پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن (پیما) کا قیام 1981ء میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے اصولوں کے مطابق انسانی زندگی کی تعمیر اور خدمت کے ذریعے رضائے الٰہی کے حصول کے لیے عمل میں لایا گیا۔ اس کے اغراض و مقاصد میں ڈاکٹروں کو اسلام کے عملی تقاضوں کو پورا کرنے کی ترغیب دلانا، اس تنظیم کے نصب العین سے اتفاق کرنے والے ڈاکٹروں کو ایک پلیٹ فارم پر منظم کرنا، ڈاکٹر ہونے کی حیثیت سے عوام سے رابطے کے مواقع کو دین کی دعوت کے لیے استعمال کرنا، ملک میں صحت کی مؤثر پالیسی، اور طبی تعلیم کو اسلامی خطوط پر استوار کرنے کی کوشش کرنا شامل ہیں۔
چنانچہ ملک کے بیشتر مقامات پر ’’پیما‘‘ کے تحت قرآن و سنت کے پیغام کو عام کرنے اور ڈاکٹروں کی اخلاقی و دینی تربیت کے حوالے سے روزانہ، ہفتہ وار اور ماہانہ بنیادوں پر مختلف پروگرام منعقد کیے جاتے ہیں، جن میں معروف اسکالرز لیکچر دیتے ہیں۔ تربیت کے حوالے سے پیما کے کتابچے بھی بہت مفید ہیں۔
پیما ریلیف (PIMA RELIEF): پیما ریلیف کے بے شمار ڈاکٹر، والنٹیئر دینی جذبے سے سرشار بلا تخصیصِ رنگ و نسل و مذہب پاکستان بھر میں اور پاکستان سے باہر خدمتِ خلق میں مصروف ہیں، اور یہ جذبۂ خدمتِ انسانی بین الاقوامی طور پر پیما کی پہچان بن چکا ہے۔
پشاور میڈیکل کالج: اچھے مسلمان اور پیما کے نصب العین پر عملی طور پر عمل کرنے والے ڈاکٹر پیدا کرنے کے لیے مارچ 2006ء میں پشاور میڈیکل کالج کا قیام عمل میں لایا گیا جہاں تعلیمی سلسلہ جاری ہے۔ اسی طرح خواتین میں پیما کے کام کو منظم کرنے کے لیے خواتین برانچ قائم کی گئی جہاں تین سو سے زائد لیڈی ڈاکٹر خدمتِ خلق میں مصروف ہیں اور یہ سلسلہ روز بڑھ رہا ہے۔
طبی فقہی بورڈ: مختلف طبی مسائل اور اسلام کے نقطہ نظر کو اجاگر کرنے کے لیے یہ شعبہ لیکچر، کانفرنسوں اور سیمینار کا اہتمام کرتا ہے اور مختلف معاملات میں اسلامی نظریاتی کونسل کو بھی سفارشات بھجواتا ہے۔ گزشتہ دنوں پیما نے کراچی کے ایک بڑے ہوٹل میں ’’کراچی کون 2018‘‘ کے عنوان سے دو روزہ طبی کانفرنس کا انعقاد کیا، جس میں مختلف موضوعات پر متعدد اجلاس منعقد کیے گئے۔ ان اجلاسوں سے طبی ماہرین نے اظہارِ خیال کیا۔ ماہرین نے کہا کہ سندھ طبی سہولتوں کے لحاظ سے پنجاب سے پیچھے رہ گیا ہے۔ سندھ کے ضلع تھر میں صحت کی صورت حال نہایت تشویشناک ہے۔ پروفیسر سعید قریشی نے کہا کہ سندھ میں تمام میڈیکل یونیورسٹیوں کو کہا گیا ہے کہ وہ تھر میں امدادی طبی کیمپ لگائیں تاکہ بچوں کی زندگیاں بچائی جاسکیں، لیکن یہ ایک عارضی اقدام ہے، پاکستان میں ملیریا، ٹی بی، ایچ آئی وی ایڈز اور ڈینگی جیسے امراض قابو سے باہر ہورہے ہیں، جن کے لیے سنجیدہ کوششیں کرنا ہوںگی۔ پروفیسر حفیظ الرحمن نے کہا کہ ہمارے ہاں بدقسمتی سے یہ سمجھا جاتا ہے کہ عورتوں کی تعلیم معاشرے کے مفاد میں نہیں، جبکہ قرآن حکیم نے 756 دفعہ علم حاصل کرنے اور ریسرچ کرنے کی اہمیت پر زور دیا ہے۔ ہمیں یہ غلط فہمی دورکرنا ہوگی۔ پروفیسر شیمول اشرف نے کینسر میں مبتلا بچوںکی مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ پیما کی یہ کانفرنس شعبۂ طب میں آنے والے نوجوان ڈاکٹروں کو رہنمائی فراہم کرے گی۔ پیما کراچی کے صدر پروفیسر عاطف حفیظ صدیقی کا کہنا تھا کہ پاکستان میں صرف 20 فیصد ڈاکٹر تیار ہوتے ہیں جن میں سے 60۔70 فیصد ڈاکٹر بیرونِ ملک چلے جاتے ہیں۔ خواتین ڈاکٹروں کی اکثریت شادی کے بعد پریکٹس نہیں کرتی۔ یہی حالات رہے تو ملک میں ماہر ڈاکٹروں کی شدید کمی پیدا ہوجائے گی۔
