وفاقی حکومت اقتدار سنبھالنے کے بعد جن چھوٹے چھوٹے معاملات میں الجھ کر رہ گئی تھی لگتا ہے کہ اب اُن سے کسی حد تک نکل آئی ہے۔ اگرچہ اُسے اس کی خاصی قیمت ادا کرنا پڑی ہے۔ ابتدا ہی میں حکومت پر ناتجربہ کاری، ویژن کی کمی، ہوم ورک اور اچھی ٹیم کے فقدان کے الزامات لگے اور ضمنی انتخابات میں اسے خاصی شرمندگی بھی اٹھانا پڑی۔ سادگی کے اعلان کے باوجود پروٹوکول، کفایت شعاری کے دعووں کے ساتھ ہیلی کاپٹر سروس پر اصرار، سیاسی عدم مداخلت کی باتوں کے ساتھ بیوروکریسی اور پولیس میں اکھاڑ پچھاڑ، آئی ایم ایف جانے کے معاملے پر بار بار مؤقف میں تبدیلی، وزراء کی بدزبانیاں اور مخالفین کی پکڑ دھکڑ جیسے معاملات نے حکومت کو خاصی پریشانی میں رکھا۔ لیکن دو معاملات ایسے تھے جن کی وجہ سے حکومت کے اعصاب پر سب سے زیادہ دبائو آیا۔ ایک اپوزیشن جماعتوں کا اتحاد، اور اُس کے نتیجے میں ضمنی انتخابات میں اپوزیشن کی بہتر کارکردگی، اور دوسرا حکومت کے بارے میں عدلیہ کے سخت ریمارکس۔ اپوزیشن کے ساتھ یہ آنکھ مچولی تو پانچ سال چلتی رہے گی۔ کبھی حکومت کی چت ہوگی اور اپوزیشن کی پٹ، اور کبھی یہی معاملہ اپوزیشن کے ساتھ ہوگا۔ لیکن عدلیہ کے سخت ترین ریمارکس خصوصاً وزیراعظم اور وزیراعلیٰ پنجاب کا نام لے کر اظہارِ برہمی اور کبھی تحریک انصاف اور نئے پاکستان کا ذکر کرکے اظہارِ ناپسندیدگی ایسی چیز تھی جسے چند دنوں کی حکومت ٹھنڈے پیٹوں قبول نہیں کرسکتی تھی۔ اگرچہ سرکاری سطح پر اس معاملے پر کوئی ردعمل نہ دے کر دانش مندی کا ثبوت دیا گیا، لیکن حکومت اور پارٹی کے اندر اس معاملے پر اضطراب موجود تھا جس کا پارٹی اور حکومت کے حلقے نجی محفلوں میں ذکر بھی کرتے رہے۔ ڈی پی او پاکپتن کے تنازعے اور اُس پر آئی جی کی رپورٹ پر عدلیہ کا اظہارِ برہمی، اور وزیراعلیٰ پنجاب کی عدالت میں معذرت، اور منشا بم کے معاملے میں تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی اور رکن صوبائی اسمبلی کی سرزنش، اور پولیس افسران کو عدالت کی یہ ہدایت کہ وہ اپنی وردی کی طاقت کو پہچانیں اور وزیراعلیٰ بلکہ وزیراعظم کا بھی غیر قانونی حکم نہ مانیں… ایسے ریمارکس تھے جن سے حکومت خاصی سبکی محسوس کررہی تھی اور اس کے مخالفین بغلیں بجا رہے تھے۔ اس صورتِ حال نے سیاسی اور دانشور حلقوں میں ایک بحث چھیڑ دی جو اب تک جاری ہے۔ ایک حلقے کا خیال ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کبھی بھی جمہوری یا منتخب قوتوں کو فری ہینڈ نہیں دیتی، نہ اب دینے کو تیار ہے، وہ تھوڑے تھوڑے وقفے سے منتخب افراد اور منتخب حکومتوں کی کمزوریاں سامنے لاتی رہتی ہے تاکہ اس کی بالادستی قائم رہے۔ ورنہ یہ کمزوریاں تو دوسرے اداروں اور اسٹیبلشمنٹ میں بھی موجود ہوتی ہیں، مگر ان کی تشہیر نہیں ہوپاتی۔ اس نقطہ نظر سے اختلاف کرنے والے دانشور حلقوں کا کہنا ہے کہ منتخب افراد، جماعتیں اور حکومتیں اسٹیبلشمنٹ کو خود موقع فراہم کرتے ہیں، اُن کی اپنی غلطیاں ہی عوام کے سامنے آتی ہیں۔ اگر وہ خود ذمے داری سے کام کریں تو اس صورتِ حال سے بچ سکتے ہیں۔ ایک اور طبقے کا خیال یہ ہے کہ ڈی پی
