مستقبل کا منظر نامہ کیا ہوگا؟

وزیراعظم عمران خان سعودی عرب کا دورہ کامیابی سے مکمل کرنے کے بعد وطن واپس پہنچ گئے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کے دورۂ سعودی عرب کے دورانمیں سعودی حکام نے پاکستان کے لیے 12 ارب ڈالر کے امدادی پیکیج کا اعلان کیا ہے۔ اس پیکیج کے تحت پاکستان کو ادائیگیوں کے توازن کے لیے 3 ارب ڈالر ملنے کے علاوہ 3 سال تک 9 ارب ڈالر کا تیل بھی ادھار ملے گا۔ اعلامیے کے مطابق سعودی عرب پاکستان کو ایک سال کے لیے تین ارب ڈالر دے گا جو بیلنس آف پے منٹ کے طور پر ڈپازٹ رکھے جائیں گے، جبکہ تین سال تک سالانہ 3 ارب ڈالر یعنی کُل 9 ارب ڈالر کا تیل ادھار دیا جائے گا۔ تیل ادھار دینے کا معاہدہ تین سال تک ہے، جس کے بعد اس کی مدت میں توسیع کی جا سکے گی۔
انصاف کا تقاضا تو یہی ہے کہ عام انتخابات کے بعد وجود میں آنے والی حکومت کو کام کرنے کا پورا موقع دیا جائے اور اس کا سیاسی احتساب وقت آنے پر ووٹ کے ذریعے ہو۔ لیکن حکومتطور طریقے دیکھ کر اندازہ ہورہا ہے کہ دوسروں کی اصلاح کرنے کی دعویدار حکومت خود اصلاح کے قابل ہے۔ حکمت سے خالی حکومت کا ہر قدم نیک نیتی کے باوجود اپنی جلد بازیوں اور باہمی کھینچاتانیوں کے باعث ناکام دکھائی دے رہا ہے۔ صاف صاف نظر آرہا ہے کہ ملک کی معاشی صورتِ حال حکومت کو پریشان کیے ہوئے ہے اور اس کے علاج کے لیے وزارتِ خزانہ کا قلم دان اس معاشی دانش مند کے حوالے کیا گیا ہے جسے معیشت کی رگوں اور شریانوں کا فرق ہی معلوم نہیں۔ وفاق اور پنجاب میں تحریک انصاف کو کچھ خاص وجوہات کی بنیاد پرکوئی چیلنج نہیں ہے، سندھ میں پیپلزپارٹی کی حکومت بھی اس سے جھک جھک کر مل رہی تھی، لیکن یہ اچانک کیا ہوا کہ مرکز میں سیاسی قوتوں نے اب حکومت کے خلاف کُل جماعتی کانفرنس طلب کرنے کے لیے حالات کو سازگار سمجھنا شروع کردیا ہے! اس کی وجہ احتساب کا عمل نہیں، بلکہ آئین میں کی جانے والی اٹھارہویں ترمیم ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت صوبوں کے کچھ اختیارات مرکز میں واپس لانے کی متمنی ہے جس سے وہ صوبوں میں اپنے وہ کام انجام دے سکے جو صوبائی عمل داری کی وجہ سے نہیں کرپارہی۔ ابھی تو اپوزیشن کی جانب سے رابطوں کی ابتدا ہوئی ہے۔ یہ بیل منڈھے چڑھے گی یا نہیں، فی الحال تو اس بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا، تاہم ایک بہت واضح منظر سامنے آچکا ہے کہ کپتان سمیت تحریک انصاف کی یہ ٹیم پارلیمانی نظام کے اندر رہتے ہوئے حکومت چلانے کی صلاحیت سے محروم ہے۔ تحریک انصاف مرکز کے بعد سندھ پر بھی مکمل کنٹرول چاہتی ہے، اسی لیے اٹھارہویں ترمیم کی متعدد شقوں کو تبدیل کرنے کی خواہاں ہے۔ پیپلزپارٹی نے جواب دیا ہے کہ اٹھارہویں آئینی ترمیم کو رول بیک کرنا اتنا آسان نہیں جتنا مرکز ی حکومت سمجھ رہی ہے۔ یہی بات سینیٹر حاصل بزنجو نے بھی کی ہے کہ این ایف سی ایوارڈ میں صوبوں کے حصے کی کٹوتی کسی صورت قبول نہیں۔
اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے صوبوں کو جو وسیع تر خودمختاری دی گئی ہے وہ پسند نہیں کی جارہی۔ یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ آئی ایم ایف کی خواہش ہے کہ صوبوں کو این ایف سی ایوارڈ سے ملنے والا حصہ کم کیا جائے تاکہ وفاق کے مالی وسائل میں اضافہ ہو۔ مضبوط وفاق کے حامی بھی وفاق کے اختیارات پہلے کی طرح بڑھانا چاہتے ہیں۔ درست بات یہ ہے کہ آئین میں اٹھارہویں ترمیم آئین میں طے شدہ طریقِ کار کے تحت منظور ہوئی تھی، اب اگر اِس ترمیم کے کسی حصے پر کسی کو اعتراض ہے تو اس کے لیے بہتر یہ ہے کہ وہ آئین میں مزید ترمیم کرا لے، لیکن تحریک انصاف کے پاس تو قومی اسمبلی میں سادہ اکثریت بھی نہیں، وفاقی حکومت آٹھ دوسری جماعتوں کی بیساکھیوں کے سہارے کھڑی ہے، اِن میں سے کوئی ایک بیساکھی بھی کھسک گئی تو حکومت دھڑام سے گر سکتی ہے۔
تحریک انصاف کے چند مرکزی رہنما خود اپنی ہی جماعت کے لیے مسئلہ بنے ہوئے ہیں، اگر انہیں ایک متعین حد میں نہ رکھا گیا تو ملک میں اپوزیشن کا مضبوط اتحاد بن کر رہے گا۔ حکومت کو چاہیے کہ اپنے فیصلوں سے قبل جامع ہوم ورک کرنے کی عادت ڈالے، ایسا نہ ہوا تو اس کے لیے مسائل ہی مسائل ہوں گے۔
ابھی حال ہی میں ضمنی انتخاب میں بیرونِ ملک پاکستانیوں کو بھی ووٹ ڈالنے کی اجازت دی گئی، اور ان کی رجسٹریشن آئی ووٹنگ سسٹم کے تحت ہوئی۔ بیرون ملک پاکستانیوں کی بہت کم تعداد نے رجسٹریشن کرائی۔ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے کم تعداد میں رجسٹریشن کی چند بنیادی وجوہات ہیں جن کا جائزہ لینا ضروری ہے۔ بیرونِ ملک پاکستانیوں کے لیے لازم ہے کہ ووٹرز فہرست میں نام درج کرانے کے لیے ان کے پاس پاکستانی پاسپورٹ، ای میل ایڈریس اور نادرا کا نائکون کارڈ ہو۔ اس وقت یورپ میں کم و بیش80 لاکھ پاکستانی ہیں،ان میں ایک بہت بڑی اکثریت غیر قانونی طور پر مقیم ہے، اسی لیے محض 14 ہزار پاکستانیوں کی بطور ووٹر رجسٹریشن ہوئی ہے۔ لہٰذا وہ جب تک قانونی طور پر وہاں خود کو رجسٹرڈ نہیں کرائیں گے، پاکستان میں ہونے والے کسی بھی انتخابات میں ووٹ کا حق استعمال نہیں کرسکیں گے۔ یورپی ممالک میں مقیم پاکستانیوں سے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ ملک میں زرمبادلہ بھیجتے ہیں، لیکن یہ دعویٰ حقائق کے برعکس ہے۔ اس وقت ریکارڈ کی بات ہے کہخلیجی ممالک میں کام کرنے والے پاکستانی مزدور سالانہ 19 ارب ڈالر زرمبادلہ بھیج رہے ہیں، پاکستانیوں کی بڑی تعداد خلیجی ممالک میں کام کررہی ہے۔جبکہ خلیجی ممالک میں جمہوریت ہے اور نہ وہاں ووٹ ڈالنے کا رواج۔ اہم ترین پہلو یہ ہے کہ ایسے ممالک میں کام کرنے والے پاکستانیوں کے پاسپورٹ بھی اُن کے کفیل کے پاس جمع ہوتے ہیں۔ لہٰذا وہ خود کو پاکستان میں ہونے والے انتخابات کے لیے کسی بھی طرح ووٹر کے طور پر رجسٹرڈ نہیں کرا سکتے۔ بیرونِ ملک پاکستانیوں کے لیے ووٹ دینے کا نظام اُس وقت کامیاب ہوسکے گا جب حکومتِ پاکستان انہیں بیرونِ ملک بھی وہی تحفظ فراہم کرنے کی سفارتی پالیسی اپنائے جو کسی بھی پاکستانی کو اپنے ملک میں حاصل ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت بیرون ملک پاکستانیوں کے ووٹ کی بہت حامی سمجھی جاتی ہے، لیکن اُس کے پاس اس حوالے سے کوئی ہوم ورک نہیں ہے۔
گزشتہ دنوں ملک کی میڈیا انڈسٹری سے وابستہ اے پی این ایس، سی پی این ای اور پی بی اے کے ایک اہم نمائندہ وفد نے وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کی۔ اگرچہ اس ملاقات میں روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قیمت بڑھنے کے بعد نیوز پرنٹ کی قیمت میں اضافہ روکنے کے لیے حکومت نے ڈیوٹی ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ ایک بڑا قدم ہے۔ لیکن اس کا اصل فائدہ تو پرنٹ میڈیا انڈسٹری کے بجائے ارب پتی نیوز پرنٹ درآمد کنندگان کو ہی ہوگا جو مقامی مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت میں اضافہ ہونے سے قبل منگوایا ہوا نیوز پرنٹ بھی اس وقت مہنگے داموں فروخت کررہے ہیں اور صوبائی حکومتیں قیمت بڑھانے کے اس عمل کو روکنے میں ناکام نظر آرہی ہیں۔ یہ ملاقات بنیادی طور پر میڈیا انڈسٹری کے مسائل کے حل کی کوششوں کا حصہ تھی، لیکن اس ملاقات میں حکومت نے سردمہری دکھائی، بلکہ مشورہ دیا کہ مالکان اپنے ملازمین کو بھاری تنخواہیں کیوں دے رہے ہیں! ملازمین کی یہ تنخواہیں کم کرکے اپنے اخراجات کم کیے جائیں۔ یہ مشورہ وزیراعظم عمران خان نے اُس وقت دیا جب ڈالر کی قیمت میں اضافے کے باعث روپے کی قدر میں 26 فی صد کمی ہوئی ہے، اور یہ کمی ملکی تاریخ میں ایک بدترین ریکارڈ ہے۔ روپے کی قدر میں کمی سے ہمارا روپیہ اب پیسہ بن چکا ہے اور روزمرہ کی اشیاء سمیت ہر چیز کی قیمتیں آسمان سے جالگی ہیں۔
پانی کے مسائل سمیت ملکی حالات درست کرنے کے لیے حکومت کے دعوے ایک جانب، دوسری جانب حکومت نے حال ہی میں جو بجٹ قومی اسمبلی سے منظور کرایا ہے اُس میں آبی وسائل کے لیے رکھی جانے والی رقم میں ایک ارب روپے کی کمی کی گئی ہے، ترقیاتی بجٹ کم کردیا گیا ہے، گیس کی قیمت 143 فی صد بڑھا دی گئی ہے۔ حکومت کا مؤقف ہے کہ ملک میں زرمبادلہ کے ذخائر آٹھ ارب ڈالر رہ گئے ہیں۔ مسلم لیگ(ن) نے جب حکومت چھوڑی اُس وقت ملک میں اسٹیٹ بینک کے ریکارڈ کے مطابق زرمبادلہ کے ذخائر سولہ ارب ڈالر تھے۔ وزارتِ خزانہ کے معاشی ماہرین کے مطابق زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی اسد عمر کے فیصلوں سے ہوئی، اور اس بات کی بھی مکمل تحقیق ہونی چاہیے کہ تحریک انصاف کے کون سے رہنما نگران سیٹ اَپ کے دوران اور انتخابات کے نتائج کے بعد حکومت سنبھالنے سے قبل ایف بی آر اور وزارتِ خزانہ کو اپنی مرضی کے فیصلے کرنے پر مجبور کرتے رہے، اور غیر ملکی مالیاتی اداروں کا اعتماد حاصل کرنے کے لیے زرمبادلہ میں سے ہی بیرونِ ملک ادائیگیاں کرتے رہے۔ اب وزیراعظم عمران خان کہہ رہے ہیں کہ بیوروکریسی ان کے ساتھ تعاون نہیں کررہی اور ان کے لیے مسائل کھڑے کیے جارہے ہیں۔ حلف اٹھا کر حکومت میں آنے سے پہلے وزارتِ خزانہ میں مداخلت اور بیوروکریسی کی جانب سے ان کا حکم ماننا دونوں عمل غیر قانونی اور غیر آئینی تھے۔
حال ہی میں وفاقی کابینہ نے این ایف سی ایوارڈ میں نظرثانی کا فیصلہ کیا ہے جس میں وفاق سے صوبوں کو ملنے والا حصہ کم کرکے اسی میں سے فاٹا کو 3 فیصد دیا جائے گا۔ مئی 2018ء کے اواخر میں فاٹا کا خیبرپختون خوا میں انضمام کیا گیا تو 10سال میں ترقیاتی کاموں کے لیے اضافی فنڈز فراہم کرنے کی بھی توثیق کی گئی، یہ بھی کہا گیا کہ این ایف سی ایوارڈ کے تحت فاٹا کو 24 ارب کے ساتھ سالانہ سو ارب روپے اضافی ملیں گے اور دس سال تک ملتے رہیں گے، اور یہ رقم کسی اور جگہ استعمال نہیں کی جاسکے گی۔ اب صوبے اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے مزید نئے ٹیکس لگائیں گے، متعدد اشیاء پر نئی صوبائی ڈیوٹیاں لگائی جائیں گی۔
کسی بھی شعبے میں بہتر منصوبہ بندی اور معاشی دانش مندی سے محروم حکومت آئی ایم ایف کے ساتھ پندرہ سال کا معاہدہ کرنے جارہی ہے۔ یوں مستقبل میں آنے والی دو حکومتوں کی گردن میں قرض کا طوق ڈال رہی ہے۔ اس معاشی پس منظر کے ساتھ وزیراعظم سعودی عرب گئے تھے جہاں جانے کا ایک مقصد سعودی حکومت کو اخلاقی حمایت دینا تھا، کیونکہ سعودی صحافی جمال خاشقجی کے ترکی میں قتل کے بعد ائربس سمیت دنیا کے بڑے سرمایہ کار گروپس ریاض میں ہونے والی عالمی سرمایہ کاری کانفرنس میں شرکت سے انکار کرچکے ہیں۔ سعودی عرب جانے سے قبل وزیراعظم عمران خان کی اسلام آباد میں قطری وزیرِ خارجہ سے ملاقات ہوئی۔ اس ملاقات کے ردعمل میں یو اے ای کے سرمایہ کاروں کے ایک وفد نے پاکستان کا دورہ ہی معطل کردیا۔ ناراضی کی یہ لہر مزید آگے بڑھ سکتی ہے، تاہم یہ معاملہ اب حل ہوچکا ہے۔ اگر یہ طول پکڑ لیتا تو ملک میں معاشی بحران گمبھیر ہوسکتا تھا۔ سعودی امداد کے باوجود ملکی معیشت کا منظرنامہ کچھ اچھا نہیں ہے، کیونکہ عالمی مالیاتی جائزے کی ایجنسی موڈی کی رپورٹ کے مطابق 19۔2018ء میں پاکستان کو بیرونی ذرائع سے30 ارب ڈالر درکار ہوں گے۔ حکومت چاہتی ہے کہ زرمبادلہ کے ذخائر کم از کم تین ماہ کی مالیاتی ادائیگیوں اور درآمدات کی لاگت ادا کرنے کے قابل بنا لیے جائیں۔ اگرچہ اسے سعودی عرب سے کچھ ریلیف مل گیا ہے مگر خساروں کا پرنالہ اپنی ہی جگہ رہے گا۔