سہ روزہ دعوت نئی دہلی

تبصرہ کتب
تبصرہ کتب

نام مجلہ: سہ روزہ دعوت نئی دہلی (اشاعتِ خاص(
انسانی سماج اور اسلامی اخلاقیات
22)اگست 2018ء(
چیف ایڈیٹر: پرواز رحمانی
ایڈیٹر: شفیق الرحمٰن
معاون اعزازی شمارہ ہذا: ابو الاعلیٰ سید سبحانی
سینئر سب ایڈیٹر: محمد صبغة اللہ ندوی
سب ایڈیٹرز: عمیر کوٹی ندوی،اشرف بستوی
صفحات: قیمت60روپے بھارتی
ناشر: سہ روزہ دعوت
سہ روزہ دعوت نئی دہلی جماعت اسلامی ہند کا ترجمان اخبار ہے۔ اسلامی دعوت و تبلیغ اور اسلامی صحافت کا عمدہ نمونہ ہے۔ وقفوں سے علمی و دینی موضوعات پر خاص نمبر بھی شائع کرتے رہتے ہیں، اسی سلسلے میں نہایت ہی اہم موضوع ”اسلامی اخلاقیات کا انسانی سماج سے تعلق“ کو اس خصوصی اشاعت میں زیرِ بحث لایا گیا ہے اور متعلقہ موضوع پر بلند پایہ لوازمہ جمع کردیا گیا ہے۔
چیف ایڈیٹر پرواز رحمانی تحریر فرماتے ہیں:
”اللہ رب العزت نے تمام انسانوں کے لیے اسلام کی شکل میں بہترین دین نازل کیا ہے جو ہر لحاظ سے مکمل و مدلل ہے۔ انسانی زندگی کا کوئی شعبہ نہیں جو اس کی ہدایت و رہنمائی سے خالی ہو۔ ولادت سے لے کر تدفین تک انسان کی ہر ضرورت یہ دین پوری کرتا ہے۔ انسان کو اِس زندگی میں جو امور و مسائل پیش آسکتے ہیں،یہ دین انہیں حل کرتا ہے۔ زندگی کے ہر پہلو اور ہر شعبے میں اسلامی کی اپنی رہنمائی ہے جو دیگر ادیانِ عالم سے بالعموم مختلف و ممیز ہے۔ مثلاً کسی قوم یا ملک کے ساتھ جنگ ہو تو عام رواج یہ ہے کہ فریقین ہر طریقے اور حربے کو اپنے لیے جائز سمجھتے ہیں، بلکہ کہا بھی جاتا ہے کہ جنگ اور محبت میں سب کچھ جائز ہے۔ لیکن اسلام کی تعلیم یہ نہیں ہے۔ اسلامی اصولِ جنگ میں دشمن کے ہرے بھرے کھیتوں کی فصلیں اُجاڑنا، پیڑ کاٹنا، مویشیوں کو نقصان پہنچانا، بچوں، عورتوں، بوڑھوں، مریضوں اور کمزور افراد پر حملے کرنا سخت منع ہے۔ خواتین کو بے آبرو کرنے سے سختی کے ساتھ روکا گیا ہے۔ انسانوں کے ساتھ معاملات میں خواہ انسان کوئی بھی ہوں، حق و انصاف سے کام لینے کا حکم دیا گیا ہے۔ دشمن اگر امن و صلح پر آمادہ ہو یا اس کی پیشکش کرے تو اس پر غور کرنا چاہیے خواہ مسلمان کتنے ہی مضبوط ہوں۔ اس طرح اجتماعی زندگی کے ہر شعبے میں جہاں انسانوں سے تعلقات و معاملات ہوتے ہوں، دینِ اسلام کا اصول یہی ہے۔ اور ملی اجتماعی زندگی کی تو بات ہی کچھ اور ہے۔ غرض یہ کہ جب اللہ نے انسانوں کے لیے ایک مکمل ضابطۂ حیات بھیجا ہے تو انسانی زندگی کی ہر ضرورت بھی پوری کی ہے۔
