معروف سعودی صحافی اور واشنگٹن پوسٹ کے کالم نگار جناب جمال خاشقجی کی استنبول کے سعودی قونصل خانے سے پراسرار گمشدگی کے بارے میں ایک سنسنی خیز انکشاف سامنے آیا ہے۔ امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کے مطابق دو ایک دن میں ریاض کی جانب سے ایک بیان متوقع ہے جس میں جمال خا شقجی کی قونصل خانے میں دورانِ تفتیش ہلاکت کا اعتراف کیا جائے گا۔ تفتیش کار مبینہ طور پر ولی عہد شہزداہ محمد بن سلمان کے قریبی معاون تھے لیکن انھیں تشدد اور طاقت کے استعمال کی اجازت نہیں تھی۔15 اکتوبر کو صدر ٹرمپ نے شاہ سلمان سے فون پر گفتگو کے بعد صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے اس واقعے کو غیر ریاستی عناصر یا کسی بدمعاش (Rogue)کی ممکنہ کارروائی قرار دیا تھا۔ خیال ہے کہ بدمعاش سے مراد شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار سعودی جلاد تھے جنھوں نے بدترین تشدد کرکے جمال کو قتل کردیا۔ اس اعتراف کے ساتھ سعودیوں کو دنیا کے سامنے یہ وضاحت بھی کرنا پڑے گی کہ ’بدمعاشوں‘ کی اس کارروائی کے دوران وہاں موجود سعودی قونصلر جنرل کیا کررہے تھے اور جمال کی لاش کو کیسے اور کہاں ٹھکانے لگایا گیا۔
پیر کی دوپہر ترک پولیس اور خفیہ اداروں نے قونصل خانے کی عمارت کا تفصیلی جائزہ لیا۔ تحقیقاتی رپورٹ تو ایک دودن میں جاری ہوگی لیکن شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایک اعلیٰ افسر نے صحافیوں کو بتایا کہ 11 منٹ کی ایک آڈیو ٹیپ ان کے ہاتھ لگی ہے جس میں تفتیشی افسران کی گفتگو اور کسی شخص کی چیخیں صاف سنائی دے رہی ہیں۔ ماہرین ان آوازوں کے تجزیے میں مصروف ہیں تاکہ تصدیق ہوسکے کہ یہ آواز جمال خاشقجی کی ہی ہے۔ قیاس آرائیوں اور انکشافات سے قطع نظرتادم تحریر سعودی حکومت اپنے اس موقف پر قائم ہے کہ دستاویزات کی تصدیق کے بعد جمال خاشقجی قونصل خانے سے چلے گئے تھے۔
’خاشقجی‘ ترک زبان کے لفظ کاسہ اور جی یعنی چلانے والی چیز سے بنا ہے، اور اس کا مطلب ہے چمچے بنانے والا۔ جمال کے آبا و اجداد کا تعلق اناطولیہ (ترکی) کے ایک صنعتی شہر قیصری سے تھا اور شاید یہ لوگ چمچہ سازی کی صنعت سے وابستہ تھے۔ جمال کے پردادا ترکی سے مدینہ چلے آئے۔ انھوں نے ایک سعودی خاتون سے شادی کرلی، جنھوں نے محمد خالد خاشقجی (جمال کے دادا) اور عبداللہ خاشقجی کو جنم دیا۔ اُس وقت مدینہ سلطنتِ عثمانی کا حصہ تھا۔ سرکار نے عبداللہ کو محتسب مقرر کیا لیکن کسی وجہ سے خاشقجی خاندان شاہی عتاب کا شکار ہوا اور دونوں کو مدینہ سے نکال دیا گیا۔ جلاوطن ہوکر جمال کے دادا دمشق چلے گئے اور طب و جراحت کی تعلیم حاصل کی۔ بعد میں وہ مزید تعلیم کے لیے پیرس گئے اور انھوں نے جراحت میں خوب نام پیدا کیا۔ سلطنتِ آلِ سعود کے قیام پر داداجی مکہ آگئے اور کچھ دن بعد انھیں مملکت کے بانی عبداللہ بن عبدالعزیز کا ذاتی معالج تعینات کردیا گیا۔ ڈاکٹر خاشقجی شاہی طبیب کے طور پر ریاض منتقل ہوگئے لیکن ان کی اہلیہ اور بچے مدینہ ہی میں رہے۔
