نئے اور پرانے بلدیاتی نظام کی بحث

یہ بات بلا شک وشبہ کہی جا سکتی ہے کہ بلدیاتی ادارے نہ صرف کسی بھی مہذب جمہوری معاشرے کا حسن ہوتے ہیں بلکہ انہیں جمہوریت کی نرسری اور بنیادی اکائی بھی کہا جاتا ہے۔ ہمارے ہاںبلدیاتی اداروں کو زیادہ تر پذیرائی جمہوری حکومتوںکے بجائے آمرانہ حکومتوں میں ملتی رہی ہے جس کی نمایاں مثال پاکستان میں بلدیاتی نظام کا پہلی دفعہ فیلڈ مارشل ایوب خان کے دورِ صدارت میں متعارف ہونا تھا۔ بعد میں جنرل ضیاء الحق دوسرے اور جنرل پرویز مشرف تیسرے فوجی حکمران تھے جنہوں نے بلدیاتی نظام کی آڑ میں جمہوریت اور جمہوری اداروں کو یرغمال بنانے کی ہر ممکن کوششیں کی تھیں۔ دوسری جانب جمہوری ادوارِ حکومت میں بلدیاتی انتخابات سے ہمیشہ پہلوتہی کی جاتی رہی ہے، جس کی نمایاں ترین مثال جہاں ذوالفقار علی بھٹو کا پانچ سالہ منتخب دورِ حکومت ہے، وہاں آصف علی زرداری کے پانچ سالہ عرصۂ صدارت کے علاوہ میاں نوازشریف اورمحترمہ بے نظیر بھٹو کے ادوارِ حکومت میں بھی بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے بالعموم ٹال مٹول سے کام لیا جاتا رہا ہے۔
دراصل ہمیں یہ تمہید ان خبروں کے تناظر میں باندھنی پڑی ہے جن میں کہا گیا ہے کہ نئے مجوزہ بلدیاتی نظام میں پشاور کو شہری اور دیہی تحصیلوں میں تقسیم کرکے ضلعی حکومتوں کے نظام کو ختم کردیا جائے گا۔ ان اطلاعات کے مطابق نئے بلدیاتی نظام میں یونین کونسل کی معروف اکائی کو ختم کرتے ہوئے ویلیج اور نیبرہوڈ کونسلوں کو برقرار رکھا جائے گا اور ان کو مقامی ویلیج اور نیبر ہوڈ کونسلوں کے ترقیاتی کاموں کی ذمے داری دی جائے گی۔ مقامی کونسل میں ناظم، نائب ناظم، ایک جنرل کونسلر اور چار مخصوص نشستوں مزدور کسان، خاتون، اقلیتی اور نوجوانوں کی نشست پر منتخب ہونے والے ارکان سمیت کُل سات ارکان ہوں گے، جبکہ ان کا الیکشن غیر جماعتی بنیادوں پر ہوگا۔ نئے بلدیاتی نظام کے دوسرے درجے میں تحصیل میونسپل ایڈمنسٹریشن ہوگی جس کا کام میونسپل اور سوشل سروسزکی فراہمی ہوگی۔ تحصیل ناظم کا الیکشن جماعتی بنیادوں پر براہِ راست ووٹنگ کے ذریعے کیا جائے گا۔ اسی طرح ویلیج اور نیبرہوڈ کونسلوںکے ناظمین بربنائے عہدہ تحصیل کونسلوں کے ارکان ہوں گے۔ محکمہ بلدیات کی جانب سے سامنے آنے والی دستاویزات
کے مطابق صوبے میں ویلیج اور نیبر ہوڈ کونسلوں کے ارکان کی تعداد42 ہزار سے کم کرکے 24 ہزار 5 سو کرنے کی تجویز پیش کی گئی ہے، ان دستاویزات میں موجودہ بلدیاتی نظام کی خامیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے کم وسائل، انتظامی اخراجات، آڈٹ اور اکائونٹس کے حوالے سے درپیش مسائل کو اس پرانے بلدیاتی نظام کی اہم بنیادی خامیاں قرار دیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ جب سے وفاق میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت برسراقتدار آئی ہے تب سے ملک بھر میں یکساں بلدیاتی نظام کے نفاذ کی نہ صرف بازگشت سنائی دے رہی ہے بلکہ اس سلسلے میں وفاق کی سطح پر سابق چیف سیکریٹری خیبر پختون خوا ارباب شہزاد کی سربراہی میں ایک اعلیٰ سطحی ٹاسک فورس بھی تشکیل دی جا چکی ہے جس کے اب تک مختلف سطحوں پر متعدد اجلاس بھی منعقد ہوچکے ہیں، جن کے نتیجے میں مختلف النوع تجاویز سامنے آچکی ہیں جن پر تاحال کسی بھی اعلیٰ سطحی فورم پر اتفاقِ رائے کی کوئی مصدقہ اطلاع سامنے نہیں آئی، البتہ وزیراعظم عمران خان نیا بلدیاتی نظام فی الفور رائج کرنے کی ہدایات جاری کرچکے ہیں۔ نئے بلدیاتی نظام کی تیاری اور اس حوالے سے پیش آنے والی مشکلات اور تاخیر کے متعلق یہ بات سامنے آئی ہے کہ اس نئے مجوزہ نظام کی مخالفت جہاں پنجاب کی سطح پر حکومت اور اپوزیشن ارکان کی جانب سے یکساں طور پر کی جا رہی ہے، وہاں خیبر پختون خوا میں بھی پرانے بلدیاتی نظام (جس کے تحت 2014ء میںصوبے کی تاریخ کے متنازع ترین انتخابات منعقد ہوئے تھے) میں بھی کسی قسم کی تبدیلی بالخصوص ضلع کونسلوں کے خاتمے کے ساتھ ساتھ یونین کونسل کے مستحکم درجے کے خاتمے کے علاوہ ویلیج کونسل اور نیبرہوڈ کونسل کی سطح پر نشستوں کی تعداد چودہ سے گھٹا کر سات کرنے پر بھی منتخب بلدیاتی ناظمین اور کونسلروں کی جانب سے شدید تحفظات اور اعتراضات کا اظہار کیا جارہا ہے۔ نئے بلدیاتی نظام کے لیے کی جانے والی کوششوں کو دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ موجودہ بلدیاتی نظام جو پی ٹی آئی کا برین چائلڈ ہے اور جسے طویل بحث و تمحیص اور مشاورت کے بعد نہ صرف نافذ کیا گیا تھا بلکہ پی ٹی آئی کی قیادت اس کا کریڈٹ بھی لیتی رہی ہے، لہٰذا اگر اس میں کچھ ترامیم ناگزیر بھی ہیں تو اس سلسلے میں نہ صرف ایک بار پھر تمام اسٹیک ہولڈرز سے سنجیدہ مشاورت کی جانی چاہیے بلکہ اس پرانے نافذالعمل نظام کی خامیوں کی نشاندہی اور اس ضمن میں بہتری کے لیے سائنٹفک بنیادوں پر جہاں تمام سطحوں کے جملہ منتخب کونسلرز اور ناظمین کی رائے لیا جانا ضروری ہے۔
پاکستان تحریک انصاف ان دنوں جس بلدیاتی نظام کے خدوخال بنانے میں مصروف ہے اس پر اپوزیشن اور خاص کر سندھ اور بلوچستان حکومتوں کی جانب سے یہ اعتراض بھی سامنے آیا ہے کہ بلدیاتی نظام چونکہ خالصتاً صوبائی معاملہ ہے اس لیے پی ٹی آئی کویہ حق نہیں پہنچتاکہ وہ صوبوں کی رضامندی کے بغیر یکساں بلدیاتی نظام کا فیصلہ سب پر مسلط کرے۔ اس پر پی ٹی آئی کا اب تک کوئی واضح مؤقف سامنے نہیں آیا ہے۔ پی ٹی آئی کو بلدیاتی نظام کے حوالے سے کوئی بھی نیا تجربہ کرنے سے پہلے اپنے وضع کردہ پرانے بلدیاتی نظام (جس پر پی ٹی آئی کی قیادت اپوزیشن کی تمام تر تنقید اور تحفظات کے باوجود بہت نازاں تھی) کا حلیہ بگاڑنے یا پھر اسے سائنسی تحقیق اور عوامی رائے عامہ کو جانے اور جانچے بغیر رول بیک کرنے کے بجائے اس نظام میں موجود خامیوں کی نشاندہی اور ان کی اصلاحِ احوال پر توجہ دینی چاہیے، نہ کہ نئے تجربات کیے جائیں جو بعد میں آنے والی حکومتوں کے گلے کا طوق بن جائیں پی ٹی آئی حکومت بلدیاتی نظام میں اصلاحات کے نام پر 180 درجے کا یوٹرن لے کر جن متبادل تجاویز کو نئے بلدیاتی نظام کا حصہ بنانا چاہتی ہے اس کے متعلق ہم ان ہی صفحات میں وقتاً فوقتاً اپنے تحفظات کا اظہار کرتے رہے ہیں، جس میں نمایاں تنقید جہاں بلدیاتی اداروں کے درجات یعنی ٹیئرز کی تعداد میں اضافے پر کی جاتی رہی ہے، وہاں ویلیج کونسل اور نیبرہوڈ کونسل کی محدود سطح پر کونسلرز کی فوجِ ظفر موج کی بھرتی پر بھی تنقید کے نشتر چلائے جاتے رہے ہیں۔ جبکہ کونسلروں کی اتنی بڑی فوج کے درمیان اختیارات اور حقوق وفرائض کی عدم تقسیم سے بھی یہ پرانا بلدیاتی نظام میں مسائل رہے ہیں۔