کانفرنس کے دوسرے روز کے اجلاس میں پہلی بار طبی مسائل اور اسلامی نقطہ نظر کے تحت ان کے حل کے لیے معروف عالم دین مفتی محمد تقی عثمانی کو مدعو کیا گیا۔ اس موقع پر آپ نے اپنی تفصیلی گفتگو میں کہا کہ ’’جو کسی کی بے چینی کو دور کرے گا اللہ تبارک وتعالیٰ اس کی آخرت کی بے چینی کو دور کرے گا۔ طبیب کی نیت اگر اچھی ہو اور وہ مریض کی بے چینی دور کرنا چاہتا ہو تو اس کی زندگی کا ہر لمحہ عبادت ہے، اور اگر بیمار طبیب کے علاج سے اچھا ہوجاتا ہے تو مریض کے اچھے اعمال کا صلہ بھی طبیب کو ملے گا۔ طبیب کو نہ صرف مریض بلکہ مریض کے تیمارداروں سے بھی اچھے اخلاق کا مظاہرہ کرنا چاہیے‘‘۔ آپ نے بتایا کہ ’’اسلام میں علاج فرض یا واجب نہیں بلکہ یہ ایک سنت اور جائز عمل ہے، جو مریض علاج نہیں کراتے انہیں علاج کی ترغیب دی جانی چاہیے۔ آپؐ نے نہ صرف علاج کرایا بلکہ بہت سی بیماریوں کے علاج بھی بتائے۔ طب نبویؐ میں اُن جڑی بوٹیوں کا ذکر شامل ہے جن کی افادیت آپؐ نے بتائی۔ آپؐ نے کلونجی کے بارے میں بتایا کہ اس میں موت کے سوا ہر مرض کے لیے شفا ہے۔ ہمیں ان جڑی بوٹیوں پر تحقیق کرنے کی ضرورت ہے۔ ماضی میں حکیم محمد سعید نے یہ ریسرچ شروع کرائی جو آگے نہ بڑھ سکی۔ اب پیما کو چاہیے کہ وہ اس تحقیق کو آگے بڑھائے۔ علاج میں اعتدال سے کام لیا جائے۔ ایسا علاج جس میں تکلیف ہو اور شفا موہوم ہو، آپؐ نے پسند نہیں فرمایا‘‘۔ آپ نے مزید کہا کہ ’’اسلام ایسے طریقۂ علاج کی ممانعت کرتا ہے جس میں مریض اور اس کے اہل ِخانہ کو شدید تکلیف اور مالی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑے، لیکن صحت یابی مشتبہ ہو۔ ایسے مریض کو غیر معینہ مدت تک وینٹی لیٹر پر رکھنا ٹھیک نہیں جس کی صحت یابی کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہوں۔ اس کے مقابلے میں ایسے مریض کو ترجیح دی جانی چاہیے جس کی صحت یابی کے امکانات زیادہ ہوں‘‘۔ آپ نے کہا کہ ’’اسلام میں شدید درد کی صورت میں ممنوعہ ادویہ اور اشیاء کے استعمال کی ممانعت نہیں ہے‘‘۔ انہوں نے پیما کی توجہ اس جانب بھی مبذول کرائی کہ ہمارے اکثر معالج دواساز کمپنیوں سے معاہدہ کرلیتے ہیں اور ان کی تیار کردہ ادویہ مریضوں کو تجویز کرتے ہیں، اور مریضوں کو مجبور کرتے ہیں کہ وہ یہی دوا استعمال کریں۔ یہ غلط ہے۔ اور بعض معالج ہیلتھ انشورنس کی وجہ سے غیر ضروری ٹیسٹ اور دوائیں تجویز کرتے ہیں جو کہ درست نہیں۔ پیما کو اس بارے میں مہم چلانی چاہیے۔ مفتی محمد تقی عثمانی نے حاضرین کے سوالات کے جواب بھی دیے۔ اس موقع پر جناح سندھ میڈیکل یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر طارق رفیع، پروفیسر اقبال آفریدی، پروفیسر اعجاز وہرہ، پروفیسر طاہر شمسی، پروفیسر عبدالغفار بلو، پروفیسر سہیل اختر، ڈاکٹر مصباح العزیز، ڈاکٹر تبسم جعفری، ڈاکٹر فیاض عالم، ڈاکٹر کاشف فاروقی کے علاوہ معروف صحافی جہانگیر سید بھی موجود تھے۔ پیما نے اس موقع پر نمایاں خدمات انجام دینے والے ماہرین کو خصوصی شیلڈ بھی دیں، جبکہ 15 سرکاری اور غیر سرکاری تنظیموں الخدمت، ہینڈز، بائڈ، ای آئی بی ڈی، بشنٹ ویلفیئر ایسوسی ایشن، پی او بی، ہوپس، سینا ہیلتھ، چائلڈ لائف فائونڈیشن، عمیر ثنا فائونڈیشن، انڈس بلڈ بینکنگ سروسز، بیت السکون، چائلڈ ایڈ فائونڈیشن، سائبرنایف جناح اسپتال اور سول اسپتال کراچی کے اینڈواسکوپی یونٹ کو ایکسی لینس ان ہیلتھ سروسز ایوارڈ سے نوازا گیا۔
کانفرنس میں دوا ساز کمپنیوں نے بھی اپنے اسٹالز پر مختلف سروسز اور طبی معلومات مفت فراہم کیں۔ فارمیو کا اسٹال اور ڈاکٹر عیسیٰ لیبارٹری میں ہڈیوں کے بھربھرے پن کی تشخیص توجہ کا مرکز رہی۔ پیما کے پریس سیکریٹری ڈاکٹر کاشف فاروقی صحافیوں کی رہنمائی کے لیے نہایت مستعد رہے۔