کمال خاشقجی اکتوبر 1958ء میں مدینہ میں پیدا ہوئے۔ اسلحہ کے مشہور تاجر عدنان خاشقجی ان کے چچا اور برطانوی شہزادی ڈائنا کے دوست دودی الفائد ان کے پھوپھی زاد بھائی تھے۔ مدینہ کے سرکاری اسکول سے میٹرک اور انٹر کرنے کے بعد جمال نے امریکہ کی جامعہ انڈیانا (University of Indiana) سے انتظامِِ کاروبار میں بیچلر یعنی BBAکیا، اور وطن واپس آکر تجارت شروع کی جو ان کا خاندانی پیشہ تھا، لیکن قلم و قرطاس کے دھنی جمال کا دھندے میں دل نہ لگا اور وہ سعودی عرب کے انگریزی اخبار ’سعودی گزٹ‘(Saudi Gazette) سے وابستہ ہوگئے۔ کچھ دن بعد وہ عربی اخبار ’عکاظ‘ کے نائب منیجر مقرر ہوئے۔ لیکن اخبار کی منیجری بھی صحافی جمال کو پسند نہ آئی اور انھوں نے نوکری چھوڑ کر ’الشرق الاوسط‘، ’المجلہ‘ اور ’المسلمون‘ میں کالم لکھنے شروع کردیے۔ افغانستان پر روسی حملے کے بعد جمال صحافتی ذمے داریوں کی ادائیگی کے لیے افغانستان، الجزائر، سوڈان اور کئی دوسرے ممالک گئے اور اسامہ بن لادن سے اُن کے انٹرویو تمام مغربی اخبارات میں شائع ہوئے۔ اُس وقت اسامہ مغربی دنیا کے ہیرو تھے اس لیے جمال سے ان کے انٹرویو کو خوب پذیرائی نصیب ہوئی۔ کہا جاتا ہے کہ جمال کے اسامہ بن لادن سے بہت قریبی تعلقات تھے، اور جب عراق پر امریکہ کے حملے کے بعد اسامہ امریکیوں کے عتاب کا شکار ہوئے تو جمال نے شاہ فیصل کے صاحبزادے شہزادہ ترکی الفیصل کے ساتھ مل کر واشنگٹن اور اسامہ کے درمیان مصالحت کرانے کی کوشش کی، اور اسی کے ساتھ انھوں نے اسامہ کو تشدد ترک کرکے سیاست میں آنے کا مشورہ دیا۔ 9/11کے بعد جمال نے اسامہ بن لادن سے قطع تعلق کرلیا تھا۔
سعودی حکومت سے ان کی پہلی کھٹ پٹ 2003ء میں ہوئی جب وہ ’الوطن‘ کے ایڈیٹر تھے۔ اخبار میں ایک ’’قابلِ اعتراض‘‘ مضمون کی اشاعت پر جمال ملازمت سے برطرف کردیے گئے۔ الزام کے مطابق اس مضمون میں اخوان المسلمون کے بانی حسن البنا کی غیر ضروری تعریف کی گئی تھی۔ اس برطرفی پر ناراض ہوکر جمال لندن چلے گئے۔ تاہم شہزادہ ترکی الفیصل نے انھیں منا لیا اور وہ دوبارہ ’الوطن‘ کے مدیر مقرر کردیے گئے۔ لیکن 3 ہی سال بعد ایک اور قابلِ اعتراض کالم کی اشاعت پر پھر فارغ کردیے گئے۔ اس عرصے میں جمال ساری دنیا میں خاصے مشہور ہوچکے تھے، چنانچہ ارب پتی ولید بن طلال نے جمال کو اپنے ’العرب ٹیلی ویژن‘ میں ملازمت دے دی جس کی نشریات بحرین سے ہوتی تھیں۔ اسی کے ساتھ اُن کے چبھتے ہوئے سیاسی تبصرے بی بی سی، وائس آف امریکہ، CNN، الجزیرہ، جرمن ریڈیو اور دوسرے بہت سے نشریاتی اداروں پر آنے لگے۔ سعودی عرب کا نجی لیکن حکومت کی آشیرواد سے چلنے والا ’العربیہ ٹیلی ویژن‘ بھی انھیں سیاسی مباحثوں میں مدعو کرتا تھا۔
