پاک افغان سرحد پر دونوں ممالک کے درمیان مختلف النوع تنازعات پیدا ہوتے رہتے ہیں۔ بعض اوقات نوبت دونوں جانب کی فورسز کے درمیان تصادم تک پہنچ جاتی ہے اور جانی و مالی نقصانات وقوع پذیر ہوجاتے ہیں۔ مئی 2017 ء میں مردم شماری کے مسئلے پر چمن سرحد پر گویا جنگ چھڑ گئی تھی۔ نتیجتاً درجن سے زائد عام شہری جاں بحق ہوگئے تھے۔ افغان فورسز کا بالخصوص جانی و مالی نقصان ہوا۔ یہ واقعہ افغان فورسز کی پاکستانی حدود میں ہونے والی مردم شماری کے عمل میں بے جا مداخلت، حملے اور دراندازی کے باعث رونما ہوا تھا۔ اتوار 14 اکتوبر 2018ء کی دوپہر ایک بار پھر سرحد پر حفاظتی باڑ کے مسئلے پر کشیدگی بلکہ جنگ کی کیفیت پیدا ہوگئی۔ پاکستان نے اپنی سرحد پر حفاظتی باڑ لگانے کا کام بہت پہلے شروع کررکھا ہے جس پر اب تک کئی کلومیٹر کام مکمل ہوچکا ہے۔ اس سے قبل 2016ء میں پاکستانی فورسز بلوچستان سے ملحقہ پاک افغان سرحد پر 470کلومیٹر طویل خندق کا کام بھی مکمل کرچکی ہیں۔ اُس روز ضلع قلعہ عبداللہ سے متصل افغان سرحد کے ساتھ ’’تاندہ درہ‘‘کے مقام پر پاکستانی فورسز فینسنگ کے کام پر مامور تھیں کہ افغان فورسز نے انہیں باڑ لگانے سے منع کردیا، جس پر تلخی پیدا ہوئی اور بعد ازاں فائرنگ کا سلسلہ شروع ہوا جو رات تک جاری رہا۔ تنازع اُٹھنے کے ساتھ ہی افغان حکام نے چمن کے مقام پر’’ بابِ دوستی‘‘ کو مکمل بند کردیا۔ سرحد منگل 16 اکتوبر تک بند رہی۔ افغان فورسز کے اس اقدام سے خلق ِخدا عذاب میں مبتلا ہوگئی۔ دونوں جانب ہزاروں لوگ پھنس کر رہ گئے۔ تجارتی سرگرمیاں ٹھپ ہوگئیں۔ نیٹو سپلائی، افغان ٹرانزٹ سمیت ہر قسم کی تجارتی سرگرمیاں معطل ہوگئیں۔ دونوں جانب کے تاجروں کو کروڑوں روپے کا نقصان ہوا۔ مقامی قبائلی عمائدین بالخصوص عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی صدر اور رکن بلوچستان اسمبلی اصغر خان اچکزئی مسلسل افغان حکام سے رابطے میں تھے۔ انہوں نے کشیدگی ختم کرانے اور سرحد آمدورفت کے لیے کھلوانے کی اپنی حد تک کوششیں کیں۔ دراصل پاکستان کی حکومت اور فوج آہنی باڑ چوری چھپے نہیں لگارہی بلکہ یہ کام پاکستان اور افغانستان کے درمیان باضابطہ معاہدے کے تحت ہورہا ہے۔ اُس روز بھی پاکستانی سیکورٹی حکام نے معاہدے کی دستاویز افغان فورسز کو دکھائی تھیں۔ اصل میں افغان سرحدی فورسز کے کمانڈر قندھار پولیس کے سربراہ کمانڈر عبدالرازق (مرحوم) راہ میں حائل ہوگئے۔ پیش ازیں مردم شماری کے دوران خونیں تصادم بھی ان کی ہٹ دھرمی کے باعث پیش آیا تھا۔ کمانڈر عبدالرازق کو مرحوم اس لیے لکھا کہ حالیہ کشیدگی کے محض چند گھنٹوں بعد یعنی18 اکتوبر کو وہ قندھار میں ایک اہم اجلاس کے اختتام پر ’’انسائیڈر اٹیک‘‘ میں ہدف بن گئے۔ قندھار کے گورنر ہائوس میں ہونے والے اس اجلاس میں گورنر قندھار زلمے ویسا، افغانستان میں تعینات امریکی کمانڈر جنرل اسکاٹ ملر، پولیس چیف کمانڈر عبدالرازق اور دوسرے افغان و قابض نیٹو و امریکی سیکورٹی حکام شریک تھے۔ اجلاس ختم ہوا تو شرکاء ہیلی پیڈ کی طرف روانہ تھے کہ گورنر زلمے ویسا کے محافظین میں سے ایک نے انہیں ہدف بناکر فائر کھول دیا، جس سے کمانڈر عبدالرازق، افغان خفیہ ایجنسی کے مقامی چیف عبدالمومن حسین خیل اور ایک فوٹو گرافر جاں بحق ہوگئے۔ گورنر قندھار کے ترجمان عزیز احمد عزیزی، میوند کے کمانڈ جنرل نبی الہام، جنرل امام نظر بہبود کے ساتھ ساتھ تین غیر ملکی فوجی بھی زخمی ہوگئے، جن میں امریکی افواج کے بریگیڈیئر جنرل جیفری سمیلی بھی شامل ہیں۔ حملے میں جنرل اسکاٹ ملر محفوظ رہے۔ اسکاٹ ملر کے مطابق وہ حملہ آور کے نشانے پر نہ تھے، یعنی اُس کا ہدف ان کے بجائے دوسرے لوگ تھے۔ جبکہ اب تک کی اطلاع کے مطابق افغان طالبان نے ذمے داری قبول کرلی ہے۔ ذرائع ابلاغ پر ذمے داری کی قبولیت سے متعلق خبروں میں طالبان نے کہا کہ نشانہ جنرل اسکاٹ ملر بھی تھے۔ افغان پولیس اور جاسوسی کے ادارے تحقیقات میں لگے ہوئے ہیں۔21 اکتوبر کو گورنر قندھار کے مشیر برائے سماجی اُمور حاجی آغالالئی دستگیری نے افغان ذرائع ابلاغ کو تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ ’’حملے کا مرکزی منصوبہ ساز بصیر احمد نامی شخص ہے جس کا تعلق افغانستان کے صوبہ قندھار سے ہے، اور اُس نے اپنے خاندان کو اس حملے سے قبل پاکستان بھیج دیا تھا اور وہ خود بھی قندھار حملے سے ڈیڑھ گھنٹہ قبل پاکستان فرار ہوا، اس نے اپنی بیوی کی بیماری کا بہانہ بناکر رخصت لی تھی‘‘۔ حاجی آغالالئی دستگیری نے حملہ آور کا نام گلبدین بتایا جسے بصیر احمد نے حملے سے ڈیڑھ ماہ قبل اپنے بھانجے کے طور پر متعارف کرواکے گورنر قندھار کی سیکورٹی میں شامل کروایا تھا۔ گلبدین گورنر قندھار کے دفتر کے باہر گیٹ پر ڈیوٹی پر مامور تھا جو بہت جلد اپنے سینئرز کا اعتماد حاصل کرنے میں کامیاب ہوا۔ حملے سے پہلے گلبدین اپنے ہاتھ سے اناروں کا کریٹ بطور تحفہ لے کر امریکی جنرل ملر کے پاس پہنچا اور اس دوران اس نے فائرنگ شروع کردی۔ آغا لالئی دستگیری کے مطابق جنرل عبدالرازق عموماً گورنر ہائوس اکیلے آیا کرتے تھے، لیکن لگتا ایسا ہے کہ حملہ آور تمام اعلیٰ سیکورٹی حکام کے ایک جگہ اجتماع کا منتظر تھا۔ ان کے مطابق گورنر قندھار کے محافظین کے سربراہ سمیت تین اہلکار تفتیش کی غرض سے حراست میں ہیں۔ یعنی بصیر احمد بھی گورنر ہائوس کا ملازم تھا۔
افغان خفیہ ادارے این ڈی ایس کے سربراہ معصوم ستانکزئی نے 22 اکتوبر کو بتایا کہ ملزم نے حملے سے پانچ منٹ پہلے موبائل فون پر سرحد پار کسی سے بات کی ہے، اور اس نے فرضی نام سے جعلی افغان شناختی کارڈ حاصل کررکھا تھا۔ گویا سارا ملبہ پاکستان پر ڈالنے کی کوششیں بھی ہورہی ہیں۔ جب طالبان افغانستان کے ایک بڑے حصے پر قابض ہیں اور انہوں نے حالیہ افغان پارلیمانی انتخابات کے دوران محض کابل میں درجن سے زائد حملے کیے، جو اسی معاشرے کے افراد ہیں، جنہیں لاکھوں افغان عوام کی حمایت حاصل ہیں تو ایسے میں اُنہیں پاکستان میں منصوبہ بندی کی کیا ضرورت ہے! ہاں یہ حقیقت ہے کہ روزانہ ہزاروں افغان باشندے و خاندان پاکستان آتے اور جاتے ہیں۔ روزانہ کی بنیاد پر افغانستان کے مختلف علاقوں سے مریض پاکستان علاج کے لیے آتے ہیں۔ لہٰذا ایسے میں اگر گورنر ہائوس کا منصوبہ ساز بصیر احمد پاکستان آ بھی گیا ہو تو یہ اچنبھے کی بات نہیں ہے۔ پاکستان میں تو افغان سیکورٹی اہلکار اور سیاسی و قبائلی لوگ بھی آتے رہتے ہیں، اور بغیر دستاویزات کے آتے ہیں۔ چناں چہ اس حوالے سے افغان حکومت ہی کو سوچ بچار کرنی چاہیے کہ کیسے افغانوں کی اس آمدو رفت کو روکا جائے۔ غرض کمانڈر عبدالرازق ایک جری و متحرک جوان تھے۔ ان کی فی الواقع افغان حکومت کو ضرورت تھی۔ سرحدی علاقوں اور قندھار صوبے میں کمانڈر رازق افغان طالبان کے آگے حائل تھے۔ ان پر متعدد حملے کرائے گئے۔ ان پر تباہ کن خودکش حملے بھی ہوئے۔ ہمہ پہلو خطرات کے باوجود عبدالرازق نمایاں طور پر سیاسی، قبائلی اور سیکورٹی کے فرائض کی ادائیگی کرتے رہے۔ اگر انہیں طالبان نے مارا ہے تو یہ یقینا طالبان کی بڑی کامیابی ہے۔
پیش ازیں 17 اکتوبر کو ہلمند میں ایک دوسرے حملے میں کمیونسٹ دور کے جنرل، عبدالجبار قہرمان بھی جاں بحق ہوگئے۔ انہیں اپنے سیاسی دفتر میں کرسی کے نیچے بم نصب کرکے نشانہ بنایا گیا۔ گویا یہ بھی انسائیڈر اٹیک تھا۔ عبدالجبار قہرمان نائن الیون کے بعد بننے والی پارلیمنٹ کے رکن بھی رہ چکے تھے۔ غالباً ان دنوں اپنی سیاسی جماعت کے تحت سیاسی عمل میں شریک تھے۔ ان افراد کی شناخت پاکستان مخالف طبقوں میں سے تھی۔ گورنر ہائوس کے اس واقعے کے بعد صوبہ قندھار میں 20 اکتوبر کو ہونے والے افغان پارلیمانی انتخابات ملتوی کرنا پڑے۔ حکومتِ پاکستان اور آرمی چیف نے اس واقعے کی مذمت کی ہے۔ پاکستان کی سیاسی جماعتوں عوامی نیشنل پارٹی اور پشتون خوا مّلی عوامی پارٹی کی جانب سے عبدالرازق اچکزئی اور مقامی انٹیلی جنس چیف کی غائبانہ نمازِ جنازہ ادا کی گئی۔ غرض حالیہ سرحدی تنازعے کے محرک کمانڈر رازق تھے۔ افغان حکومت نے ان کے چھوٹے بھائی تادین اچکزئی کو قندھار پولیس کا چیف مقرر کردیا ہے۔
ادھر پاک ایران سرحدی علاقوں میں ایران مخالف مسلح گروہ کی سرگرمیاں دکھائی دی ہیں، جنہوں نے غالباً16 اکتوبر کو ایرانی سرحد پر پاسدارانِ انقلاب کے حساس شعبے کے دو افسران سمیت 14اہلکاروں کو اغوا کرلیا ہے۔ ایران کہہ چکا ہے کہ مغوی اہلکاروں کو مسلح گروہ پاکستان کے اندر لے جاچکے ہیں۔ یہ اہلکار صبح سویرے ’’لولکدان‘‘ کے سرحدی علاقے سے یرغمال بنائے گئے۔ ایرانی میڈیا نے بتایا ہے کہ ذمے داری جیش العدل نامی تنظیم نے قبول کرلی ہے۔ بہرحال یہ سنگین مسئلہ ہے۔ پاک ایران سرحد بھی طویل اور دشوار گزار ہے۔ یقینا اغوا کار گروہ کے خلاف پاکستان کی فورسز کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کریں گی، اگر واقعی وہ پاکستانی حدود میں داخل ہوئے ہوں گے۔