او پاکپتن کے معاملے میں خاتونِ اوّل کے سابق شوہر، وزیراعلیٰ پنجاب اور اُن کے دوست احسن گجر کا رویہ قابلِ گرفت تھا اور منشا بم کے معاملے میں ارکانِ اسمبلی کی کمزوریاں واضح تھیں، جس پر انہوں نے معافیاں بھی مانگیں، مگر ان دونوں کیسوں میں پولیس کے معاملات بھی قابلِ گرفت تھے۔ لیکن دونوں معاملات میں پولیس میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے اپنی مظلومیت اور بے بسی کی تصویر پیش کرنے میں کامیاب رہی، جبکہ حکمران جماعت کے مخالفین نے بغض و عناد میں پولیس ہی کے مؤقف کو سپورٹ کیا۔ اس صورتِ حال میں عدلیہ کے سامنے جو تصویر تھی اُس نے اسی پر اپنے درست ریمارکس دیئے۔ ان حلقوں کا کہنا ہے کہ پولیس ماضی میں بھی ایسا کرتی رہی ہے، ورنہ عام آدمی بلکہ طاقتور شریف طبقات بھی پولیس کے ناروا سلوک، تشدد کے بے دریغ استعمال، رشوت ستانی، ظالموں کا ساتھ اور مظلوم کے ساتھ مزید ظلم و زیادتی کے ہمیشہ شاکی رہتے ہیں۔ لیکن شاید معاشرے پر پولیس کا رعب اور خوف اتنا زیادہ ہے کہ لوگ احتجاج نہیں کرپاتے۔ انتظامیہ اور حکومتوں کا معاملہ یہ ہے کہ انہیں امن وامان کا مسئلہ اور دیگر بہت سے معاملات اسی پولیس کے ذریعے حل کرنا ہوتے ہیں۔ منتخب نمائندوں کو زیردست طبقات پر اپنا تسلط اسی پولیس کے ذریعے قائم رکھنا ہوتا ہے، اور بدقسمتی سے انسپکٹر سے لے کر آئی جی تک پولیس اہلکاروں کے اشرافیہ میں گہرے رابطے اور تعلقات موجود ہوتے ہیں۔ لیکن سب سے اہم پولیس کی میڈیا مینجمنٹ ہے، اس وقت رپورٹر کی سطح کے اخبار نویس عملی طور پر پولیس کے پی آر او بنے ہوئے ہیں، جبکہ بڑے صحافی، مالکان اور اینکرز پولیس افسران کے ساتھ اپنے تعلق پر فخر کرتے ہیں اور ان میں اضافے کے لیے ہمیشہ کوشاں رہتے ہیں، کیونکہ رپورٹر کو تھانے کی سطح پر اور بڑے اخبار نویسوں کو بڑے مالی اور انتظامی معاملات میں پولیس ہی کی مدد کی ضرورت پڑتی ہے۔ یہ افسوسناک صورتِ حال اس ملک میں پولیس کو ہر روز مضبوط سے مضبوط تر کررہی ہے، جبکہ اس کی کارکردگی ہر روز خراب ہورہی ہے۔ کروڑوں روپے کے فنڈز، جدید ترین آلات اور سخت تربیت کے باوجود ہر قسم کے جرائم بڑھ رہے ہیں اور ہر معاملے میں جہاں پولیس متنازع ہوتی ہے کوئی مؤثر طبقہ اس کی پشت پر آکھڑا ہوتا ہے۔ یہ تو غنیمت ہے کہ ہماری عدلیہ پولیس کو اپنے اخلاقی دبائو اور عدالتی فیصلوں کے ذریعیحدودمیں رکھے ہوئے ہے، ورنہ تو یہ عوام کو کھا جائیں۔ پولیس کی میڈیا مینجمنٹ حالیہ معاملات میں بھی بہت ماہرانہ، پیشہ ورانہ اور تیز تھی، اور ماضی میں بھی ایسی ہی رہی ہے۔ پولیس نے میڈیا کے ذریعے یہ کیس بنایا کہ پاکپتن میں روکے جانے والے بچے خاور مانیکا کے تھے۔ حالانکہ یہ بشریٰ بی بی کے بھی بچے تھے۔ خاور مانیکا وہاں موجود ہونے کی وجہ سے فوری طور پر معاملے میں غیر محتاط انداز میں کود پڑے، اور شاید ہر باپ ایسے ہی کرتا۔ خاور مانیکا خود ایک اعلیٰ سرکاری افسر ہیں بلکہ شاید ڈی پی او سے گریڈ میں زیادہ ہوں گے۔ ہوسکتا ہے وہ اسی زعم میں گئے ہوں۔ لیکن پولیس نے معاملے کو بشریٰ بی بی کے ساتھ جوڑ کر سیاسی رنگ دے دیا۔ میڈیا نے اسے خوب اچھالا، سوشل میڈیا سرگرم ہوگیا اور سیاسی مخالفین متحرک ہوگئے۔ اس معاملے میں وزیراعلیٰ کی احسن گجر کے ذریعے مداخلت واقعی قابلِ افسوس تھی جس کا معزز عدلیہ نے نوٹس بھی لیا ہے۔ لیکن تاحال اُن بچوں کے ساتھ بدتمیزی کرنے والے پولیس اہلکاروں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ لاہور میں منشا بم، جس پر 70 سے زائد مقدمات ہیں، اسے تو پولیس نے 6 ماہ تک گرفتار نہیں کیا، بلکہ عدالتی حکم پر بھی گرفتار نہیں کیا، وہ خود پیش ہوگیا۔ یاد رہے کہ لاہور کے علاقے جوہر ٹائون اور دیگر پوش علاقوں کے قیمتی پلاٹ قبضہ گروپوں کے قبضے میں ہیں مگر پولیس کوئی کارروائی نہیں کرتی، جس پر لوگوں کا الزام ہوتا ہے کہ پولیس ان گروپوں سے ملی ہوئی ہے۔ عوام کے لیے انتہائی جابر اور ظالم پولیس عدالتوں میں مظلوم بن کر آجاتی ہے، میڈیا اور بعض سیاسی اشرافیہ سے حمایت حاصل کرلیتی ہے اور معاملات جوں کے توں رہتے ہیں۔ ادارہ منہاج القرآن میں بے گناہ مارے جانے والے 14 افراد کے قاتل تو پولیس نے ابھی تک گرفتار نہیں کیے، بلکہ ان کے قاتلوں میں کئی پولیس اہلکاروں کے نام بھی آتے ہیں۔ پنجاب میں ماضی میں پولیس مقابلے عام تھے اور ان میں سے بیشتر جعلی تھے، مگر شاید ہی کسی پولیس اہلکار کو سزا ہوئی ہو۔ پولیس کی میڈیا مینجمنٹ کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ دو تین سال قبل قصور میں ایک مشتعل ہجوم نے توہینِ متبرک کاغذات کے نام پر ایک عیسائی میاں بیوی کو زندہ جلادیا۔ یہ ہجوم کئی گھنٹے سے وہاں موجود تھا، آگ لگنے کے بعد بھی دونوں کے مرنے میں کچھ وقت لگا ہوگا، پولیس اُن کو تو مشتعل ہجوم سے نہ بچا سکی البتہ میڈیا پر یہ خبریں چلنے لگیں کہ ڈی پی او نے پولیس فورس کے ساتھ جاکر مشتعل ہجوم پر قابو پایا، اگر وہ بروقت نہ پہنچتے تو بہت زیادہ نقصان ہوجاتا۔ نقصان تو دو انسانی جانوں کا ہوگیا مگر کریڈٹ پولیس لیتی رہی۔ اسی طرح ان ہی دنوں لاہور کی کچی آبادی یوحنا آباد میں ایک چرچ میں دھماکے کے بعد دو بے گناہ مسلمان نوجوانوں کو مشتعل ہجوم نے آگ لگا کر زندہ جلادیا۔ پولیس انہیں تو نہ بچا سکی البتہ میڈیا پر یہ مہم چلاتی رہی کہ پولیس کی مداخلت سے بہت سی جانیں بچ گئیں۔ بدقسمتی سے ان دونوں واقعات میں پولیس کی کسی ذمے داری کا تعین نہ کیا جاسکا۔ حال ہی میں جیو کے رپورٹر کے ٹریفک وارڈنز سے جھگڑے میں بے چارہ رپورٹر معطل ہوگیا لیکن کسی ٹریفک اہلکار کے خلاف کوئی کارروائی نہ ہوئی۔ ہیلمٹ مہم کے دوران بھی لاہور میں صحافیوں اور ٹریفک پولیس کے درمیان جھگڑے میں پولیس ہی میڈیا میں بھی مظلوم کا روپ دھارے نظر آئی۔ پولیس کی یہ میڈیا مینجمنٹ یقینا پولیس کی پیشہ ورانہ اپروچ اور کریڈٹ ہے، لیکن اس سے مظلوم عوام اور سیاسی مخالفین کی حق تلفی بلکہ ان کی کردارکشی بھی ہورہی ہے۔ یہ رجحان کسی طرح بھی قابلِ تعریف نہیں، اسی طرح کے اقدامات کسی ملک کو پولیس اسٹیٹ بناتے ہیں۔