صدر ٹرمپ کی کامیابی پر جمال خاشقجی نے شدید تشویش کا اظہار کیا۔ سعودی اخبارات میں ان کے کئی کالم شائع ہوئے جن میں انھوں نے ٹرمپ کی کامیابی کو سعودی عرب و فلسطین کے لیے نقصان دہ قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے نسل پرست رویّے سے ساری دنیا کا امن متاثر ہوسکتا ہے۔ دسمبر 2016ء کے بعد جمال سعودی عرب کے اخبارات و رسائل اور ٹیلی ویژن سے اچانک غائب ہوگئے اور غیر ملکی میڈیا پر ان کی غیر حاضری چہ میگوئیوں کا سبب بنی۔ کہا جاتا ہے کہ جون 2017ء میں سعودی عرب کا ولی عہد مقرر ہوتے ہی شہزادہ محمد بن سلمان نے جمال کو دھمکی دی کہ وہ ان کے ’جگری دوست‘ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف لکھنا بند کردیں ورنہ ان کا حشر بہت برا ہوگا۔ میڈیا میں جمال کے سرپرست ولید بن طلال کے تعلقات بھی سعودی ولی عہد سے کشیدہ تھے چنانچہ جمال خاشقجی جلاوطنی اختیار کرکے امریکہ چلے گئے۔ کیا ستم ہے کہ امریکی صدر کی مخالفت پر شاہی غضب کا شکار ہونے والے جمال نے پناہ کے لیے امریکہ ہی کا انتخاب کیا۔ ’’جو اماں ملی تو کہاں ملی…‘‘ دسمبر 2016ء کے بعد ان کا پہلا کالم ستمبر 2017ء میں امریکی اخبار ’واشنگٹن پوسٹ‘ نے شائع کیا جس میں انھوں نے سعودی عرب کی جانب سے اخوان المسلمون اور استاذ یوسف القرضاوی کو دہشت گرد قرار دینے کی مذمت کی۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ خود بھی اخوانی نظریات کے مخالف ہیں لیکن اخوان کی ساخت ایک جمہوری جماعت کی ہے جسے دہشت گرد نہیں کہا جاسکتا۔ اپنے دوسرے کالموں میں جمال نے خلیجی ممالک کی جانب سے قطر کے بائیکاٹ، سعودی عرب کے اسرائیل سے خفیہ تعلقات، یمن کی بے مقصد جنگ اور لبنان میں سعودی عرب کی مبینہ مداخلت پر شدید تنقید کی۔ دوسرے امریکی اخبارات کی طرح واشنگٹن پوسٹ اسرائیل کا زبردست حامی ہے لیکن جمال اپنے کالم میں اسرائیل کی توسیع پسندانہ پالیسی پر سخت تنقید کرتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ صدر ٹرمپ کے آنے کے بعد اسرائیل نے تمام بین الاقوامی قوانین کو روند ڈالا ہے۔ واشنگٹن پوسٹ کی اسرائیل نوازپالیسی جمال کو اپنے ضمیر کے اظہار سے نہ روک سکی اور واشنگٹن پوسٹ بھی جمال کے تنقید بھرے مضامین کو خندہ پیشانی سے شائع کرتا رہا۔ اپنے کالموں اور ٹیلی ویژن گفتگو میں جمال اسلامی قوانین کی حمایت میں بھی دلائل دیتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ مسلمان ملکوں کے عوام شریعت کا نفاذ چاہتے ہیں لیکن طالبان و القاعدہ کی طرح زبردستی کے بجائے قانون سازی جمہوری انداز میں نمائندہ پارلیمان کے ذریعے ہونی چاہیے۔ مزے کی بات کہ سعودی ولی عہد ان کو اخوان المسلمون کا دانشور کہتے تھے جبکہ جمال خاشقجی کا خیال ہے کہ اخوان امام ابن تیمیہ کے باب میں غلو کا شکار ہوکر وہابیت کو اسلام پر ترجیح دیتی ہے۔ جمال نے انٹرنیٹ پر Democracy in the World Arab کے نام سے ایک سیاسی جماعت بھی قائم کررکھی تھی۔
