بلوچستان کی سیاست میں بڑے نشیب و فراز نظر آتے ہیں 1970ء میں نواب صاحبان اور سردار صاحبان عوام سے ووٹ مانگنے نکلے اور اس کے لیے سرگرداں رہے اور انتخابات نواب صاحبان اور سردار صاحبان جیت گئے یہ قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی میں پہنچ گئے یہ ان کا عوامی دور تھا اور انہوںنے سیاسی پارٹیوں میں پناہ لی اور یوں یہ صاحبان سیاسی پارٹیوں کے جہاں پناہ بن گئے اور سیاسی پارٹیاں نے ان کی جیبوں میں آگئی۔ سیاست نے ان نوابوں اور سرداروں کو دو آتشہ بنادیا قبائلی نظام میں سردار اور نواب اور سیاسی میدان میں پارلیمنٹ ان کی آما جگاہ بن گئی اس کی ابتداء لارڈ رابرٹ سنڈیمن نے کی تھی، جرگہ کے ذریعے قانون ان کے ہاتھ میں دے دیا یوں برطانیہ نے سرداروں اور نوابوں کو اپنے نظام کے لیے استعمال کیا۔ لیویز ان کے تابع ہوگئی ان نوابوں اور سرداروں کو شاہی جرگہ میں مقام عطا فرمایا ان کا وظیفہ مقرر کیا برطانوی سامراج کا یہ سیاسی نقشہ دراصل خان قلات کو کمزور کرنے کے لیے اپنایا گیا تھا برطانیہ خان کی قوت کو کمزور کرکے سرداروں کو مضبوط بنانا چاہتا تھا اور 1970ء کے انتخابات میں نیپ نے ان وار لارڈز کو استعمال کیا اور خان کے شہزادوں کو شکست دی۔ شہزادہ کریم کو استعمال کیا اور شاہی خانوادے کے خلاف کھڑا کیا اس کے بعد کیا ہوا وہ اب تاریخ کا حصہ ہے بلوچستان کی سیاست اور قبائلی نظام کو سمجھنے کے لیے مختصر سا تجزیہ اس لیے کیا کہ 2018ء کے انتخابات نے تو بلوچستان کی سیاست میں ایک ارتعاش کی کیفیت پیدا کردی ہے بلکہ سیاست کا سیاسی زلزلہ بنا اور اس زلزلہ نے نوابوں اور سرداروں کو جھٹکا کردیا اور وہ مد مقابل عام لوگوں سے ہار گئے۔ 2018ء کے انتخابات کی ایک جھلک ملاحظہ ہو نواب چنگیز خان مری ہار گئے نوابزادہ گزین مری ہار گئے نواب جوگیزئی ہار گئے۔ نواب شاہوانی ہار گئے سردار ترین ہار گئے سردارزادے ہارگئے۔ خان ہار گیا( محمودخان اچکزئی) کون نہیں ہارا یہ اعصاب شکن شکست تھی ہارنے والے اپنی ہار تسلیم نہیں کررہے ہیں اور انہیں یقین نہیں آرہا ہے کہ وہ ہارگئے ہیں اور جیتنے والے اپنی جیت پر حیران ہورہے ہیں۔ سیاست کے میدان میں قبائلی سردار داخل ہوگئے ہیں سیاسی پارٹیاں مضبوط ہوگئی ہیں یہ مختصر جائزہ مستونگ کی نشست پر چیف آف ساراوان کی جیت کے حوالے سے کررہا ہوں چیف آف ساراوان کی سیاست کا آغاز نواب غوث بخش خان رئیسانی نے کیا انہوںنے بلوچستان متحدہ محاذ تشکیل دیا۔ 1969ء میں اس کا پہلا کنونشن ساراوان ہائوس میں ہوا اس کنونشن میں جی ایم سید، آغا غلام نبی پٹھان، حاجی مراد جمالی، سردار دودا خان زرکزئی اور دیگر زعماء شریک تھے اس کنونشن سے میرا خطاب بھی تھا۔ یوں نواب غوث بخش رئیسانی نے سیاست میں قدم رکھا ان کا آغاز تھا انتخاب میں اپنی صوبائی نشست جیت لی اور نواب صاحب پیپلزپارٹی کے قریب چلے گئے نیپ اور بھٹو کی سیاسی کشمکش کا دور تھا بھٹو نے نواب غوث بخش رئیسانی کو گورنر بلوچستان نامزد کردیا ان کا دور گورنری 21-07-1971 سے 25-12-1997 تک رہا۔ یہ ہنگامہ خیز دور تھا گورنر بلوچستان جناح روڈ سے گزر نہ سکے شہر بھر میں اس کے خلاف ردعمل تھا احتجاج ہورہا تھا نواب بگٹی اور نیپ میں ٹھن گئی تھی وہ احتجاج کررہے تھے اور شہر میں جلوس کی قیادت کررہے تھے اس ہنگامی دور میں بھٹو اور نیپ میں صلح ہوگئی میر غوث بخش بزنجو مرحوم نے گورنری کا حلف چھبیس دسمبر1971ء کو اٹھالیا اور انتیس اپریل کو ان کا دور گورنری ختم ہوگیا نواب غوث بخش رئیسانی پانچ فروری 1972ء کو قائد حزب اختلاف تھے یوں نواب غوث بخش رئیسانی مختصر دور کے لیے مختلف عہدوں پر رہے نواب غوث بخش رئیسانی 1978-1973ء تک وزیر خزانہ، خوراک رہے۔