علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے پی ایچ ڈی اسکالر منان بشیر وانی اپنے دو ساتھیوں سمیت مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کے ساتھ ایک خوں ریز جھڑپ میں شہید ہوگئے۔ ان کی نماز جنازہ میں ہزاروں افراد شریک ہوئے، اور وہ سب آزادی اور انقلاب کے ترانے گا رہے تھے۔ منان وانی کی شہادت نے جنوبی کشمیر میں جاری مزاحمت کو دوبارہ شمال کی طرف منتقل کیا۔ منان وانی اس سال جنوری میں حریت پسندوں کی صفوں میں شامل ہوئے تھے۔ ایک پی ایچ ڈی اسکالر کی یوں مسلح تحریک میں شمولیت نے جہاں بھارت کو اخلاقی طور پر ہلا کر رکھ دیا وہیں حریت پسندوں کو بھی اپنا زاویۂ نظر بدلنے پر مجبور کیا۔ منان وانی کی شہادت کے دوسرے روز متحدہ جہاد کونسل کی طرف سے کشمیری طلبہ کی مسلح تحریک میں شمولیت پر اس تلقین کے ساتھ پابندی کا اعلان کیا گیاکہ طلبہ اپنی پہلی توجہ تعلیم کی تکمیل پر دیں۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں زیر تعلیم مقبوضہ کشمیر کے طلبہ نے منان وانی کی غائبانہ نمازِ جنازہ ادا کرنے کی کوشش کی جسے یونیورسٹی انتظامیہ نے ملک مخالف سرگرمی قرار دے کر روک دیا، جس کے بعد دو طلبہ کو جامعہ سے فارغ کردیا گیا اور سات کو شوکاز نوٹس جاری کیے گئے۔ دو طلبہ کو بغاوت کے الزام میں پولیس کے حوالے کردیا گیا۔ کشمیری طلبہ پر نگرانی سخت کردی گئی اور انہیں حیلے بہانوں سے تنگ کیا جانے لگا، جس کے خلاف مقبوضہ کشمیر میں بھی احتجاج کیا جارہا ہے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں زیر تعلیم بارہ سو کشمیری طلبہ نے ایک اعلامیہ میں کہا ہے کہ اگر انہیں اسی طرح تنگ کرنے کا سلسلہ جاری رکھا گیا تو وہ یونیورسٹی کے بانی سرسید احمد خان کے یوم پیدائش کے موقع پراجتماعی طور پر اپنی ڈگریوں اور تعلیمی سرگرمیوں سے دست بردار ہوکر گھروں کو چلے جائیں گے۔
بھارت میں مسلمان اور کشمیری طلبہ کے ساتھ متعصبانہ سلوک نے منان وانی کو راستہ بدلنے پر مجبور کیا تھا، اور اس کا ذکر وہ اپنے مضامین اور بلاگز میں بار بار کرتے رہے۔ کشمیر میں ’’پوسٹر بوائے ‘‘ کہلانے والے برہان وانی کے بعد جو تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھیں اُن میں ایک نیا اضافہ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں پی ایچ ڈی اسکالر منان وانی کی تصویر تھی جس میں وہ قلم وقرطاس کے بجائے ایک مسلح نوجوان کی شکل میں دوسرے نوجوانوں سے معانقہ اور مصافحہ کررہے تھے۔ اس تصویر نے بھی برہان وانی کی تصاویر کی طرح کشمیر کے نوجوانوں کی توجہ اپنی جانب مبذول کرالی ہے۔ کنٹرول لائن سے تھوڑی سی دوری پر واقع شمالی کشمیر کی خوبصورت وادی لولاب سے تعلق رکھنے والا یہ اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان کشمیر میں تیزی سے فروغ پذیر اس رجحان کی عکاسی کررہا تھا جس کے تحت وادی کے مقامی اور اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان مسلح جدوجہد کی طرف مائل ہورہے ہیں۔
