عام انتخابات کے پچاس دن بعد ملک میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی خالی چھوڑی جانے والی نشستوں پر ضمنی انتخاب ہوا، جس کے نتائج آچکے ہیں، اور اب یہ سوال اہمیت اختیار کرگیا ہے کہ زندگی کی تلخ حقیقتوں کا سامنا کرنے اور مہنگائی کے مارے ہوئے لوگوں نے کیا ان نمائشی اقدامات کو پسند کیا جو تحریک انصاف کی حکومت کررہی ہے؟ ایک جانب تو وزیراعظم ہاؤس کی گاڑیاں نیلام کرکے چند کروڑ روپے کمائے گئے، 22,20 لاکھ کی بھینسیں بھی بک گئیں، مہمانوں کو چائے بسکٹ کھلا کر سموسوں کے پیسے بچا لیے گئے، لیکن روپیہ دھڑام سے گرا تو ایک ہی دن میں 9 سو ارب روپے کے قرضے بڑھ گئے، اور جو بچت ہوئی تھی وہ سب ہوا میں اڑ گئی۔ اسی طرح ایک ہی دن میں اسٹاک ایکس چینج بیٹھ گیا، ایسے میں کفایت شعاری کی مہم تو فائر بیک کرگئی۔ اب جس کے کروڑوں روپے اسٹاک ایکس چینج میں ڈوب گئے، اُسے یہ کہہ کر دلاسہ تو نہیں دیا جاسکتا کہ تم لاہور یا کراچی کے گورنر ہاؤس کے لان کی سیر کر آؤ اور وہاں لگے ہوئے نادر پودوں کا دیدار کرلو۔ معیشت ایک ٹھوس حقیقت ہے جس کے ساتھ دل لگی نہیں کی جاسکتی، اور نہ ہی ایسے کسی مذاق سے لوگوں کے دل بہلتے ہیں۔ ضمنی انتخابات میں تحریک انصاف کی جیتی ہوئی نشستوں پر اس کے امیدواروں کو ہرا کر یہی پیغام دیا گیا ہے۔ نئے پاکستان کے جو سنہرے خواب دکھائے گئے تھے وہ سب چکنا چور ہوچکے، 100 روزہ انقلابی پروگرام کا نام و نشان نہیں مل رہا، خزانہ ’’خالی‘‘ ہے، آئی ایم ایف کے سامنے کشکول اٹھایا ہوا ہے لیکن 180 ارب روپے سے نیا گھر اسکیم شروع کردی گئی ہے۔ روپیہ زمین کے ساتھ لگ گیا ہے اور مہنگائی کا سکہ چل رہا ہے۔ آئی ایم ایف کے ساتھ 15 ارب ڈالر کا پروگرام لیا جارہا ہے، تین سالہ پروگرام پر اس سال کے آخر تک معاہدہ ہوجائے گا اور بجٹ خسارہ کم، شرح تبادلہ میں لچک اور سخت مانیٹری پالیسی اگلے پروگرام کی شرائط ہوں گی۔ روپے کی گرتی ہوئی قدر کے بارے میں آئی ایم ایف کا مؤقف ہے کہ 2017ء سے روپے کی 24 فیصد گراوٹ نے روپے کو حقیقی قدر دے دی ہے جس کے بعد روپے کی قدر سے مصنوعی اضافہ ختم ہوگیا ہے۔ یہی مؤقف حکومت کا بھی ہے جس کے سیاسی نامہ اعمال میں کچھ دکھانے کے قابل نہیں تو وہ کرپشن کے خلاف احتساب کا ڈھنڈورا پیٹ رہی ہے۔ پہلے احتساب نے کرشمہ دکھایا اور عام انتخابات میں سارے انڈے عمران خان کی ٹوکری میں ڈال دیے گئے، اب ضمنی انتخاب سے پہلے ایک بار پھر نیب متحرک ہوچکا ہے۔ سیاست دانوں کے ہاتھوں میں ہر ہتھکڑی لگ جاتی ہے لیکن نیب کے ایک ڈی جی نے اپنے ہی ادارے کے ایک افسر کے خلاف ریفرنس تیار کرنے کی اجازت مانگی ہے لیکن چیئرمین نیب نے اس کی اجازت نہیں دی۔
تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ آٹھ ہزار ارب ٹیکس اکٹھا کرکے دکھائیں گے۔ مسلم لیگ(ن) کی حکومت یہ اعدادو شمار چار ہزار ارب پر چھوڑ کر گئی تھی۔ لیکن حکومت آٹھ ہزار ارب ٹیکس اکٹھا کرنے کا ہدف حاصل کرنے کے لیے موٹر سائیکل سواروں پر کم از کم دو سے تین ہزار روپے جرمانے کررہی ہے لیکن بدترین معاشی منصوبہ بندی کے باعث ترقی کی شرح 5.8 فیصد سے نیچے گر کر نئے ضمنی میزانیے کے تخمینے میں 4.8 فیصد سے کہیں کم پر آچکی ہے، اور مدنی ریاست کی تعمیر کے لیے آئی ایم ایف سے بھاری شرح سود پر قرض لیا جارہا ہے۔ اس شرح سود کے ساتھ آئی ایم ایف کے پروگرام کے باعث حکومت ایک کروڑ نوکریوں اور 50 لاکھ گھروں کی تعمیر کے خواب دکھانا بند کردے۔ حکومت نے لوٹی ہوئی دولت واپس لانے کا دعویٰ کیا تھا لیکن ایک ہی رات میں 10 ارب ڈالر کی غیر قانونی اُڑان روک نہیں سکی، بلکہ وفاقی کابینہ کے ایک وزیر اس کام میں سہولت کار بنے۔ حکومت اب ایک نئے سیاسی بحران کی جانب بڑھ رہی ہے کہ وہ این ایف سی ایوارڈ میں صوبوں کے حصے کو وفاق کے حصے سے کم کرنے کے نت نئے فارمولے تلاش کررہی ہے۔ یہ عمل اٹھارہویں ترمیم کے منافی اور غیر آئینی ہوگا۔ وزارتِ خزانہ کے ایک ماہر ڈاکٹر حفیظ پاشا سمری بناکر دینے کی تیاری کررہے ہیں۔ یہ سمری صدرِِ مملکت کو دی جائے گی کہ صوبوں کا حصہ کیسے کم کرنا ہے۔
حکومت کو اگلے مرحلے میں آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات کے لیے میدان میں اترنا ہے۔ وزیر خزانہ اسد عمر اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے گورنر طارق باجوہ نے انڈونیشیا میں آئی ایم ایف کی سربراہ کرسٹین لاگارڈ سے ملاقات میں مالی مدد کی باضابطہ درخواست دی ہے۔ اس درخواست کے جواب میں آئی ایم ایف کی سربراہ نے آگاہ کیا کہ قرض دینے کے لیے دیکھا جاتا ہے کہ ملک کس نوعیت کا قرض لیے ہوئے ہے اور مزید کتنے قرض کا بوجھ برداشت کرسکتا ہے، قرضوں کی شفافیت اور ان کے واضح ہونے کی شرط صرف پاکستان پر نہیں، اس کا اطلاق قرض مانگنے والے تمام ممالک پر ہوتا ہے، تاکہ قرضوں کی پائیداری سے متعلق اپنے رکن ممالک کا اتفاق حاصل کیا جاسکے۔ یہ گورننس اور کرپشن کے حوالوں سے آئی ایم ایف بورڈ کے طے کردہ اصولوں کے سبب ہے، جن کا اطلاق کیا جا رہا ہے۔ آئی ایم ایف اینٹی منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی مالی معاونت روکنے سے متعلق بھی تیکنیکی معاونت فراہم کرتا ہے، اور ادارے کی کوشش ہوگی کہ زیادہ سے زیادہ رکن ممالک کو یہ معاونت فراہم کی جائے۔
آئی ایم ایف کو پاکستان کی جانب سے قرض کی درخواست پر امریکہ کی بھی نظریں ہیں۔ ترجمان امریکی محکمہ خارجہ ہیدر نورٹ بھی اپنے اس تبصرے کے ساتھ سامنے آئی ہیں کہ قرضوں کے حوالے سے پاکستان کی پوزیشن بھی دیکھی جائے گی، پاکستان اس حالت میں چینی قرضوں کے سبب بھی آیا۔ ممکن ہے حکومتوں کا خیال ہو کہ بیل آؤٹ کے لیے یہ قرض اتنا بوجھل نہیں ہوگا، مگر اب سخت تر ہوتا جارہا ہے۔ آئی ایم ایف کی ٹیم چند ہفتوں میں مذاکرات کے لیے اسلام آباد آئے گی تاکہ ممکنہ معاشی سپورٹ پروگرام وضع کیا جاسکے۔ یہ بات واضح نہیں ہوسکی کہ اگر آئی ایم ایف قرض دے گا تو کن شرائط پر دے گا، اور آیا ان شرائط کو عوام کے سامنے لایا جائے گا یا نہیں۔ حکومت کو اس سال اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے 8 سے 9 ارب ڈالر درکار ہیں، تاہم حکومت اس پروگرام کو بیل آؤٹ پیکیج کا نام نہیں دینا چاہتی۔ پاکستان کے ادارۂ شماریات کے مطابق رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی (جولائی تا ستمبر) میں پاکستان کا تجارتی خسارہ 11کھرب روپے ہوگیا ہے۔ ورلڈ بینک کی ایک حالیہ رپورٹ میں بھی کہا گیا ہے کہ پاکستان کی معاشی صورتِ حال اس وقت خراب ہے اور مالی پالیسی سخت کرنے سے اخراجات کے ساتھ ترقی میں کمی کا امکان ہے، مالی صورت حال بہتر کرنے اور برآمدات کو بڑھانے کے لیے قلیل المدتی اقدامات مکمل کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ملکی معیشت کو تنزل سے باہر نکالا جائے، مشینری اور تیل دونوں کی درآمدات میں اضافے سے تجارتی خسارہ بڑھتا چلا گیا۔ تجارتی خسارہ کم کرنے کے لیے حکومت کو طویل المدتی پالیسیاں بنانی چاہئیں۔
پاکستان کی جانب سے آئی ایم ایف سے ممکنہ قرض کے باعث ملک میں بجلی مہنگی ہونے کے امکانات بڑھ گئے، پاکستانی روپے کی ڈالر کے مقابلے میں گراوٹ حیرت انگیزسطح پر پہنچ چکی ہے۔ ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کا آئی ایم ایف سے قرض حاصل کرنے کا فیصلہ نئی حکومت کے لیے دردِ سر بنتا جا رہا ہے، قرض حاصل کرنے کے اشاروں کے بعد پاکستان میں صارفین کے لیے بجلی مہنگی ہونے کے امکانات بڑھ گئے ہیں، جبکہ روپے کی قدر میں حیرت انگیز کمی رہی، پہلے سے موجود اربوں ڈالر کے قرض میں مزید اضافہ ہوگیا، پاکستان 1980ء کے بعد سے اب آئی ایم ایف سے 13واں بیل آئوٹ پیکیج حاصل کرنے کی منصوبہ بندی کررہا ہے۔آئی ایم ایف کی جانب سے پاکستان کو بتادیا گیا ہے کہ اگر قرض حاصل کرنا چاہتے ہیں تو معیشت کو متوازی بنانے کے لیے ادارہ جاتی اصلاحات کو یقینی بنانا ہوگا۔ جبکہ اس کے علاوہ حکومت کو اپنے اخراجات میں کمی کرنا ہوگی، جس کے باعث بجٹ خسارے میں اضافہ ہورہا ہے۔ آئی ایم ایف کی جانب سے شرائط کے طور پر بتایا جانے والا ایجنڈا پاکستانی حکومت کے لیے مؤثر طور پر اختیار کرنا مشکل ہوگا اور یہ عمران خان کی اپنی انتخابی مہم میں کیے جانے والے دعووں کے بھی برخلاف ہوگا۔ اگر عمران خان پاکستان کو ریاست مدینہ جیسی فلاحی مملکت بنانا چاہتے ہیں تو اس کے لیے مزید سخت اور تکلیف دہ اقدامات کرنا ہوں گے۔ آئی ایم ایف کی جانب سے اس بات کا عندیہ پہلے ہی دیا جا چکا ہے کہ 2019ء میں پاکستان کی شرح نمو میں کمی واقع ہونے کا امکان ہے۔