جمال خاشقجی اپنے مضامین اور ٹیلی ویژن ٹاک شو میں شہزادہ محمد بن سلمان کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے تھے جس کی وجہ سے شہزادہ صاحب سخت ناراض ہوگئے، اور کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ اختلاف ذاتی دشمنی میں تبدیل ہوگیا۔ جمال نے کچھ دن پہلے اپنے قریبی دوستوں کو بتایا کہ شہزادہ محمد بن سلمان ان کو قتل کرانا چاہتے ہیں اور اس سلسلے میں شہزادے نے اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد سے بھی رابطہ کیا ہے۔ دوسری طرف شہزادے کے قریبی حلقوں کا کہنا ہے کہ شہزادہ محمد بن سلمان جمال سے مفاہمت کرنا چاہتے تھے اور انھوں نے واشنگٹن میں اپنے سفارت خانے کے ذریعے جمال کو العربیہ ٹیلی ویژن کی سربراہی کی پیشکش بھی کی تھی۔کچھ عرصہ قبل انھوں نے بی بی سی کے ایک نمائندے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے ملک واپس جانا چاہتے ہیں لیکن انھیں ولی عہد کے وعدوں پر اعتماد نہیں۔
اس سال مئی میں انگریزی جرنلزم پر کانفرنس کے دوران جمال خاشقجی کی ایک 36 سالہ ترک خاتون خدیجہ چنگیزی سے ملاقات ہوئی جو جامعہ استنبول سے انگریزی میں پی ایچ ڈی کررہی ہیں۔ اس سے پہلے جمال اپنی سعودی بیوی کا طلاق دے چکے تھے۔ عمر میں 23 سال کے فرق کے باوجود خدیجہ کو ملائم لہجے میں بات کرنے والے جمال خاشقجی بہت پسند آئے اور جلد ہی یہ پسندیدگی محبت میں تبدیل ہوگئی۔ جیسا کہ ہم نے پہلے عرض کیا کہ خاشقجی ایک باعزت ترک خاندان ہے، اس لیے خدیجہ کے والدین کو بھی کوئی اعتراض نہ تھا۔ عمر کے فرق پر والدکو تحفظات تھے لیکن خدیجہ نے اپنے باپ کو منا لیا اور دونوں نے منگنی کرلی۔ شادی کے بعد جمال استنبول میں ہی رہناچاہتے تھے جہاں ان کا ایک پُرتعیش اپارٹمنٹ پہلے سے موجود ہے۔
ترکی کے قوانین کے تحت پہلے سے شادی شدہ فرد کے لیے دوسری شادی سے پہلے تصدیق شدہ طلاق نامہ داخل کرنا ضروری ہے۔ جمال کو بتایا گیا کہ تصدیق صرف ریاض میں وزارتِ انصاف سے ہی ممکن ہے، یعنی جمال کو اس کے لیے سعودی عرب جانے کی ہدایت کی گئی۔ خطرے کے پیش نظر خدیجہ نے جمال کو سعودی عرب نہ جانے دیا اور شادی ملتوی کردی گئی۔ 28 ستمبر کو پہلے سے ملاقات کا وقت لیے بغیر جمال خدیجہ کے ساتھ استنبول کے سعودی قونصل خانے چلے گئے اور تصدیق کے لیے کاغذات پیش کیے۔ خدیجہ کے مطابق قونصل خانے کے افسران کا رویہ بڑا ہی دوستانہ تھا اور دونوں کے ساتھ بہت اچھا سلوک کیا گیا۔ تاہم افسر نے بتایا کہ دستاویزات کی تصدیق فوری طور پر ممکن نہیں اور اس کے لیے انھیں وزارتِ خارجہ سے اجازت لینی ہوگی۔ چنانچہ یہ دونوں واپس آگئے۔ دوسرے دن جمال کو فون کرکے بتایا گیا کہ دستاویزات کی تصدیق استنبول کا قونصل خانہ کرسکتا ہے، اور انھیں اس سلسلے میں 2 اکتوبر کی تاریخ دی گئی۔
