب اسلامی نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ ووٹ ڈالنے کے اوقات میں توسیع ٹھپے بازی کے ذریعے ووٹنگ کا تناسب بڑھانے کی ایک کوشش ہے جس سے اشرف غنی کے چہیتوں کو فائدہ پہنچے گا۔ انتخابات کے دوران دوسو سے زیادہ پولنگ اسٹیشنوں پر حملے ہوئے جس میں انتخابی عملے اور پولیس سمیت کم از کم 44 افراد مارے گئے۔
یہ انتخابات ایسے وقت ہورہے ہیں جب طالبان اور امریکہ کے درمیان براہِ راست بات چیت کا آغاز ہوچکا ہے۔ انتخابات سے ایک ہفتہ قبل طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اعلان کیا کہ امریکہ کے خصوصی ایلچی برائے افغان مفاہمت جناب زلمے خلیل زاد نے طالبان سے 12 اکتوبر کو تفصیلی ملاقات کی ہے۔ ٹوئٹر پیغام میں مجاہد صاحب نے کہا کہ خلیل زاد کے ساتھ جمعہ کو دوحہ (قطر) میں ملاقات ہوئی تھی۔ طالبان سیاسی دفتر کے سربراہ محمد عباس ستانکزئی نے افغان وفد کی قیادت کی اور مذاکراتی وفد میں مولوی عبدالسلام حنیفی، صلاح الدین دلاور، قاری دین محمد، زاہد احمد زئی اور محمد سہیل شاہین شامل تھے۔ ترجمان کا کہنا ہے کہ ملاقات کے دوران قابض فوجوں کی واپسی اور افغان تنازع کا پُرامن حل تلاش کرنے پر بات کی گئی۔کہا جاتا ہے کہ ملاقات کے دوران پشتو اور فارسی میں گفتگو کی گئی۔ امریکی دفترِ خارجہ نے اس ملاقات کی تردید یا تصدیق سے انکار کردیا لیکن مؤقر امریکی اخبار ’وال اسٹریٹ جرنل‘ نے اس ملاقات کی تصدیق کی ہے۔ ملاقات اور اس دوران فوجی انخلا پر گفتگو کے حوالے سے طالبان کے دعوے پر امریکیوں کی خاموشی بھی معنی خیز ہے کہ سفارت کاری کے میدان میں خاموشی نیم رضا سمجھی جاتی ہے، یعنی ملاّئوں کے دعوے میں صداقت نظر آرہی ہے۔ اس سے پہلے جولائی میں امریکی نائب وزیر خارجہ برائے جنوبی و وسطی ایشیا محترمہ ایلس ویلز نے قطر کے اسی دفتر میں افغان طالبان کے وفد سے ماقات کی تھی۔ گویا گزشتہ چار ماہ کے دوران امریکہ اور طالبان کے درمیاں یہ دوسری براہِ راست ملاقات تھی۔ اس سے پہلے امریکہ طالبان سے براہِ راست ملاقات سے انکار کرتا چلا آیا ہے۔ واشنگٹن کا سرکاری مؤقف اب بھی یہی ہے کہ طالبان کو افغان حکومت سے مذاکرات کرنے چاہئیں، لیکن طالبان کابل انتظامیہ کو کٹھ پتلی سمجھتے ہوئے ان سے کسی قسم کی بات چیت کے لیے تیار نہیں۔
طالبان سے امریکہ کی براہِ راست ملاقاتوں پر کابل کے ڈاکٹر صاحبان خود کو دیوار سے لگا محسوس کررہے ہیں۔ صدر اشرف غنی کے مشیرِ خصوصی ڈاکٹر محمد اکرم خپلواک نے کابل میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس بات کی سختی سے تردید کرتے ہیں کہ زلمے خلیل زاد اور طالبان کے درمیان نیٹو افواج کے انخلا کی بات ہوئی ہے۔ ایک صحافی نے اُن سے پوچھا کہ جب امریکی حکام نے طالبان کے دعوے کی تردید نہیں کی تو آپ ایسا کیسے کہہ سکتے ہیں؟ تو خپلواک صاحب خجل سے ہوگئے۔ اس موقع پر وزارتِ خارجہ کے ایک اعلیٰ افسر ڈاکٹر فرمراز تمنا صاحب نے فرمایا کہ افغانستان میں اسلامی حکومت کا قیام نظریاتی طالبان کا اصل مطالبہ ہے اور مولویوں کو یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ موجودہ کابل انتظامیہ اسلامی حکومت ہی کی ایک شکل ہے۔ دوسری طرف افغان امن کونسل (HPC)کے نائب صدر عطا الرحمان سلیم نے امریکی حکومت کو مشورہ دیا کہ وہ اپنی فوج ہٹانے سے پہلے افغانستان میں امن کے قیام پر توجہ دے۔ کچھ ایسی ہی بات پاکستان کے جنرل آصف غفور صاحب نے بھی لندن میں فرمائی ہے۔ سوال یہ ہے کہ امریکی فوج کے 17 سالہ قیام کے باوجود افغانستان میں امن قائم نہ ہوسکا تو ان کے قیام کو مزید بڑھانے سے کیا حاصل ہوگا؟