1977ء میں نواب صاحب وزیر لوکل گورنمنٹ، زراعت رہے جنرل ضیاء الحق نے تختہ الٹ دیا اور حکومت ختم ہوگئی قبائلی نظام میں بعض دفعہ اہم شخصیات کو جان سے ہاتھ دھونا پڑا ایک معمولی سے تصادم کے نتیجے میں نواب غوث بخش رئیسانی قتل ہوگئے اور نوابی محمداسلم رئیسانی کے سر پر سجادی گئی یوں محمد اسلم رئیسانی نواب بن گئی 1988ء میں انتخابات ہوئے تو نواب محمد اسلم رئیسانی PB-27 قلات سے ممبر صوبائی اسمبلی منتخب ہوگئے نواب اسلم رئیسانی کے سیاسی دور کا آغاز ہوگیا یہ اسمبلی سات اگست 1990ء تک تھی اس کے بعد 1990ء سے صوبائی اسمبلی تھی اور نواب محمد اسلم خان رئیسانی PB-27 قلات سے ممبر منتخب ہوگئے اور وزیر خزانہ بنے اس اسمبلی کی مدت دس جولائی 1993ء کو ختم کردی گئی۔1993ء سے 1996ء تک نوابزادہ حاجی لشکری رئیسانی ممبر بن گئے اور وزیر بن گئے اس کے بعد رئیسانی خاندان ایوان سے باہر رہا پھر نواب صاحب پی پی پی میں شامل ہوگئے اور نوابزادہ حاجی لشکری رئیسانی نے پی پی پی کو حکومت دلادی بھرپور جدوجہد کی اور اقتدار پیپلز پارٹی کے ہاتھ آگیا اور یوں نواب اسلم رئیسانی وزیراعلیٰ بن گئے ایک سردار رند کے علاوہ تمام اسمبلی نواب رئیسانی کے جیب میں تھے حزب اختلاف کا وجود ہی نہیں تھا نواب محمد اسلم خان رئیسانی کا یہ دور بلوچستان کی تاریخ میں سنہرا دور تھا ہر ایک وزیر جتنا سمیٹ سکتا تھا اس کو اجازت تھی پیپلزپارٹی کے لیے بھی سنہرا دور تھا اس سنہرے دور نے 2018ء تک پہنچتے پہنچتے پی پی پی کا بلوچستان سے صفایا کردیا اور حاجی لشکری نے پی پی پی سے استعفیٰ دیا اور مسلم لیگ ن میں شریک ہوگئے۔ پھر مسلم لیگ سے بھی استعفیٰ دے دیا یوں کچھ عرصہ وہ غور و فکر کرتے رہے اور بالآخر بی این پی میں شامل ہوگئے اور قومی اسمبلی میں کھڑے
ہوئے اور قاسم سوری سے ہارگئے اس نشست پر محمودخان بھی ہارگئے حافظ حمداللہ بھی ہارگئے پی ٹی آئی کے لیے جیت کی ہوا چلی ہوئی تھی۔ 2018ء کے انتخابات میں سیاسی گاڈ فادر گرے ہیں اور ابھی تک سنبھل نہیں پائے ہیں۔ اب مستونگ کی نشست پر نواب محمداسلم رئیسانی نے کامیابی حاصل کی ہے سرداروں کو شکست دی بلکہ ایک نواب نے سیاست کے باپ کو شکست دی۔2018ء کے انتخابات میں سب جانتے ہیں کہ نوابوں اور سرداروں کو شکست ہوئی ہے تو ایسی سیاسی فضاء میں نواب محمد اسلم رئیسانی کی جیت بڑی جیت ہے مستونگ کی نشست پر ان کے بھائی سراج رئیسانی مد مقابل تھے اور ایک حادثہ کا شکار ہوگئے یہ بڑا حادثہ تھا کئی غریب گھرانوں کے چراغ گل ہوگئے ہیں اب جس اسمبلی میں نواب محمد اسلم رئیسانی حلف اٹھانے جارہے ہیں اس اسمبلی میں سردار یار محمدرند بھی موجود ہیں۔2008ء کی اسمبلی میں سردار یار محمدرند بھی ممبر منتخب ہوئے تھے مگر صرف ایک یا دوبار ایوان میں آئے پھر نہیں آئے۔ بلوچستان کی سیاست پر نظر رکھنے والے جانتے ہیں رئیسانی اور رند کے درمیان کیا تنازعہ ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ اس ایوان میں کیا نقشہ بنے گا اب وقت آگیا ہے کہ قبائل کی چپقلش کو ختم ہونا چاہیے اور قبائل کے جھگڑے ختم ہوں اور خون ریزی ختم ہو ایک نئے خوشگوار باب کا اضافہ ہو اور قبائلی باہم شیر و شکر ہوجائیں۔ وقت آگیا ہے کہ بلوچوں کا ایک گرینڈ جرگہ تشکیل دیا جائے اور بلوچوں کے خان کو جلاوطنی کی زندگی کا باب ختم کرکے اپنے آبائی علاقے میں لوٹ آنا چاہیے یہ وقت کا تقاضا ہے اور اپنی خانی کی نشست کو سنبھال لیں اور قبائلی جھگڑوں کو ختم کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