چنانچہ وہ مقررہ تاریخ کو خدیجہ اور اپنے ایک دوست کے ہمراہ قونصل خانہ پہنچے، اور جب ان کا نام پکارا گیا تو وہ ضابطے کے مطابق اپنا موبائل فون خدیجہ کے پاس رکھ کر اندر چلے گئے۔ خدیجہ اورجمال کے ترک دوست وہاں انتظار کرتے رہے لیکن دفتری وقت ختم ہونے تک جمال باہر نہیں آئے، حتیٰ کہ دفتر بند ہوگیا۔ اب خدیجہ نے پولیس کو فون کیا، لیکن پولیس بھی ضابطے کے تحت قونصل خانے کے اندر داخل نہیں ہوسکتی تھی۔ جب پولیس نے اعلیٰ سعودی حکام سے بات کی تو بتایا گیا کہ دستاویزات کی تصدیق کے بعد جمال قونصل خانے سے جاچکے ہیں۔ جبکہ خدیجہ کا کہنا ہے کہ جمال عمارت سے باہر نہیں آئے۔ ترک پولیس اور خفیہ ایجنسی کا مشاہدہ بھی یہی ہے کہ جمال قونصل خانے سے باہر نہیں نکلے۔ جمال کی گمشدگی پر ترک وزیرخارجہ نے ریاض سے رابطہ کیا تو سعودی وزارتِ خارجہ نے بھی اپنے قونصل خانے کے اس مؤقف کی تصدیق کی کہ جمال قونصل خانے سے باہر جاچکے ہیں۔ جمال خاشقجی محض معروف صحافی ہی نہیں بلکہ ایک ترک خاتون کے ہونے والے شوہر بھی ہیں اور ترک، دامادوں کو بیٹوں سے زیادہ چاہتے ہیں۔ چنانچہ جمال کی گمشدگی ترکوں کے لیے ایک حساس مسئلہ بن گیا۔ انقرہ میں سعودی سفیر کو وزارتِ خارجہ میں طلب کرکے حکومت کی شدید تشویش سے آگاہ کیا گیا اور صدر طیب ایردوان نے سعودی فرماں روا شاہ سلمان بن عبدالعزیز سے براہِ راست گفتگو کی۔
دودن بعد یہ خبر گشت کرنے لگی کہ جمال خاشقجی کو قونصل خانے میں قتل کرکے ان کی لاش ٹھکانے لگادی گئی ہے۔ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے ان خبروں کی سختی سے تردید کی۔ 8 اکتوبر کو ترک صحافی قونصل خانے مدعو کیے گئے اور انھیں عمارت کا تفصیلی دورہ کرایا گیا۔ اس دوران صحافیوں کو باتھ رومز سمیت ایک ایک کمرے، دفاتر اور اسٹور لے جایا گیا، حتیٰ کہ الماریوں، تجوری اور مقفل کمرہ یا Strong Room کا معائنہ بھی کروایاگیا۔ سعودی ولی عہد نے ترک فوج اور تحقیقی اداروں کو قونصل خانے آنے کی دعوت دی تاکہ وہ خود ایک ایک کمرے کا جائزہ لے کر اطمینان کرلیں۔
ترک خفیہ اداروں نے عمارت کا دورہ کرنے کے بعد کوئی سرکاری اعلان تو نہیں جاری کیا لیکن نام شائع نہ کرنے کی شرط پر ایک سینئر افسر نے بتایا کہ جو شواہد انھیں ملے ہیں اس کے مطابق قونصلر کے دفتر سے جمال کو گھسیٹ کر ایک دوسرے کمرے میں لے جایا گیا جہاں تشدد کے بعد وہ قتل کردیے گئے۔ وہاں سے ان کی میت ایک تیسر ے کمرے لے جائی گئی جہاں تکہ بوٹی کرکے باقیات کو ٹھکانے لگادیا گیا۔ جمال نے اپنی کلائی پر Apple گھڑی باندھی ہوئی تھی جس کا کیمرہ اور ٹیپ ریکارڈر آن تھا اور گھڑی یہ تمام کارروائی ان کے فون اور iCloud پر بھیج رہی تھی۔ ترکوں کا کہنا ہے کہ کیمرے سے حاصل ہونے والے آثار تو واضح نہیں کہ گھڑی آستین کے نیچے تھی، لیکن ٹیپ ریکارڈر پر چیخ و پکار اور مزاحمت کی آواز صاف سنائی دے رہی ہے۔ دوسری طرف Appleکمپنی کا کہنا ہے کہ ترکی میں ان گھڑیوں کو Websiteسے جوڑنے کی سہولت میسر نہیں، لہٰذا ترک حکام کا دعویٰ مشکوک ہے۔
ترک خفیہ اداروں کے علاوہ امریکی سی آئی اے اور دوسری خفیہ ایجنسیوں کی ابتدائی تحقیقات میں بھی شک ظاہر کیا جارہا ہے کہ جمال قونصل خانے میں قتل کردیے گئے ہیں۔ اس ضمن میں ایک مشکوک بات یہ نوٹ کی گئی کہ عمارت کے صدر دروازے پر موجود کیمرے کے سوا کسی اور کیمرے کا ریکارڈ محفوظ نہیں۔ عمارت میں درجنوں خفیہ کمیرے نصب تھے۔ قونصل خانے کے سیکورٹی حکام کا کہنا ہے کہ Dataکو طوالت سے بچانے کے لیے ہرروز شام کو تمام ڈیٹا حذف یاDeleteکردیا جاتا ہے اِلاّ یہ کہ اس دن کوئی مشکوک سرگرمی یا کسی قسم کا ناخوشگوار واقعہ پیش آیا ہو۔
جمال کو دوپہر میں قونصل خانے بلایا گیا تھا اور اس سے پہلے دفتر کے ترک ملازمین کو یہ کہہ کر چھٹی دے دی گئی کہ قونصل خانے میں اہم سفارتی اجلاس ہونا ہے جس کے لیے سعودی عرب سے 15 رکنی وفد آیا ہوا ہے۔ اس وفد کی آمد بھی پراسرار اور مشکوک نظر آرہی ہے۔ ریکارڈ کے مطابق جس روز جمال کو قونصل خانے آنا تھا اسی دن صبح 15 سعودی اہلکار دو خصوصی طیاروں میں استنبول ائرپورٹ پر اترتے ہی سیدھا قونصل خانے آئے، اور یہ سب لوگ اسی رات وطن واپس چلے گئے۔ ترک حکام کا کہنا ہے کہ یہ سب اہلکار سعودی خفیہ ایجنسی سے وابستہ ہیں اور شبہ کیا جارہا ہے کہ انھی لوگوں نے جمال کو قتل کیا ہے۔ ترک حکام نے ان پندرہ میں سے دوافراد کی نشاندہی کی ہے۔ ایک سعودی وزارتِ داخلہ کے شعبہ Forensic medicineکے سربراہ صلاح محمد الطبیقی اور دوسرے شاہی خفیہ پولیس کے سربراہ محمد سعد الظہرانی تھے جو ہروقت محمد بن سلمان کے ساتھ نظر آتے ہیں۔ امریکہ کے خفیہ اداروں کا بھی یہی خیال ہے کہ 15 افراد پر مشتمل طائفہ دراصل ڈیتھ اسکواڈ تھا جس نے یہ آپریشن سرانجام دیا۔
سعودی عرب کی تردید کے باوجود اس بات پر ساری دنیا کا اتفاق ہے کہ جمال خاشقجی 2 اکتوبر کو استنبول کے سعودی قونصل خانے سے غائب ہوئے ہیں۔ اب تک نہ تو جمال کے قتل کی کوئی حتمی رپورٹ شائع ہوئی ہے اور نہ ہی 12 دن گزرجانے کے باوجود ان کا کوئی سراغ ملا ہے۔ یہ واقعہ سعودی عرب کے لیے شرمندگی کا باعث بنا ہوا ہے۔ اگلے ہفتے ریاض میں Future Investment Initiativeکے عنوان سے ایک بہت بڑی سرمایہ کاری و مالیاتی کانفرنس ہورہی ہے جس کے انتظام پر سعودیوں نے کروڑوں ڈالر خرچ کیے ہیں۔ وسعت و تنوع کے اعتبار سے جنیوا کے عالمی اقتصادی فورم کے وزن پر اسے صحرائی ڈیووس (Davos)کا نام دیا جارہا ہے۔ جمال خاشقجی کی سعودی قونصل خانے سے گمشدگی کے خلاف بطور احتجاج دنیا کے تمام بڑے نشریاتی اداروں CNN، بلومبرگ، CNBC، فنانشل ٹائمز، نیویارک ٹائمز کے علاوہ ورلڈ بینک،UBERاور دوسرے بہت سے اداروں نے کانفرنس کے بائیکاٹ کا اعلان کیا ہے۔
