گزشتہ دنوں جسارت کے صفحہ اوّل پر ایک خبر میں ’’استفادہ حاصل کرنا‘‘ شائع ہوا ہے۔ ہم اپنے ساتھیوں کو سمجھا رہے تھے کہ استفادہ میں حاصل کرنے کا مفہوم شامل ہے، چناں چہ استفادہ کرنا کافی ہے، کہ اسی وقت ہمارے بہت محترم منصفِ اعلیٰ (چیف جسٹس) جسٹس ثاقب نثار کی تقریر ٹی وی چینل پر آنے لگی (20 اکتوبر)۔ وہ بھی استفادہ حاصل کررہے تھے۔ اب اس لفظ کو عدالتِ عظمیٰ کا فیصلہ قرار دینا چاہیے۔
ایم کیو ایم کے ایک دھڑے کے رہنما ڈاکٹر فاروق ستار بہت اچھی اردو بولتے ہیں لیکن اپنے ایک خطاب میں وہ ’’دست بدستہ‘‘ معافی مانگ رہے تھے۔ دست بدست لڑائی تو سنا ہے، لیکن یہ نئی ترکیب ہے۔ جانے وہ یہ دستہ کہاں سے لائے۔ حامد میر بڑے صحافی ہیں لیکن وہ ہمیشہ ’’خوش آمدید‘‘ کے ’دید‘ کو ’’زید‘‘ کے وزن پر بولتے ہیں، یعنی آمدَید (’د‘ پر زبر)۔ خیر اب تو ’خیرباد‘ کو ’’خبرآباد‘‘ بھی لکھا اور بولا جانے لگا ہے۔ خیرآباد بھارت کا مشہور شہر ہے جہاں کے ایک بڑے شاعر مضطر خیر آبادی نے بڑی شہرت پائی۔ دیکھیے یہ شہر کب تک خیرآباد کہلاتا ہے، اور کب اس کا بھی ’’نام کرن‘‘ ہوجاتا ہے۔ الٰہ آباد تو ’’پریاگ‘‘ ہو ہی گیا۔ کسی حد تک یہ کام پاکستان میں بھی ہوا ہے۔ جنرل منٹگمری کے نام پر شہر منٹگمری ’ساہیوال‘ اور سرلائل کے نام پر لائل پور ’فیصل آباد‘ ہوگیا۔ ایبٹ آباد ابھی ایبٹ آباد ہی ہے، ولی آباد نہیں ہوا۔ کچھ محلوں کے نام سلیقے سے بدلے گئے مثلاً بھگوان پورہ ’باغبان پورہ‘ اور رام باغ ’آرام باغ‘ ہوگیا۔ کرشن نگر اور سنت نگر ابھی تک اسی نام سے مشہور ہیں۔ کچھ نام سکھ سرداروں کے نام پر ہیں مثلاً ہری پور اور مانسہرہ ہری سنگھ اور مان سنگھ کے نام پر ہیں۔ لاہور کے بارے میں مؤرخین کی رائے ہے کہ یہ رام چندر کے بیٹے ’لاہو‘ کے نام پر ہے۔ مسلمان حکمرانوں نے رام پور کا نام نہیں بدلا۔ ابھی احمد آباد، مظفر نگر اور ایسے کئی شہر زد میں ہیں جن کے نام بدلے جائیں گے۔
ادھر زبان اردو ہمارے برقی اور ورقی ذرائع ابلاغ کی زد میں ہے۔ ٹی وی پر خبریں پڑھنے والوں اور والیوں کا تلفظ کسی طرح ٹھیک ہونے میں نہیں آرہا۔ بڑے بڑے لطیفے ہوتے ہیں۔ 5 ستمبر کو جیو ٹی وی پر ایک ماہر لسانیات نے ’’برطانوی کتّابچہ‘‘ پڑھا۔ برسوں ہم پر حکومت کرنے والے برطانویوں سے شاید یہ سلوک دانستہ کیا گیا ہو۔ لیکن بچہ کے بجائے کتّا ہی کہہ دیا ہوتا۔ گمان غالب ہے کہ یہ کتاب کی تصغیر کتابچہ (کتاب چہ) یا پملفٹ کا ذکر ہے۔ نیوز ریڈرز کے سامنے جو لکھ کر آتا ہے وہ اپنے فہم کے مطابق اس کا تلفظ کر ڈالتے ہیں۔ اخبارات میں تلفظ کا مسئلہ نہیں املا کا مسئلہ ہوتا ہے جسے بروقت درست کرنے کا امکان رہتا ہے۔ لیکن ٹی وی چینل پر تو ’’منہ سے نکلی، کوٹھوں چڑھی‘‘ والا معاملہ ہے۔ اب برقی ذرائع ابلاغ میں تلفظ ٹھیک کرنے اور تربیت کا کوئی نظام نہیں رہا۔ کسی سے پوچھنے میں شاید سبکی محسوس ہوتی ہو۔ چنانچہ کتّابچہ رات تک ہر نشریے میں چلتا رہا۔ پچھلے دنوں ایک صاحب سعودی ولی عہد کو عُہد (ع پر پیش) کہہ رہے تھے۔ عہد یا ولی عہد تو اردو میں بہت عام سا لفظ ہے، اس کے حرفِ اوّل پر پیش لگانا سمجھ سے باہر ہے۔
ورقی ذرائع ابلاغ یا اخبارات میں بھی کوئی پرسانِ حال نہیں۔ 20 اکتوبر کے ایک کثیرالاشتہار اخبار کی سرخی ہے ’’وفاق این ایف سی کے ساتھ چھیڑ کھانی کا خیال دل سے نکال دے‘‘۔ یہ بلاول ہائوس کے ترجمان کی چھیڑ خانی ہے۔ متن میں بھی ’’کھانی‘‘ ہے۔ ہوسکتا ہے کہ اس میں بلاول کے تلفظ کا بھی دخل ہو کہ ترجمان نے جو سنا وہ لکھ بھیجا۔ لیکن کیا نیوز ڈیسک پر کوئی ایسا نہیں تھا جو تصحیح کردیتا! ممکن ہے یہ سمجھ لیا گیا ہو کہ ’خانی‘ کیا چیز ہے، یہ تو کسی خان کی مونث معلوم ہوتی ہے، یا پھر باقر خانی کی قسم سے کوئی چیز ہے۔ چنانچہ ’چھیڑ خانی‘ کو بے معنیٰ سمجھ کر ’’چھیڑ کھانی‘‘ کردیا۔ زیادہ بہتر تھا کہ چھیڑ خوانی کردیا ہوتا۔ ویسے ہم بھی اس الجھن میں ہیں کہ اس چھیڑ میں خانی کا کیا تُک ہے۔ کیا یہ کسی خان کی چھیڑ چھاڑ کی طرف اشارہ ہے جو آج کل زوروں پر ہے۔ یوں بھی چھیڑ خانی دل لگی کو کہتے ہیں۔ امیر مینائی کا شعر ہے:
اس بت کے جور خالق اکبر سے کیا کہیں
آپس کی چھیڑ داورِ محشر سے کیا کہیں
اور مرزا غالب کہتے ہیں:
ہم پر جفا سے ترکِ وفا کا گماں نہیں
اک چھیڑ ہے وگرنہ مرا امتحاں نہیں
لیکن اس چھیڑ میں خانی کہاں ہے؟
چھیڑ چھاڑ، چھیڑ نکالنا وغیرہ مستعمل ہیں۔ علاوہ ازیں اس کا مطلب گھوڑے کو تیز بھگانے کے لیے ایڑ دینا اور گھوڑا دوڑانا بھی ہے۔ ایک مصرع ہے
بائیں طرف وہ لاتے تھے چھیڑ کر سمند
’خان‘ ترکی زبان کا لفظ ہے۔ پہلے شاہانِ ترکستان کا لقب ہوتا تھا، اب ہر سردار اور امیر کا لقب ہوگیا ہے۔ ’خان بہادر‘ وہ عزت کا خطاب جو حکومت کی طرف سے دیا جاتا تھا، اب عام طور پر پٹھانوں کے نام کے ساتھ لگتا ہے۔ کچھ پٹھانوں نے اعتراض کیا تھا کہ پشتو آتی نہیں اور نام کے ساتھ خان لگا ہوا ہے۔ لیکن کیا چنگیز خان، ہلاکو خان، قبلائی خان اور چغتا خان وغیرہ منگولوں کو پشتو آتی تھی؟ یوں تو مرزا غالب بھی اسد اللہ خان تھے۔ بابر کا ساتھی بیرم خان اور اس کا بیٹا عبدالرحیم تو خانِ خاناں کہلائے، لیکن پشتو سے نابلد تھے۔