افغان انتخابات کی مخالفت کے باوجود طالبان نے ان انتخابات میں حصہ لینے پر حزب اسلامی کو تنقید کا نشانہ نہیں بنایا اور نہ ہی ان کے کسی انتخابی جلسے یا امیدوار پر حملہ کیا۔ گلبدین حکمت یار کا کہنا ہے کہ طالبان ان کے نظریاتی حلیف ہیں اور ان کی جماعت سیاسی و انتخابی عمل میں حصہ لے کر انخلا کے حوالے سے قابض فوج پر سیاسی دبائو بڑھانا چاہتی ہے۔ گویا عسکری اور سفارتی سطح پر طالبان جو کوششیں کررہے ہیں حزب اسلامی وہی کام سیاسی محاذ پر کرے گی تاکہ افغانستان سے غیر ملکی فوج کے جلد از جلد انخلا کو یقینی بنایا جاسکے۔
امریکی وزارتِ دفاع کے ذرائع کا کہنا ہے کہ مذاکرات کے دوران طالبان کا رویہ بہت مثبت ہے اور انھیں انخلا پر اتفاق کی صورت میں امریکہ کی جانب سے کابل انتظامیہ کو اعتماد میں لینے پر کوئی اعتراض نہیں۔ اس کے علاوہ طالبان پسپا ہوتی فوج کو باوقار واپسی کے لیے محفوظ راستہ دینے کو بھی تیار ہیں۔ دوسری طرف امریکہ بھی انخلا کے لیے بظاہر آمادہ ہے لیکن چچا سام افغانستان میں علامتی قیام کے طور پر بگرام اور ہلمند کے صوبائی دارالحکومت لشکرگاہ کے قریب شورباغ کا اڈہ اپنے پاس رکھنے پر اصرار کررہے ہیں۔ امریکی اس بات پر بھی تیار ہیں کہ ان اڈوں کا بیرونی کنٹرول طالبان کے پاس ہو۔ لیکن طالبان کا کہنا ہے کہ ان اڈوں سے چین، روس اور ایران کی جاسوسی کا تاثر پیدا ہوگا جو ان کے لیے قابلِ قبول نہیں۔ طالبان اپنی سرزمین کو کسی اور ملک کے خلاف استعمال ہونے یا کرنے کی کسی کو اجازت نہیں دیں گے، لہٰذا غیر ملکی فوج یا ان کا کوئی اڈہ طالبان کے لیے قابلِ قبول نہیں۔ واشنگٹن کے ذرائع کا کہنا ہے کہ امریکی فوجی اڈوں کے بارے میں طالبان کا غیر لچک دار رویہ ہی معاہدے کی راہ میں رکاوٹ ہے، جس کے دور ہونے کی بظاہر کوئی امید نظر نہیں آتی۔
گزشتہ 12 مہینوں کے دوران طالبان نے سارے افغانستان میں اپنی پوزیشن خاصی مضبوط کرلی ہے جس کی وجہ سے امریکہ کے لیے طاقت کے استعمال کا راستہ بھی مسدود ہوتا نظر آرہا ہے۔ قندھار کے گورنر ہائوس پر حملے میں جنرل آسٹن ملر بال بال بچے ہیں۔ جنرل صاحب کا تعلق امریکہ کی چھاپہ مار اسپیشل فورس سے ہے اور انھوں نے کچھ ہی عرصہ پہلے افغانستان میں امریکی فوج کی کمان سنبھالی ہے۔ 22 اکتوبر کو امریکی فوج نے اعتراف کیا ہے کہ اس حملے میں بریگیڈیئر جنرل جیفری اسمائلی (Jeffrey Smiley) زخمی ہوگئے ہیں۔ امریکی فوج کے ترجمان نیوی کمانڈر گرانٹ نیلی نے تو کہا کہ جنرل صاحب روبہ صحت ہیں، لیکن دوسری خبروں میں ان کے شدید زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔ عسکری تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اس حملے نے نیٹو کو ہلاکر رکھ دیا ہے۔گورنر ہائوس کے اندر حملہ کرکے طالبان نے یہ ثابت کردیا کہ ان کے ہاتھ بہت لمبے ہیں اور افغانستان میں کوئی بھی مقام ان کی پہنچ سے دور نہیں۔
عسکری اعتبار سے طالبان کی واضح بالادستی کے تناظر میں گلبدین حکمت یار کی جانب سے انتخابی عمل میں شرکت بے حد اہم ہے۔ افغان الیکشن کمیشن کے مطابق حزب نے رجسٹریشن کی درخواست کے ساتھ دو لاکھ ارکان کی فہرست جمع کرائی ہے۔ اس فہرست میں افغانستان کے تمام صوبوں سے تعلق رکھنے والے افراد شامل ہیں۔ اگر ان انتخابات میں حزب کی کارکردگی بہتر رہی تو اس سے مذاکرات کی میز پر طالبا ن کو فائدہ پہنچے گا اور وہ یہ کہہ سکیں گے کہ افغانستان سے غیر ملکی فوجوں کی واپسی کی صورت میں کابل انتظامیہ کے تحلیل ہونے سے جو سیاسی خلا پیدا ہوگا اسے پُر کرنے کے لیے طالبان کے نظریاتی اتحادی نہ صرف میدان میں موجود ہیں بلکہ انھیں مروجہ نظام کے تحت عوام کا اعتماد بھی حاصل ہے جسے مغرب میں مینڈیٹ کہا جاتا ہے۔