حکومت کی بدعنوان عناصر کے خلاف کارروائی بھی آگے بڑھ رہی ہے۔ دبئی میں پاکستانیوں کی جائدادوں کے معاملے میں قائم کمیٹی نے 893 مالکان کو نوٹس بھجوائے ہیں جن میں سے 450 افراد نے جائدادوں کی ملکیت تسلیم کرلی ہے، جبکہ 443 افراد نے ابھی تک کوئی جواب نہیں دیا۔ ان جائدادوں کو بے نامی قرار دے کر بحق سرکار ضبط کرنے کی کارروائی کی جائے گی۔ دبئی میں تقریباً سات ہزار پاکستانیوں نے جائدادیں خرید رکھی ہیں۔
اربوں ڈالر کا سرمایہ پاکستان سے کیسے اور کیوں منتقل ہوا؟ اسی کا کھوج لگانے کے لیے سپریم کورٹ نے ایک خصوصی کمیٹی بنانے کا حکم دیا تھا، اس کمیٹی کی نگران بھی سپریم کورٹ ہی ہے۔روپے کی قدر میں کمی اور ڈالر کی قیمت میں اضافے کو عام طور پر مہنگائی کا اشارہ قرار دیا جاتا ہے، پاکستان جیسے ترقی پذیر اور زرعی ملک میں، جہاں صنعتی پیداوار کم اور انڈسٹری سیکٹر کا انحصار درآمدات پر ہے، وہاں جب ڈالر کی قیمت بڑھتی ہے تو خام مال یا درآمدی اشیاء کے دام بھی بڑھ جاتے ہیں، جس سے صنعتوں کی پیداواری لاگت بڑھ جاتی ہے اور صنعت کار خود نقصان سے بچنے کے لیے سارا بوجھ صارفین پر منتقل کردیتے ہیں۔ بجلی اور گیس کے نرخ بڑھ جانے سے عوام کی زندگی مزید اجیرن بن جائے گی۔ جب فرائیڈے اسپیشل نے استفسار کیا تو وزیر خزانہ اسد عمر نے کہا کہ حکومت نے عالمی مالیاتی فنڈ سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ وزیراعظم نے فوری طور پر آئی ایم ایف سے مذاکرات کی منظوری دی ہے۔ حکومت مالی ضروریات کے پیش نظر آئی ایم ایف سے چھ سے سات ارب امریکی ڈالر کا قرض مانگے گی، اس کے علاوہ سعودی عرب، چین، اسلامی ترقیاتی بینک، ایشیائی ترقیاتی بینک اور سمندر پار پاکستانیوں کے لیے اوورسیز بانڈز کا اجرا بھی زیر غور ہے۔ پاکستان کی معاشی صورت حال اس قدر بگاڑ کا شکار ہے کہ درآمدی ادائیگیوں کے لیے ماہانہ تین سے چار ارب ڈالر زرمبادلہ خرچ ہورہا ہے، جبکہ جاری کھاتوں کا خسارہ اٹھارہ سے بیس ارب ڈالر سالانہ کے لگ بھگ ہے۔ آئی ایم ایف کو پچھلے قرضوں کی واپسی اور اس پر سود کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ تجارتی ادائیگیاں حکومت کے لیے بڑے چینلج بنے ہوئے ہیں۔ آئی ایم ایف سے اربوں ڈالر کا قرضہ حاصل کرنا اگر پی ٹی آئی نے مجبوری بنا لیا ہے تو ہنگامی طور پر اہم اقدامات کرنا ہوں گے تاکہ ہم آئی ایم ایف کے ساتھ آئندہ ماہ طے پانے والے پروگرام کو پوری طرح چلا سکیں۔ ان اقدامات میں چین، اسلامی ترقیاتی بینک، سعودی عرب، یو اے ای اور ترکی سے باہمی مفاد پر مالی معاونت حاصل کرنے کی کوشش کرنا ہوگی۔ آئی ایم ایف کا مشن نومبر کے دوسرے ہفتے میں آئے گا، وزیر خزانہ اسد عمر، سیکریٹری خزانہ عارف احمد خان، گورنر اسٹیٹ بینک طارق باجوہ، چیئرمین ایف بی آر جہانزیب خان وفد سے مذاکرات کریں ۔گے وفد پورا ایک ہفتہ اسلام آباد میں رہے گا اور وہ بجلی، گیس کی قیمتوں میں مزید اضافے، روپے کی قدر میں مزید کمی اوراسٹیٹ بینک کے بینک ریٹ کو آٹھ فیصد بڑھا کر دس گیارہ فیصد کرنے کا تقاضا کرے گا۔