سیرت محسنِ اعظم

تبصرہ کتب
تبصرہ کتب

نام کتاب: سیرت محسنِ اعظم
مصنف : میاں محمد نواز
صفحات: 624قیمت: 800روپے
ناشر: ادارہ معارف اسلامی منصورہ لاہور
فون نمبر 042-35252475
35252194
برقی پتا imislami1979@gmail.com
ویب گاہ www.imislami.org
تقسیم کنندہ مکتبہ معارفِ اسلامی، منصورہ، ملتان روڈ،
لاہور۔ پوسٹ کوڈ نمبر: 54790
فون نمبر -35419520-24 042
ملنے کے پتے:ادارہ معارف اسلامی کراچی: 35-D بلاک 5، فیڈرل بی ایریا کراچی، 7590
فون نمبر021-36809201
35419520-4
مکتبہ الکوثر (ارقم سنٹر): 2-A گلستان جوہر،
ضلع شرقی، کراچی،فون: 021-32064210
مکتبہ علوم اسلامیہ: بزنس روڈ، کراچی
021-3850969
کتاب سرائے: اردو بازار، لاہور
پیغمبرِ اعظم و آخر صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ کے مختلف پہلووؤں اور ان کے پیغام کے بارے میں تصنیف و تالیف کا کام گزشتہ کم و بیش ڈیڑھ ہزار برس سے جاری ہے، بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ یہ کام رسالت مآب کی ولادت باسعادت سے بھی بہت پہلے شروع ہوچکا تھا جس کی نمایاں مثال، قرآن حکیم سے پہلے کی آسمانی کتب اور صحائف میں نبی آخر الزماں، احمد مصطفی، محمد مجتبیٰ کا مبارک تذکرہ ہے جسے دوسرے الفاظ میں یوں بھی بیان کیا جا سکتا ہے کہ سیرت نگاری کا آغاز خود خالقِ کائنات نے رسولِ مہربان صلی اللہ علیہ وسلم کو دنیا میں بھیجنے سے بھی پہلے کردیا تھا۔ آسمان سے نازل شدہ اس سیرتِ طیبہ کے مطالعے کے سبب کیفیت یہ تھی کہ آپ کی تشریف آوری سے پہلے ہی یہود ونصاریٰ آپ کی آمدکے منتظر اور آپ کی نصرت کے مدعی تھے۔ یہ بات بھی یقین کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ یہ مبارک و مقدس سلسلہ تاقیامت جاری رہے گا۔ مشرق و مغرب میں کائنات کا کوئی گوشہ اور دنیا کی کوئی زبان ایسی نہیں جس میں اپنوں اور پرایوں نے سیرت النبی پر کتب تصنیف نہ کی ہوں۔ اردو زبان ہی میں لکھی گئی کتب کو شمار کرنے کی کوشش کی جائے تو ایک ضخیم کتاب مرتب ہوسکتی ہے، مگر اس کے باوجود یہ سلسلہ جاری ہے اور تا ابد جاری رہے گا، کہ اپنے اپنے انداز میں ہر لکھنے والا اس اہم موضوع پر کچھ کہنا اور اپنا حصہ ڈالنا چاہتا ہے۔
”سیرت محسنِ اعظم“ اسی مبارک سلسلے کی ایک قابلِ قدر کوشش ہے جس کے مصنف میاں محمد نواز مرحوم دنیا میں غلبہؤ اسلام کے لیے مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی برپا کردہ اسلامی تحریک کے متحرک، مخلص اور محنتی کارکن تھے۔ پنجاب کے دور دراز ضلع رحیم یار خاں میں جماعت اسلامی کے امیر اور مرکزی مجلس شوریٰ کے رکن رہے، جماعت اسلامی کے دورِ اول کے اکثر ارکان کی طرح میاں محمد نواز کو بھی لکھنے پڑھنے سے خصوصی شغف تھا۔ شوق کی تکمیل اور فریضہؤ اقامتِ دین کی ادائیگی کی خاطر وہ اخبارات و رسائل میں مضامین لکھتے رہے، جب کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں عمر کے آخری حصے میں” سیرت محسنِ اعظم“ کے نام سے زیر نظر کتاب کی تصنیف کی توفیق عطا فرمائی۔ کتاب کا پیش لفظ ادارہؤ معارف اسلامی کے ڈائریکٹر حافظ محمد ادریس صاحب نے تحریر کیا ہے جس میں وہ کتاب کی اشاعت کی روداد بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