اس واقعے نے صدر ٹرمپ کو بھی آزمائش میں ڈال دیا ہے۔ وہ کھل کر اس کی مذمت بھی نہی کرپارہے کہ محمد بن سلمان اُن کے اور دامادِ اوّل جیررڈ کشنر کے قریبی دوست ہیں اور سعودی عرب امریکہ سے 110 ارب ڈالر کا اسلحہ خرید رہا ہے۔ سینیٹ کی خارجہ کمیٹی کے سربراہ سینیٹر باب کورکر (Bob Corker) نے سعودی عرب کو جمال خاشقجی کی گمشدگی کا ذمے دار قراردیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر یہ بات ثابت ہوگئی تو وہ سعودی عرب پر معاشی پابندی کے لیے ایک قرارداد سینیٹ میں لائیں گے۔ اس سے پہلے دونوں جماعتوں کے 22 سینیٹرز نے صدر ٹرمپ کو خط لکھا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ وہ جمال کی برآمدگی کے لیے سعودی عرب پر دبائو ڈالیں اور ریاض کو اسلحہ کی فروخت روک دی جائے۔ صدر ٹرمپ کا کہنا ہے کہ اسلحہ پر پابندی سے امریکہ کا نقصان ہوگا اور سعودی عرب اسلحہ کے لیے روس اور چین کے پاس چلا جائے گا۔
جمال خاشقجی کے بارے میں ایک مسلم مخالف اور متعصب و قدامت پسند دانشور پیٹرک پول (Patrick Poole) دُور کی کوڑی لائے ہیں۔ اپنے ایک ٹوئٹ میں انھوں نے جمال کی شیخ عبداللہ عظام کے ساتھ ایک تصویر شائع کرکے انھیں دہشت گردوں کا ہمدرد ثابت کیا ہے۔ اسی ٹوئٹ کو فرزندِ اوّل ڈونلڈ ٹرمپ جونیر نے آج اپنے اکائونٹ سے جاری کرکے اس پر Jamal the Jehadistکی سرخی جمائی۔ تاہم امریکی میڈیا نے جمال خاشقجی کے خلاف اس نئی مہم پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اسے ان کی سوگوار و دل گرفتہ منگیتر کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف قرار دیا۔
امریکہ کے بعد اب فرانس، جرمنی، کینیڈا اور برطانیہ سے بھی سعودی عرب کے خلاف پابندیوں کی بازگشت سنائی دے رہی ہے، اور یہ تمام ممالک ترک خفیہ ایجنسی کی تحقیقاتی رپورٹ کا انتظار کررہے ہیں۔ امریکی ماہرین کا کہنا ہے کہ سعودی ڈیتھ اسکواڈ نے اس بار خاصہ مہین کاٹا ہے، اور ’’دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ‘‘ والا معاملہ ہے۔ جبکہ اسکاٹ لینڈ یارڈ کو یقین ہے کہ قاتل جتنا بھی ہوشیار و محتاط ہو، فطرت اُس سے کوئی نہ کوئی بھنڈ ضرور کروا دیتی ہے۔ دیکھنا ہے کہ تحقیقات کا کیا نتیجہ نکلتا ہے۔ اگر جمال خاشقجی واقعی اپنے قونصل خانے ہی میں قتل کیے گئے ہیں تو یہ غالباً انسانی تاریخ میں اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہوگا۔