پیشکش:ابوسعدی
اسٹیفن ہاکنگ کی نئی کتاب منظرِ عام پر آگئی ہے جسے ’بریف آنسرز ٹو دی بِگ کوئسچنز‘ کا نام دیا گیا ہے۔ ممتاز ریاضی داں، ماہرِ کونیات و فلکیات اسٹیفن ہاکنگ کی نئی تصنیف ایسے مسائل پر بحث کرتی ہے جو مستقبل میں پیش آسکتے ہیں۔ اسٹیفن ہاکنگ کی یہ کتاب ان کے مختلف مضامین کا مجموعہ ہے جنہیں انہوں نے گمبھیر عالمی مسائل قرار دیا ہے اور ان کے جوابات دینے کی کوشش بھی کی ہے۔ ہاکنگ نے اپنی کتاب میں کہا ہے کہ مستقبل قریب میں انتہائی امیر افراد خود اپنے اور اپنی اولاد کے ڈی این اے میں تبدیلی سے فوق انسان یعنی ’سپرہیومن‘ کی دوڑ میں شامل ہوجائیں گے، جبکہ بقیہ انسانیت پیچھے رہ جائے گی۔ اپنے سلسلۂ مضامین میں ہاکنگ نے کہا ہے کہ جینیاتی کاٹ چھانٹ اور ڈی این اے میں تبدیلی کے بہت سے غیرمعمولی طریقے سامنے آچکے ہیں جن میں ایک کرسپر (CRSPR) سرِفہرست ہے۔ ہاکنگ نے تو یہاں تک کہا ہے کہ انسانوں کا ایک ٹولہ سپرہیومن بننے کے بعد بقیہ انسانوں کو فنا کرسکتا ہے۔ ہاکنگ نے اپنے مضامین اور فیچرز میں کہا ہے کہ اس صدی کے آخر تک انسان غصہ اور نفرت سمیت اپنی بعض جبلتوں کو بدل دے گا اور اپنی ذہانت بڑھانے کی کوشش کرے گا۔ حکومتیں انسانوں کی جینیاتی تبدیلی روکنے کے قوانین ضرور بنائیں گی لیکن بعض افراد انسانی زندگی میں طوالت، بیماریوں کو روکنے اور یادداشت بڑھانے کے لیے متنازع انسانی جینیاتی انجینئرنگ کا سہارا لیں گے۔ اس کتاب میں اسٹیفن ہاکنگ نے مصنوعی ذہانت (آرٹیفشل انٹیلی جنس) کے اَن دیکھے پہلوؤں پر بھی بات کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ انسان ارتقائی لحاظ سے سست رفتاری سے ترقی کررہا ہے جبکہ مصنوعی ذہانت بہت جلد اسے پیچھے چھوڑ دے گی۔ کئی میدانوں میں انسان اے آئی کا ساتھ نہیں دے سکے گا۔اب اگر دفاتر، کارخانوں اور فوجی انتظامات میں اسے استعمال کیا جائے گا تو ایک دن مصنوعی ذہانت خود فیصلہ کرنے کے قابل ہوکر ہم انسانوں کو ہی صفحۂ ہستی سے مٹاسکتی ہے یا نقصان پہنچانے کی کوشش کرسکتی ہے۔ اپنے دیگر مضامین میں ہاکنگ نے زمین کے کسی سیارچے سے ٹکراؤ اور موسمیاتی تبدیلی کو زمین کے لیے بڑے خطرات قرار دیا ہے۔ اسی بنا پر انہوں نے نیوکلیئر فیوژن کو توانائی کا بہترین، سب سے صاف اور ماحول دوست ذریعہ قرار دیا ہے۔ واضح رہے کہ اسٹیفن ہاکنگ کی پہلی کتاب ’اے بریف ہسٹری آف ٹائم‘ 1988ء میں منظرِعام پر آئی تھی جو پوری دنیا کی درجنوں زبانوں میں ترجمہ کی گئی تھی۔ اسی مناسبت سے ان کی آخری کتاب کو ’بڑے سوالات کا اجمالی جواب‘ کا نام دیا گیا ہے۔ اسٹیفن ہاکنگ موٹر نیورون کی بیماری میں مبتلا تھے اور اس سال 14 مارچ کو ان کا انتقال ہوگیا تھا۔
سورج کی روشنی سے بجلی بنانے کا ایک اور سستا طریقہ ایجاد
سائنس دانوں نے سورج کی حرارت سے بجلی پیدا کرنے کے لیے شمسی (سولر) پینل کے بجائے سرامک شیٹس کے استعمال کا کامیاب تجربہ کیا ہے۔ اس طریقے میں لاگت بھی کم آتی ہے اور یہ نہایت محفوظ بھی ہے۔ سائنسی جریدے ’نیچر‘ کے مطابق امریکی یونیورسٹی پرڈیو کے ماہرین پر مشتمل ایک ٹیم نے ایک ایسا مادہ تیار کیا ہے جو شمسی توانائی کو حرارت میں تبدیل کرکے بجلی پیدا کرسکتا ہے۔سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ شمسی توانائی کو حرارتی شکل میں جمع کرنے میں بہت کم لاگت آتی ہے، جب کہ سولر پینل میں یہی عمل بیٹریوں سے کیا جاتا ہے اور بڑے پیمانے پر استعمال کے لیے ٹربائن کا استعمال بھی کیا جاتا ہے جو کہ بہت مہنگا پڑتا ہے۔ سائنس دانوں نے سولر پینل سے چھن کر جمع ہونے والی کرنوں کو حرارت میں تبدیل کرنے کے عمل کے بعد اسے برقی توانائی میں تبدیل کرنے کے لیے بیٹری یا ٹربائن کے بجائے خصوصی طور پر تیار کردہ سرامک کی شیٹس کو استعمال کیا ہے جس سے حرارتی توانائی بآسانی برقی توانائی میں تبدیل ہوجاتی ہے۔
پردے ہٹائیے، دھوپ لائیے اور مضر جراثیم بھگائیے
گھروں یا دفاتر کے تاریک کونوں میں جراثیم خوب پھلتے پھولتے ہیں اور سورج کی روشنی ان کی دشمن ہوتی ہے۔ اس ضمن میں یونیورسٹی آف اوریگون کے سائنس دانوں نے ایک سروے کیا ہے جس کے بعد وہ ہر گھرسے یہی کہہ رہے ہیں کہ پردے کھول دیجیے اور گھر کے ہر ممکن حصے تک دھوپ آنے دیجیے، بصورتِ دیگر آپ کا گھر مضر جراثیم کا گڑھ بن جائے گا۔ اندھیرے میں 12 فیصد جراثیم اپنی تعداد بڑھاتے ہیں۔ جن کمروں میں دھوپ آتی ہے وہاں یہ شرح گھٹ کر تقریباً آدھی یعنی 6.8 فیصد رہ جاتی ہے۔ دھوپ میں شامل الٹراوائیلٹ شعاعوں کی موجودگی میں صرف 6.1 فیصد جراثیم ہی اپنی آبادی میں اضافہ کرپاتے ہیں۔