”ہمارے محترم بھائی میاں نواز مرحوم نے کتاب کا مسودہ تیار کردیا تھا مگر اجل مسمی نے مرحوم کو اس پر نظرثانی کا موقع نہ دیا اور وہ داعیؤ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ مرحوم کے فرزندگان اور پوری فیملی، نیز ان کے احباب و محبان بالخصوص قاضی عبدالقادر صاحب کی خواہش تھی کہ یہ کتاب شایانِ شان طریقے سے منظرعام پر لائی جائے۔ چند سال قبل یہ مسودہ ہمیں ملا۔ راقم نے اسے پہلی نظر میں دیکھا تو تحریر میں جان بھی محسوس ہوئی اور علمیت بھی۔ تاہم یہ محسوس ہوا کہ نظرثانی اور حوالہ جات کی تحقیق کی ضرورت ہے۔ اس کٹھن کام کے لیے مختلف احباب اور اہلِ علم کی خدمات حاصل کی گئیں۔ مولانا عبدالوکیل علوی صاحب نے سب سے پہلے یہ مسودہ دیکھا اور اس پر مفید مشورے پیش فرمائے، اور پروفیسر ظفر حجازی کی مشاورت بھی حاصل رہی۔ پھر یہ کام رائے خدا بخش کلیار صاحب اور غلام مصطفی سلیمی صاحب کے سپرد کیا گیا۔ دونوں حضرات نے بڑی عرق ریزی سے کتاب کا پورا متن پڑھا، اس میں حوالہ جات کی درستی کا کام بھی حتی المقدور کیا اور ساتھ ساتھ تجاویز مرتب کرتے رہے کہ جہاں کہیں تکرار ہے یا موضوع سے کوئی بات قدرے بعید محسوس ہوتی ہے، اسے حذف کردیا جائے۔ ادارے کے رفیق محترم حامد فاروق صاحب اور محترم گل زادہ صاحب نے عربی عبارتوں کی تصحیح میں تعاون کیا۔ مرتبین نے نظرثانی کے وقت بعض ایسی کتابوں کے حوالوں کا اندراج کیا ہے جن کا نیا ایڈیشن مصنف مرحوم کی وفات کے بعد طبع ہوا۔ یہ کام بلاشبہ بڑا مشکل تھا مگر باہمی مشاورت سے اسے بھی بطریق احسن مکمل کرنے کی کاوش کی گئی۔“
کتاب کے آغاز میں ”میرے مربی، میرے محسن“ کے عنوان سے مصنف کے فرزندِ ارجمند میاں طاہر جواد کا ایک مضمون بھی شاملِ اشاعت کیا گیا ہے جس میں انہوں نے اپنے والد کی شخصیت، تحریک سے ان کے والہانہ تعلق، ان کی دعوتی سرگرمیوں اور ان کی تصنیفات کا مختصر مگر جامع تعارف نہایت خوبصورت اور نپے تلے الفاظ میں کرایا ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ:
”میاں محمد نواز مرحوم رحیم یار خان کے باشندے تھے۔ ان کا خاندان پشت ہا پشت سے اس علاقے میں مقیم تھا۔ میاں صاحب کی ولادت 1931ءمیں ہوئی۔ ابتدائی تعلیم شہر کے اسکول سے حاصل کی۔ 1951ءمیں میاں محمد نواز مرحوم بہاول پور کالج میں زیر تعلیم تھے اور اسلامی جمعیت طلبہ کے ناظم بھی تھے۔ بہاول پور کے کالج سے انہوں نے ایف ایس سی اور بی ایس سی کے امتحانات پاس کیے، بہال پور ڈویژن میں جمعیت کو کالجوں میں متعارف کرانے اور نظم کو مضبوط بنیادوں پر استوار کرنے میں ان کی کوششوں کو بہت دخل حاصل ہے۔ بعد ازاں اعلیٰ تعلیم کے لیے لاہور پہنچے۔ پہلے ایم۔اے اکنامکس کیا، پھر اسلامیات میں ایم اے کیا۔ انہیں بچپن ہی سے دینی کتابیں پڑھنے کا شوق تھا۔ وہ صالح طبیعت کے حامل تھے۔ انہوں نے لاہور کی علمی دنیا سے بھی استفادہ کیا اور اپنے شعبے سے متعلق کتب کے علاوہ سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی کتب بھی پڑھنے کا موقع ملا۔ لاہور میں سید مرحوم سے ان کی ملاقاتیں بھی ہوئیں۔ تحصیلِ علم کے بعد انہوں نے رحیم یار خان کی جماعت کے پروگراموں میں شامل ہوکر اپنی علمی زندگی کا آغاز کیا۔ کچھ ہی عرصے بعد خواجہ فرید کالج رحیم یار خان میں ان کی تقرری ہوگئی۔ ایوبی دور میں سرکاری ملازمین کے بارے میں حکومت کی طرف سے ایک مہم چلائی گئی کہ جو لوگ جماعت اسلامی سے وابستہ ہیں، وہ سرکاری ملازمت اختیار کریں یا جماعتی وابستگی برقرار رکھیں۔ جماعت سے وابستہ متعدد افراد نے جماعتی وابستگی کو سرکاری ملازمت پر ترجیح دی۔ میاں محمد نواز نے بھی کالج کی ملازمت چھوڑ دی اور اپنا ایک تجارتی ادارہ بنا کر رزقِ حلال کا بندوبست کرلیا اور جماعتی سرگرمیوں میں آزادانہ حصہ لیتے رہے۔“
اپنی بات کو سمیٹتے ہوئے وہ رقم طراز ہیں:
”والدین اولاد کے نزدیک دنیا کی سب سے لائقِ احترام ہستیوں میں شمار ہوتے ہیں، اس کتاب کے مصنف میاں محمد نواز مرحوم میرے والد بھی تھے، محسن اور مربی بھی۔ میں نے ان سے زندگی کے اسرار و رموز سیکھنے کے علاوہ دینِ اسلام کی حقیقتوں کی تعلیم بھی حاصل کی۔ انہوں نے اپنی اولاد تک نہ صرف دینِ اسلام پہنچایا بلکہ اس کی تفہیم کی حتی الامکان کوشش بھی کی۔ ان کی تربیت کے نقوش آج بھی ان کی اولاد کی زندگیوں میں موجود ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی خدماتِ دینیہ کو قبول فرمائے۔ اللہ تعالیٰ اس کتاب ”سیرت محسنِ اعظم “ کو قبولیت عطا فرمائے اور اسے مصنف میاں محمد نواز مرحوم کی بخشش اور بلندیؤ درجات کا ذریعہ بنائے، آمین۔“
”سیرت محسنِ اعظم“ کو پچیس ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پہلے باب میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت سے قبل خطۂ عرب کے حالات اور چند واقعات کا تذکرہ ہے، جس کے بعد کے ابواب میں سیرتِ طیبہ کا ترتیب وار بیان ہے۔ یہ بیان محض تاریخ نگاری تک محدود نہیں بلکہ جابجا مختلف واقعات کے حوالے سے اسلامی تعلیمات کی وضاحت اور ان کی حکمت پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ آخری پچیسویں باب میں رسولِ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کے سفرِ آخرت، اس موقع پر پیش آنے والے مختلف واقعات اور آپ کے متروکات کی تفصیل درج ہے، جب کہ کتاب کے اختتام سے قبل اسی باب میں ”دعوت و تحریک میں اہلِ بیت کا بے مثال کردار“ بیان کرنے کے بعد چند صفحات میں امہات المومنین کا نہایت مختصر تعارف بھی کرا دیا گیا ہے۔ ہر صفحے کے حوالہ جات اسی صفحے کے نیچے حاشیہ میں درج کر دیئے گئے ہیں جو مصنف کی وسعتِ مطالعہ کا پتا دیتے ہیں۔
ادارہ معارف اسلامی نے کتاب کے شایانِ شان اور اپنی روایتی معیاری طباعت کے ساتھ مزین عمدہ کاغذ پر اسے شائع کیا ہے۔ سرورق گنبدِ رسول سے مزین ہے، جب کہ جلد نہایت مضبوط ہے۔ بڑے سائز کے سوا چھ سو صفحات پر محیط کتاب کی قیمت آٹھ سو روپے رکھی گئی ہے جو موجودہ مہنگائی کے دور میں مناسب و معقول ہی نہیں خاصی کم محسوس ہوتی ہے۔ ممکن ہے اس کے پس منظر میں یہ سوچ کارفرما ہو کہ سیرتِ طیبہ کے اس قیمتی ذخیرے کو زیادہ سے زیادہ شائقین تک پہنچایا جائے اور عام آدمی کے لیے اس تک رسائی اور مطالعہ آسان سے آسان تر بنایا جائے۔