غالب کے ذکر پر یاد آیا کہ پچھلے شمارے میں ہم نے غالب کا مشہور شعر ’’نالہ پابند نَے نہیں ہے، فریاد کی کوئی لَے نہیں ہے‘‘ علامہ اقبال کے کھاتے میں ڈال دیا تھا۔ اس سے پہلے کہ ایس ایم معین قریشی پکڑ کریں، قارئین تصحیح کرلیں۔ 25 کتابوں کے اکیلے مصنف جناب معین قریشی غلط شعروں کی تصحیح، اور شعر کسی اور سے منسوب کرنے پر فوری گرفت کرتے ہیں۔
محترم حافظ محمد ادریس صاحب ایک بڑے عالم ہیں اور بہت اچھی اردو بولتے ہیں۔ پروفیسر غلام اعظم مرحوم کے بارے میں ان کا بہت پُراثر مضمون سامنے ہے جس میں انہوں نے ’’چاق و چوبند‘‘ لکھا ہے۔ محترم، یہ چاق چوبند ہے، اس میں وائو بند نہیں ہے۔ ایک اور بزرگ مضمون نگار جناب حبیب الرحمن ’’راز افشاں‘‘ کررہے ہیں۔ انہوں نے یہ افشاں اردو کی مانگ میں بھری ہے۔
بزرگ ادیب و براڈ کاسٹر ابوالحسن نغمی صاحب نے امریکہ سے یہ تبصرہ بھیجا ہے:
’’متخصص ہے تو خالص عربی کا لفظ، لیکن ہمارے ایرانی بھائیوں نے اسے جی جان سے اپنایا ہے۔ مجھے وہ زمانہ خوب یاد ہے، ہمارے ایرانی بھائیوں نے عربی الفاظ کو فارسی سے خارج کرنے کے لیے تحریک چلائی تھی، مگر ان کی ایک نہ چلی۔ آج ذرا ایرانی اخبارات کو ملاحظہ فرمائیں اور ایرانی ڈاکٹروں کے استعارات دیکھیں، ہر مرض کے اسپیشلسٹ کو متخصص کہا جارہا ہے۔ متخصص امراضِ شکم، متخصص امراضِ چشم، متخصص امراضِ دندان۔ اردو والوں کو اس عربی لفظ کو قبول کرنا چاہیے۔ اس لفظ کا مادہ تین حروف پر مشتمل ہے جیسا کہ ہر عربی کے لفظ میں ہوتا ہے (خ۔ص۔ص) اس کی ایک شکل قرآن میں موجود ہے، سورہ بقرہ آیت نمبر 105‘‘۔
(سورہ بقر میں ہے: واللّٰہ یختصُ برحمتہ من یشآ
یعنی اللہ جس کو چاہتا ہے اپنی رحمت کے لیے چن لیتا ہے۔)
عربی میں تخصیص کا مطلب ہے خاص کرنا، خصوصیت، جیسے اس معاملے میں کچھ آپ کی تخصیص نہیں۔ مخصوص بھی اردو میں عام ہے۔ محترم ابوالحسن نغمی کی توجہ کا شکریہ اور رابطہ کار عبدالمتین منیری کا بھی۔ متخصص کا تلفظ اردو کے مزاج سے مطابقت نہیں رکھتا، یہ عربی دانوں اور علماء کے لیے چھوڑ دیتے ہیں۔ کسی نے مشورہ دیا تھا کہ فرائیڈے اسپیشل کو معرِب کرکے اس کا نام ’’تخصص فی الجمعہ‘‘ رکھ دیں، لیکن پھر واوین میں فرائیڈے اسپیشل بھی لکھ دینا چاہیے کہ اب یہ نام زبان پر چڑھ گیا ہے۔