کشمیریوں سے یک جہتی کی ضرورت

دنیا کی سیاست کا مرکزی نقطہ ’’دہشت گردی‘‘ کا خاتمہ بنادیا گیا ہے۔ اس علمی نصب العین کے باوجود دنیا میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہورہا ہے۔ امریکہ اور مغربی طاقتوں نے غیر ملکی قبضے کے خلاف مزاحمت اور جدوجہد کو بھی دہشت گردی سے تعبیر کردیا ہے۔ اس کا سب سے بڑا مظہر عالمی طاقتوں کی جانب سے پاکستان اور اس کی حکومت کو دہشت گردوں کی مالی معاونت کا ’’ملزم‘‘ قرار دینا ہے۔ ایف اے ٹی ایف نے پاکستان کو ’’گرے لسٹ‘‘ میں شامل کردیا ہے اور اس سلسلے میں حساب کتاب بھی جاری ہے۔ عملی حقیقت یہ ہے کہ عالمی طاقتیں اور ان کی خفیہ ایجنسیاں دنیا بھر میں دہشت گردی کی پشت پناہ ہیں، اس کے ساتھ ہی ریاستی دہشت گردی کی پشت پناہی بھی کررہی ہیں۔ اس دوغلی پالیسی کی سب سے بڑی شہادت مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی ’’ریاستی دہشت گردی‘‘ ہے جس سے عالمی اداروں اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے آنکھیں بند کی ہوئی ہیں۔ مسئلہ کشمیر گزشتہ 70 برسوں سے اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر موجود ہے۔ اقوام متحدہ کی قرارداد کے مطابق کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ کشمیریوں کی رائے سے ہوگا، لیکن آج تک اقوام متحدہ نے کشمیر میں استصوابِ رائے کرانے کا کوئی انتظام نہیں کیا ہے۔ بھارت دنیا کی سب سے بڑی جمہوریہ ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اور دنیا کے بیشتر ممالک اور عالمی طاقتیں اس دعوے کو تسلیم بھی کرتی ہیں، اس کے باوجود بھارت کشمیریوں کو ان کا جمہوری حق دینے کے لیے تیار نہیں ہے کہ وہ اپنی آزاد مرضی سے جس ملک کے ساتھ چاہیں الحاق کا فیصلہ کرلیں۔ اس اعتبار سے پاکستان مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کے تحفظ کا ذمے دار ہے۔ اگر بھارت کی جمہوریت مثالی ہوتی تو وہ اہلِ کشمیر کو قائل کرلیتا کہ ان کا مفاد بھارت کے ساتھ رہنے میں ہے۔ لیکن وہ یہ کام نہیں کرسکا، اور بندوق کی طاقت سے اس نے کشمیری مسلمانوں کو دبانے کی روش اختیار کی ہوئی ہے، اس کے باوجود اسے ناکامی ہورہی ہے۔ اسی ناکامی نے جنوبی ایشیا کی دو طاقتوں یعنی بھارت اور پاکستان کے درمیان تعلقات کو معمول پر آنے سے روکا ہوا ہے۔ طویل مدت سے پاکستان اور بھارت کے درمیان باضابطہ مذاکرات معطل ہیں۔ اس کی وجہ بھارت کی ہٹ دھرمی ہے، اور وہ مذاکرات کے ایجنڈے میں کشمیر کے مسئلے کو شامل کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ اس حوالے سے ہم یہ بات کہنے پر مجبور ہیں کہ پاکستان کے حکمرانوں نے مسئلہ کشمیر کے حوالے سے اپنے اصل فرائض ادا نہیں کیے، جبکہ اہلِ کشمیر بھارت کی ریاستی دہشت گردی کے باوجود بھارت سے آزادی کی تحریک جاری رکھے ہوئے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی ریاستی دہشت گردی کی تازہ کارروائیوں میں مزید 9 کشمیری نوجوان شہید ہوگئے۔ بھارت کے فوجی مظالم اور انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں کے باوجود اہلِ کشمیر کی مزاحمت اور احتجاج میں کمی نہیں آرہی حالانکہ کشمیریوں کی جدوجہد 70 برس سے جاری ہے، اور ہر کچھ عرصے بعد ان کی جدوجہد میں تیزی آجاتی ہے۔ نہتے کشمیری مسلمان بھارت کی فوج کا مقابلہ ہڑتالوں اور احتجاجی مظاہروں سے کررہے ہیں۔ احتجاج روکنے کے لیے بھارت کی حکومت نے غیر اعلانیہ کرفیو نافذ کررکھا ہے۔ تعلیمی ادارے بند اور انٹرنیٹ سروس معطل کردی گئی ہے۔ اس سلسلے میں اصل فریضہ حکومتِ پاکستان، پاکستان کی سیاسی جماعتوں اور ذرائع ابلاغ کو ادا کرنا چاہیے، لیکن اس حوالے سے غفلت کا مظاہرہ جاری ہے۔ کشمیر کے حوالے سے جنرل پرویزمشرف اور میاں نوازشریف کی حکومتوں نے مجرمانہ کردار ادا کیا ہے۔ جنرل پرویزمشرف نے تو مسئلہ کشمیر سے تقریباً دست برداری اختیار کرلی تھی، جبکہ میاں نوازشریف نے بھاری مینڈیٹ سے منتخب ہونے کے بعد یہ بیان دے دیا تھا کہ انہیں عوام نے بھارت سے دوستی کے لیے ووٹ دیے ہیں۔ یہ تو مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کی مزاحمتی قوت ہے جس نے مسئلہ کشمیر کو زندہ رکھا ہوا ہے، ورنہ ہماری حکمران اشرافیہ کشمیر سے دست بردار ہونے کے لیے تلی بیٹھی ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کی جدوجہد کی حمایت کے لیے پاکستان کی رائے عامہ کو کھڑا کیا جائے۔ اس سلسلے میں امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق نے 27 اکتوبر کو کشمیریوں سے اظہارِ یک جہتی کے لیے ’’ کشمیر مارچ‘‘ کا اعلان کیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ بھارتی فوج کے ظلم و جبر میں اضافہ ہوگیا ہے، اس نے ایک درجن کے قریب معصوم کشمیریوں کو سرِ عام گولیوں کا نشانہ بناکر اپنی وحشت و درندگی کا مظاہرہ کیا ہے، لیکن عالمی برادری کا ضمیر خاموش تماشائی بنا ہوا ہے۔ قراردادوں کے باوجود اقوام متحدہ اندھی، بہری اور گونگی بنی ہوئی ہے۔ کشمیریوں کی تیسری نسل آزادی اور تکمیلِ پاکستان کی جنگ لڑ رہی ہے مگر کسی بھی پاکستانی حکومت نے اپنا فرض ادا نہیں کیا۔ انہوں نے حکومتِ پاکستان سے مطالبہ کیا کہ وہ ہر سفارت خانے میں کشمیر سیل قائم کرے جو سفارتی میدان میں مہم چلائے، اور تحریکِ آزادی کشمیر کو نتیجہ خیز بنانے کے لیے ایک قومی ریاستی پالیسی بنائی جائے۔ اس وقت اس لیے بھی مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے کہ امریکی آشیرباد سے بھارت کشمیریوں کی مدد کرنے والے اشخاص کو ’’دہشت گرد‘‘ قرار دینے پر تلا ہوا ہے۔ ایف اے ٹی ایف کی کارروائی کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ جبکہ اصل حقیقت یہ ہے کہ بھارت کی فوج کشمیر میں ریاستی دہشت گردی کی مجرم ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں عہدِ جدید کی’’جمہوریت‘‘ کا حقیقی چہرہ دیکھا جا سکتا ہے۔