نئے مجوزہ بلدیاتی نظام کا اب تک جو غیر حتمی ڈھانچہ سامنے آیا ہے اُس سے تو یہی تاثر ابھرتا ہے کہ موجودہ منتخب حکومت بھی ایک ایسا نظام مسلط کرنا چاہتی ہے جس میں اختیارات کا منبع عوامی نمائندوں کے بجائے بیوروکریسی کے ہاتھوں میں ہوگا۔ اگر موجودہ حکومت بلدیاتی نظام کو فلاحِ عامہ کے لیے ایک وسیع تر پلیٹ فارم کے طور پر بروئے کار لانا چاہتی ہے تو اسے بلدیاتی نظام کی خشتِ اوّل کے طور پر جہاں یونین کونسل کو مستحکم کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ وسائل اور اختیارات کی فراہمی پر توجہ دینا ہوگی، موجودہ بلدیاتی نظام کا ازسرنو جائزہ لیتے ہوئے مزدورکسان، نوجوان اور اقلیتی برادری کے لیے مختص غیر ضروری اور غیر حقیقت پسندانہ نشستوں کا ازسرنو جائزہ لیتے ہوئے یونین کونسل کی سطح پر ایک ہزار سے دوہزار ووٹرزپر مشتمل سب وارڈز (حلقے) بناکر یہاں سے غیرجماعتی بنیادوں پر مردوں کے لیے زیادہ سے زیادہ دو اور خواتین کے لیے ایک نشست مختص کرنی چاہیے۔ اس طرح ہر سب وارڈ سے سب سے زیادہ ووٹ لینے والے پہلے دو مرد کونسلرز اور ایک خاتون کونسلر یونین کونسل کے ممبر منتخب ہوسکیں گے، جس کے نتیجے میں ہر یونین کونسل میں قائم ہونے والے پانچ سے چھے سب وارڈز سے اوسطاً پندرہ سے اٹھارہ مرد اور خواتین کونسلر منتخب ہوکر یونین کونسل کا مؤثر اور بنیادی فورم تشکیل دے سکیں گے۔ یونین کونسل کی سربراہی کے لیے تمام متعلقہ سب وارڈز سے مشترکہ طور پر پارٹی بنیادوں پر ناظم یا چیئرمین منتخب کیا جا سکتا ہے جب کہ یونین کونسل کے منتخب ناظم یا چیئرمین کو بربنائے عہدہ ڈسٹرکٹ کونسل کا ممبر بنایا جاسکتا ہے، جس سے غیر ضروری اخراجات اور وسائل کی بچت کے ساتھ ساتھ وطنِ عزیز میں سیاسی جماعتوں کو گراس روٹ لیول پر اپنی جڑیں مضبوط کرنے کا موقع بھی ہاتھ آئے گا۔ اس طرح ڈسٹرکٹ کونسل کے ناظم یا چیئرمین کا انتخاب پارٹی بنیادوں پر پورے ضلع سے براہِ راست ووٹوں کے ذریعے کیا جاسکتا ہے۔ اس صورت میں ووٹرز کو الیکشن کے دن چار ووٹ پول کرنا ہوں گے جن میں ایک ووٹ اپنے سب وارڈ کے مرد کونسلر، دوسرا سب وارڈ کی خاتون کونسلر، تیسرا ووٹ یونین کونسل کے ناظم یا چیئرمین، اور چوتھا ووٹ ڈسٹرکٹ ناظم یا چیئرمین کے لیے پول کرنا ہوگا۔ اس نئے مجوزہ نظام سے جہاں عام سادہ لوح ووٹرز امیدواران کی سات آٹھ کیٹگریز کے غیر ضروری پیچیدہ عمل کی بھول بھلیوں میں کھونے سے بچ جائیں گے، وہاں اس سے وقت اور قومی وسائل کی بچت بھی ہوگی۔ یہاں ڈسٹرکٹ ناظم یا چیئرمین کے براہِ راست انتخاب کے ضمن میں یہ سوال بھی اٹھایا جا سکتا ہے کہ ایک امیدوار کے لیے اپنی انتخابی مہم کے سلسلے میں پشاور جیسے بڑے شہروں پر مشتمل پورے ضلع میں انتخابی مہم چلانا کیونکر ممکن ہوگا؟ تو اس سوال کا جواب یہ ہے کہ چونکہ ڈسٹرکٹ اور یونین کونسل کے ناظم یا چیئرمین کا انتخاب پارٹی بنیادوں پر ہوگا لہٰذا ہر پارٹی یونین کونسل اور ڈسٹرکٹ کونسل کے اپنے متعلقہ ناظمین یا چیئرمینوں کے مشترکہ پینل بنا کر ان کی انتخابی مہم چلا سکے گی، جس سے اگر ایک طرف ووٹرز میں سیاسی شعور اور احساسِ ذمے داری پیدا ہوگا تو دوسری جانب اس سے سیاسی جماعتوں کو اپنی صفیں نچلی سطح پر منظم کرنے کے وسیع تر مواقع بھی دستیاب ہوں گے۔