۔’ ’علم تشریح الابدان‘‘ علم طب پر اردو زبان میں اہم کتاب

وفاقی وزیر برائے مذہبی امور اور بین المذاہب ہم آہنگی علامہ نورالحق قادری نے کہا ہے کہ ’’علم ِتشریح الابدان‘‘ کتاب ہر دارالفتویٰ کی ضرورت ہے جس سے نہ صرف فقہ کے موجودہ مسائل کو حل کرنے میں مدد ملے گی بلکہ اس سے دینی مدارس کے طلبہ وطالبات اور علمائے کرام کو بھی آسان زبان میں انسانی بدن سے متعلق طبی مسائل کو سمجھنے میں خاطرخواہ آسانی ہوگی۔ وہ پشاور میڈیکل کالج پشاور اور اسلامی نظریاتی کونسل اسلام آبادکے اشتراک سے ملک کے ممتاز فزیشن اور ماہر گیسٹرانٹالوجسٹ پروفیسر ڈاکٹر نجیب الحق کی شائع ہونے والی طب سے متعلق کتاب ’’علم ِتشریح الابدان‘‘ کی تقریب رونمائی سے بطور مہمان خصوصی خطاب کررہے تھے، جب کہ اس موقع پر اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر قبلہ ایاز، جامعہ عثمانیہ پشاور کے مہتمم مفتی غلام الرحمان اور پشاور میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج کے ڈین پروفیسر ڈاکٹر نجیب الحق کے علاوہ دینی مدارس اور جدید تعلیمی اداروں کے اساتذہ، مختلف یونیورسٹیوں کے پی ایچ ڈی اسکالرز اور طلبہ وطالبات کی ایک بڑی تعداد بھی موجود تھی۔ علامہ نورالحق قادری نے کہا کہ اس کتاب کی تصنیف سے مدارس کے اساتذہ کرام کے ساتھ ساتھ مختلف شعبوں میں تخصص کرنے والے دینی مدارس اور دارالفتاویٰ کے طلبہ وطالبات کو اہم معلومات دستیاب ہوں گی۔ انہوں نے کہا کہ یہ کتاب ہر دارالفتویٰ کے لیے مفید ہے جس میں بدن سے متعلق طبی و فقہی مسائل کو موضوع بحث بنایا گیا ہے جواہم طبی معاملات میں فتاویٰ جاری کرنے میں ممدومعاون ثابت ہوگا۔ انہوں نے تجویز کیا کہ اس کتاب کو صرف دینی مدارس تک محدود نہ رکھا جائے بلکہ اسے یونیورسٹیوں کے متعلقہ مضامین میں پوسٹ گریجویشن کرنے والے طلبہ وطالبات کے کورس میں بھی شامل کیا جانا چاہیے۔
جامعہ عثمانیہ پشاور کے مہتمم مفتی غلام الرحمان نے کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اس کتاب میں مدارس کے اساتذہ اور طلبہ کے لیے نہایت مفید معلومات شامل کی گئی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ کتاب دینی مدارس کے اساتذہ کرام اور محققین کے ساتھ ساتھ عامتہ الناس کے لیے بھی یکساں اہمیت کی حامل ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین پروفیسر ڈاکٹر قبلہ ایاز نے کہا کہ اس کتاب نے ڈی این اے پر اسلامی نظریاتی کونسل کی تحقیق کی توثیق کی ہے۔یہ کتاب دینی مدارس کے نصاب میں شامل ہونی چاہیے اور اس کی دستیابی کو تمام عوامی لائبریریوں میں بھی یقینی بنانا ضروری ہے۔انہوں نے کہا کہ فاضل مصنف نے ایک اہم ترین موضوع پر یہ جامع کتاب تصنیف کرکے ایک بڑا علمی کارنامہ انجام دیا ہے ۔
ملک کے نامور علمائے کرام ، فقہائے عظام اور دیگرعلمی شخصیات نے اس کاوش کو انتہائی قابل قدر بھی قرار دیا ہے جن میں سے چندکی آراء نذرِ قارئین ہیں۔ حضرت مولانا (ڈاکٹر) عبدالزاق اسکندر صدر وفاق المدارس العربیہ پاکستان و مہتمم جامعۃ العلوم الاسلامیہ اور علامہ محمد یوسف بنوری ٹائون کراچی نے اپنے تبصرے میں کہا ہے کہ علم الابدان یا علم الطب ایک عرصے تک ہمارے تعلیمی نصاب بالخصوص دارالعلوم دیوبند کے اختصاص تعلیمی نصاب کا حصہ رہا ہے، ڈاکٹر نجیب الحق کی یہ کوشش اسی نہج کا حصہ ہے، فی زمانہ تخصصات بالخصوص تخصص فی الفقہ کے فضلاء کے لیے اضافی ہم نصابی سرگرمی کے طور پر ’’علم تشریح الابدان‘‘ کی افادیت ناقابلِ اشکال ہے۔ مولانا مفتی منیب الرحمن صدر تنظیم المدارس اہلِ سنت پاکستان، مہتمم دارالعلوم نعیمیہ کراچی و چیئرمین مرکزی رویت ہلال کمیٹی پاکستان و ناظم اعلیٰ اتحادِ تنظیمات مدارس پاکستان نے اپنے تبصرے میں کہا ہے کہ کتاب ’’علم تشریح الابدان لطلبۃ الفقہ الاسلامی‘‘ فقہ اسلامی کے طلبہ بالخصوص متخصصین کے لیے اردو زبان میں ایک نہایت مفید کتاب ہے۔ اس میں نطفے سے لے کر تخلیق، تجسیم و تخلیقِ انسانی کے تمام مراحل کے بارے میں مفید معلومات دی گئی ہیں۔ ہر انسانی عضو کی ساخت، افعال اور دیگر متعلقات کے بارے میں معلومات فراہم کی گئی ہیں۔ دین کے اصول اور تفصیلی احکام قرآن و سنت اور فقہ اسلامی سے مستفادہ ہوتے ہیں، لیکن بہت سے اصولوں اور نظائر کی تطبیق کے لیے مختلف شعبوں کے ماہرین کی فراہم کردہ قطعی معلومات مفید ثابت ہوتی ہیں، اور بعض صورتوں میں ہمیں مسائل تبدیل کرنے پڑتے ہیں، مثلاً ماہرین تشریح الابدان (Anatomist) کی قطعیت کے ساتھ فراہم کردہ معلومات کی روشنی میں ہم نے قرار دیا کہ کان میں دوا ڈالنے سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔ اس سے’’المفطر مما دخل‘‘ کے اصول میں کوئی تبدیلی نہیں آئی بلکہ جدید تحقیقات و معلومات کی روشنی میں اس کی تطبیقِ نو کی گئی ہے اور مسئلے میں تبدیلی آئی ہے۔ اسی طرح کئی دیگر مسائل میں اس طرح کی تحقیقی کتابیں اور معلومات موجودہ دور کے فقہائے کرام و مفتیان عظام کے کے لیے فقہی مسائل کی تطبیق میں ممدو معاون ثابت ہوں گی۔ لہٰذا میرا مشورہ ہے کہ ہمارے نوجوان علماء بالخصوص مفتیانِ کرام کو اس کتاب کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے۔
مولانا عبدالمالک صدر رابطۃ المدارس الاسلامیہ پاکستان، منصورہ ملتان روڈ لاہورکا اس کتاب کے بارے میں کہنا ہے کہ علم تشریح الابدان برائے علماء فقہ اسلامی ایک عمدہ، جامع اور اپنے موضوع پر شافی کتاب ہے۔ تشریح الابدان میں انسانی اعضاء کی بناوٹ، اس کے جملہ اجزاء اور ان کی نشوونما کو اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ جدید علم طب کی تحقیق کے بھی پورے حوالے دیے گئے ہیں اور قرآن و حدیث کے حوالوں سے بھی مزین کرکے ایمان افروز بنادیا گیا ہے۔ دینی مدارس کو چاہیے کہ ایسی علمی کاوش کی کماحقہٗ قدر کریں اور اسے ماہرِ فن اساتذہ کے ذریعے اپنے طلبہ کو پڑھانے کا اہتمام کریں۔ محمد یاسین ظفر سیکریٹری جنرل وفاق المدارس السلفیہ پاکستان نے اس کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’علم تشریح الابدان‘‘ اپنے فن میں بہت منفرد، مفید اور قابلِ قدر کوشش ہے۔ جس پر مصنف خراجِ تحسین کے مستحق ہیں۔ دینی مسائل کا بڑا حصہ انسانی زندگی، جسم، اس کے اعضاء اور اس میں رونما ہونے والی تبدیلیوں پر مشتمل ہے۔ ایک عالم دین اور مفتی کے لیے اس کی حقیقت کو جاننا ازحد ضروری ہے تاکہ مسائل کی وضاحت اور فتویٰ دیتے ہوئے اسے مکمل اطمینان ہو۔ میری رائے میں یہ کتاب کلیۃ الشریعہ اور تخصص فی الافتاء کے نصاب میں شامل ہونی چاہیے۔ نیز تمام طلبہ و طالبات کو اس کا مطالعہ لازمی کرنا چاہیے‘‘۔ مولانا مفتی محمدتقی عثمانی نائب صدر دارالعلوم کراچی پاکستان،رئیس الجامعہ الشرعی بحرین وممبر انٹرنیشنل اسلامی فقہ اکیڈمی جدہ نے اپنے تبصرے میں کہا ہے کہ’’واقعتاً فتویٰ کے کام میں بطور خاص علم تشریح الابدان کی بہت ضرورت پڑتی ہے۔ اس لیے تخصص فی الافتاء کے طلبہ کو اس کا مطالعہ لازمی کرنا چاہیے۔ بندہ بھی اپنے دارالافتاء میں یہ تجویز رکھے گا‘‘۔ مولانا سمیع الحق مہتمم جامعہ دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک کا اس کتاب کے بارے میں کہنا ہے کہ ’’یہ نئی کاوش علوم دینیہ کے طلبہ اور علمائے کرام و مفتیانِ عظام کے لیے بہت مفید ہے، کیونکہ فتویٰ کے میدان میں علم تشریح الابدان بہت ضروری ہے، اس لیے علماء، طلبہ اور خصوصاً تخصص فی الفقہ کے طلبہ کو اس کتاب کا مطالعہ لازمی کرنا چاہیے۔ ان شاء اللہ ہم ڈاکٹر صاحب کی اس کاوش کو تخصص فی الفقہ و الافتاء کے نصاب میں حضراتِ مفتیانِ کرام کی مشاورت سے شامل کریں گے، ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ڈاکٹر صاحب کی اس کاوش کو قبول فرمائیں‘‘۔ مولانا مفتی رضاء الحق (جنوبی افریقہ) نے اپنے تبصرے میں کہا ہے کہ ’’ڈاکٹر نجیب الحق کی یہ محنت آزادانہ اور شتر بے مہار کی طرح نہیں ہے، بلکہ ان کے سر پر مستند علمائے کرام اور مفتیانِ عظام کی مقدس چھتری کا سایہ موجود ہے تاکہ مسائل کی تحقیق میں تحریف کی راہ مسدود ہو۔ یہ بڑی خوشی کی بات ہے کہ عوام اور علماء کے استفادے کے لیے ڈاکٹر صاحب کے قلم سے وقتاً فوقتاً مختلف رسائل شہود پذیر ہورہے ہیں۔ زیر طباعت رسالہ بھی بندۂ عاجز نے بعض مقامات سے پڑھا، اس میں طلبہ اور علماء کے لیے بعض اعضاء کی تشریح آسان الفاظ میں فرمائی گئی۔ محترم طلبہ اس کی مدد سے بعض مسائل کی تہ تک بآسانی پہنچ سکتے ہیں۔‘‘
پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد وائس چانسلر رفاہ انٹرنیشنل یونیورسٹی اسلام آبادنے اپنے تبصرے میں کہا ہے کہ میرے خیال میں یہ کتاب نہ صرف دینی مدارس کے طلبہ بلکہ خود میڈیکل کے طلبہ و طالبات کو بطور مجوزہ کتاب مطالعہ لازمی طور پر پڑھنی چاہیے۔ اس طرح جو فاصلہ میڈیکل طلبہ کی فنی تعلیم اور قرآن و حدیث میں انسانی جسم کے بارے میں موجود حوالوں میں پایا جاتا ہے، اس میں کمی پیدا کی جا سکتی ہے۔ اس کا ایک فائدہ یہ بھی ہو گا کہ ہم قومی زبان کی ترویج کر سکیں گے اور ہمارے طلبہ و طالبات کم از کم انسانی جسم کے بارے میں اپنی قومی زبان میں معلومات سمجھ اور سمجھا سکیں گے۔ سابق چیف سکریٹری صوبہ خیبر پختونخوا جناب عبداللہ نے اس کتاب کو قابل رشک کوشش قرار دیتے ہوئے امید ظاہر کی ہے کہ تعلیم و تدریس کی دوئی ختم ہو سکتی ہے۔ پروفیسرڈاکٹر صاحب اسلام قرطبہ یونیورسٹی پشاورنے اس کتاب پر اظہار خیال میں کہا ہے کہ یہ کتاب مدارس دینیہ کے طلبہ اور اساتذہ اور علم الفقہ میں تخصص کرنے والے طلبہ، علماء اور فقہا کے لیے لکھی گئی ہے اور میری معلومات کے مطابق اردو زبان میں مذکورہ کتاب علم طب کے شعبہ میں پہلی کتاب ہو گی جس میں علم طب کو ایک باقاعدہ مستند انداز میں منتقل کیا گیا۔ کتاب کو انتہائی آسان اور سلیس زبان میں لکھا گیا ہے ہر مسئلہ کی وضاحت بھرپور انداز میں کی گئی ہے اور فقہ اسلامی کے متوسط درجے کے طلبہ بھی جو اردو زبان سے واقف ہوں اس کو آسانی سے سمجھ سکتے ہیں۔ واضح رہے کہ یہ کتاب 11 ابواب اور 226 صفحات پرمشتمل ہے جس میں دینی مدارس کے طلبہ وطالبات اور مفتیان کرام و عظام کے لیے جسم کے مختلف افعال اور نظاموں کی تشریح اوروضاحت کی گئی ہے۔اس کتاب کے حوالے سے یہ بات ذکر قابل ذکر ہے کہ اس میں انتہائی سلیس زبان میں مدارس کے طلبہ کے لیے جسم کے مجموعی نظام کی وضاحت کرنے کا مقصد فقہاء میں مہارت پیدا کرنا ہے۔ مصنف نے یہ بیش بہا کتاب اپنے مرحوم والدین کے نام منسوب کی ہے جبکہ کتاب کے ساتھ طلبہ اور اساتذہ کرام کے استعمال کے لیئے ایک سی ڈی کو بھی کتاب کا حصہ بنایا گیا ہے جس میں ویڈیوزاورپاور پوائنٹ لیکچرزکے ذریعے مختلف موضوعات کا احاطہ کیا گیا ہے۔