میڈیا آج کی انسانی اجتماعی زندگی کا ایک بہت بڑا شعبہ بلکہ زندگی کا حصہ بن چکا ہے۔ بنیادی طور پر یہ پیغام رسانی کا ذریعہ ہے۔ پیغام رسانی کی ضرورت نسلِ انسانی کو ہر دور میں رہی ہے۔ زمانہ قدیم میں لوگ پرندوں سے یہ کام لیا کرتے تھے۔ پھر جب گھوڑوں اور اُونٹوں کو سواری کے طور پر استعمال کیا جانے لگا تو پیغامات رسانی میں کچھ آسانی ہوئی، لیکن اس صورت میں بھی ایک جگہ سے دوسری جگہ تک خبریں پہنچنے میں ہفتوں اور مہینوں لگ جاتے تھے۔ کسی خطۂ زمین پر زلزلہ آجاتا تو باہر کی دُنیا تک اس کی خبر آہستہ آہستہ مہینوں میں پہنچتی۔ کسی ملک میں بادشاہت تبدیل ہوتی یا حکومت کا تختہ اُلٹ دیا جاتا تو اس واقعہ کی خبر کے ساتھ بھی یہی ہوتا۔ پیغام رسانی کے ذرائع نہایت سست رفتار سے ترقی کررہے تھے، لیکن بعد میں ذرائع کی ترقی کے ساتھ ساتھ اس کے مقاصد بھی بدلنے لگے، یہاں تک کہ پہلی عالمی جنگ کے دوران یہ ایک فن بن گیا اور دوسری جنگ عظیم کے آتے آتے تو اس فن نے باقاعدہ ایک خطرناک حربے کی شکل اختیار کرلی۔ جنگ جیتنے کے لیے مکاری اور عیاری کے ساتھ جھوٹ اور پروپیگنڈے کا استعمال کیا جانے لگا۔ دورانِ جنگ جھوٹ پھیلانے کا حربہ بہت بڑا ہتھیار بن گیا، اور آج میڈیا جس شکل میں ہمارے سامنے موجود ہے اُسی کی ترقی یافتہ شکل ہے۔ آج میڈیا کی مختلف شکلوں میں سب سے خطرناک شکل سوشل میڈیا کی ہے، اور نہ جانے یہ فتنہ مزید کتنی ترقی کرے گا۔ دس بیس سال بعد اس کی صورت کیا ہوگی۔ یہ میڈیا حکومتوں کے تختے اُلٹنے اور نااہلوں کو ایوانِ اقتدار تک پہنچانے کا کام بہت آسانی کے ساتھ کرتا ہے۔ جھوٹ، فریب، مکاری، عیاری، کردارکشی آج کے میڈیا کی خاص پہچان ہے۔
میڈیا دو دھاری تلوار ہے۔ جس طرح تلوار کو ظلم اور قتل و غارت گری کے لیے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے اور امن و انصاف کے قیام کے لیے بھی۔۔۔ اُسی طرح میڈیا کو دو مختلف اور متضاد مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، لیکن آج کے دور میں اسلحہ کی طرح میڈیا کا استعمال بھی منفی مقاصد کے لیے زیادہ سے زیادہ کیا جارہا ہے۔ اللہ کے صالح بندے اور مسلم نوجوان اگر اسے دعوتِ اسلامی کے فروغ کے لیے استعمال کررہے ہیں تو اس سے پچاس گنا زیادہ اس کا استعمال اسلام کو بدنام کرنے اور امتِ مسلمہ کی کردارکشی کے لیے کیا جارہا ہے۔ گویا میڈیا کا استعمال منفی ہی منفی ہے۔
دینِ اسلام نے زندگی کے ہر شعبے کی طرح آج کے اس اہم ترین شعبے کے لیے بھی اصول وضع کیے ہیں۔ میڈیا کے لیے اسلام کی رہنمائی یہ ہے:
”اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، اگر تمہارے پاس کوئی فاسق کوئی خبر لے کر آئے تو تحقیق کرلیا کرو، کہیں ایسا نہ ہو کہ تم کسی گروہ کو نادانستہ نقصان پہنچا بیٹھو اور پھر اپنے کیے پر پشیمان ہو۔“(الحجرات:6)
مفسرین متفق ہیں کہ خبروں اور رپورٹوں کے سلسلے میں یہ آیت ایک مستقبل ہدایت ہے، اس میں صاف کہا گیا ہے کہ ایسے کسی نازک معاملے میں خبر کی صحت اور خبر لانے والے کے کردار کی تحقیق کرلیا کرو۔ اس طرح میڈیا کے سلسلے میں یہ مسلمانوں کا مستقل منشور ہے اور مسلمان اس کے پابند ہیں۔
میڈیا آج کی دنیا کا سب سے بڑا اور طاقتور فتنہ ہے۔ اس کا مثبت استعمال بھی یقیناً کیا جاسکتا ہے لیکن آج منفی استعمال زیادہ اور بہت زیادہ ہورہا ہے۔ امتِ مسلمہ کے سامنے یہ بھی ایک بڑا چیلنج ہے۔ مسلم صحافی اور اہلِ قلم اپنے مقدور بھر اس کا استعمال کررہے ہیں۔ اس سلسلے میں واضح ہدایت کی وجہ سے اس میدان میں وہ کوئی غلط کام نہیں کرسکتے۔“
اس خصوصی اشاعت میں جو مضامین و مقالات شامل کیے گئے ہیں وہ درج ذیل ہیں:
”اسلامی معاشرہ اور اخلاقی ذمہ داریاں“ مولانا سید جلال الدین عمری۔ ”قرآن مجید کی اخلاقی تعلیمات“ڈاکٹر اشہد جمال ندوی۔ ”رحمة للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت ایک معلم اخلاق“مولانا محمد عنایت اللہ اسد سبحانی۔ ”عدل و احسان سب کےلیے“ مولانا محمد اسماعیل فلاحی۔”شورائیت کی اخلاقیات“ ڈاکٹر محمد رفعت۔ ”اظہارِ رائے کی اخلاقیات“ رضوان احمد فلاحی۔”ٹیکنالوجی کی اخلاقیات“سید سعادت اللہ حسینی۔”مل جل کر جینے کا سلیقہ سیکھیں“ ڈاکٹر محی الدین غازی۔”قرآن حکیم کے آئینے میں سیاست و حکومت“ ڈاکٹر سلیم خان۔”معاشی و تجارتی اخلاقیات“اسامہ خان۔ ”عصری صحافت اور اخلاقیات“ عالم نقوی۔”اخلاقیات پر عمل درآمد اور اہلِ روحانیت سے اتصال“ ڈاکٹر کنور محمد یوسف امین۔ ”طب کی اخلاقیات“ ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی۔”سماجی خدمت کی اخلاقیات“محمد معاذ۔”جنگ کی اخلاقیات“ڈاکٹر محمد ارشد۔ ”بحث و تحقیق کی اخلاقیات:کیوں اور کیسے؟“مجبتیٰ فاروق۔ ”ماحولیات اور اخلاقی رویہ“عرفان وحید
ان سترہ مضامین و مقالات میں نہایت قیمتی معلومات فراہم کی گئی ہیں،عام فہم زبان میں اخلاقی تعلیمات سے آگاہ کیا گیا ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان میں بھی اس اشاعتِ خاص کو کتابی شکل میں اور ہمارے تحریکی مجلات میں فرداً فرداً بھی طبع کیا جائے۔ اسلامی لٹریچر میں وقیع اضافہ ہے۔ ہم کوشش کریں گے کہ فرائیڈے اسپیشل میں بھی اس کے مقالات کو شائع کیا جائے۔