پچیس سالہ منان بشیر وانی چار سال سے بھارت کی تاریخی دانش گاہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھا اور چھٹیاں گزارنے گھر آیا تھا کہ اسی دوران نوجوان کی تصویریں سوشل میڈیا میں عام ہوئیں جن میں وہ ایک پی ایچ ڈی اسکالر کے بجائے ایک مسلح نوجوان کی شکل میں سامنے آگیا۔ منان وانی کا یہ رنگ وروپ اس کے گھر والوں کے لیے بھی اچنبھے کا باعث تھا۔ منان بشیر وانی کا پروفائل لوگوں کو مزید حیرت زدہ کرگیا جب یہ بات عام ہوئی کہ وہ علم دوست گھرانے کا فرد ہے، برہان وانی کی طرح اس کے والد بھی سرکاری کالج میں لیکچرار ہیں اور اس کا بھائی جونیئر انجینئر کے طور پر کام کررہا ہے۔ حیرت انگیز طور پر برہان وانی ہی کی طرح یہ نوجوان بھی بھارتی فوجیوں کی بدسلوکی کے باعث غصے اور ردعمل میں معمول کی زندگی تج کر بندوق تھامنے چل پڑا تھا۔ متعدد بار بھارتی فوجیوں نے اس کی وضع قطع کے باعث اسے طعن اور تضحیک کا نشانہ بنایا۔ روح کو گھائل اور اَنا کو مجروح کرنے والے سوالات اور تحقیر آمیز سلوک نے منان وانی کی ذہنی کایا پلٹ میں بنیادی کردار ادا کیا۔
بھارت نے کشمیر کی تحریکِ مزاحمت کے حوالے سے جو پروپیگنڈا کیا اُس کی بنیاد کئی مغالطے تھے۔ بھارت نے دنیا بھر میں کشمیر کی تحریک کو بدنام کرنے کے لیے اسے کراس بارڈر ٹیررازم کا نام دیا، گویاکہ وادی میں جاری تحریک سرحد پار سے ہونے والی دراندازی ہے۔ آزادکشمیر اور پاکستان کے مختلف علاقوں سے نوجوان کنٹرول لائن عبور کرکے کشمیر میں گڑبڑ پھیلاتے ہیں۔ اس طرح بھارت اس تحریک کو لشکرِ طیبہ اور جیشِ محمد کے غیر مقامی نوجوانوں کی تحریک قرار دیتا رہا۔ بھارت کا دوسرا مغالطہ یہ تھاکہ کشمیر میں جو مقامی عنصر مبینہ ’’دراندازوں‘‘کی حمایت کرتا ہے اس کی وجہ بے روزگاری ہے۔ بھارت سے کشمیر کے حالات کا مشاہدہ کرنے کے لیے آنے والے سول سوسائٹی اور این جی اوز کے وفود نے بے روزگاری کو ایک اہم مسئلہ بناکر پیش کرنے کی کوشش کی۔ اکثر نے اپنی رپورٹس میں لکھنا ضروری سمجھا کہ روزگار کا مسئلہ حل کرکے بھارت کشمیری نوجوان کو مطمئن کرسکتا ہے۔ لیکن برہان وانی جس مسلح تحریک کی علامت بن کر اُبھرا اُس نے یہ دونوں مغالطے ہوا میں تحلیل کردئیے۔ اس نوجوان کے بعد وادی کے مقامی نوجوان بڑی تعداد میں ایک مقامی تنظیم حزب المجاہدین کے بینر تلے جمع ہونا شروع ہوئے، اور یوں تحریک کا مقامی رنگ مزید گہرا ہوگیا اور یہ بات واضح ہوگئی کہ کشمیر میں جاری تحریک دراندازی نہیں بلکہ مقامی نوجوانوں کی مقبول جدوجہد ہے۔ اس نئی مزاحمت میں اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں کی شرکت نے یہ تاثر بھی دھو ڈالا کہ کشمیر کی تحریک بے روزگاری کا نتیجہ ہے۔ منان بشیر وانی کا دھوم دھڑلے کے ساتھ مسلح تحریک کا حصہ بننا اس بات کو ثابت کررہا تھا کہ کشمیر میں عارضہ کوئی اور ہے اور بھارت اس کا علاج اور تشخیص کچھ اور کررہا ہے۔ بھارت کے پاس اس مرض کا واحد علاج طاقت ہے، اور طاقت کی پالیسی مزید کارگر نہیں۔ یہ بات بھارت کے سابق وزیر داخلہ چدم برم نے انڈین ایکسپریس میں لکھے گئے ایک کالم میں بھی تسلیم کی تھی۔ گزشتہ دنوں تحریکِ آزادی میں شامل فٹ بال کے ایک کھلاڑی نے گھر والوں کی اپیل پر واپسی کی راہ اختیار کی تھی۔ بھارتی میڈیا نے اسے ایک نیا رجحان قرار دیا تھا، مگر اس ایک واقعے کے بعد یہ سلسلہ آگے نہ بڑھ سکا۔ چند ماہ قبل ایک مقامی فدائی نوجوان فردین کھانڈے نے بھارت کے ایک فوجی کیمپ پر حملہ کیا جس سے کشمیر میں مزاحمت کا داخلی رنگ مزید گہرا ہوگیا۔ رواں سال کے حوالے سے کشمیر کے مقامی انگریزی اخبار ’’رائزنگ کشمیر‘‘ کے ایڈیٹر شجاعت بخاری نے جو خود بھی رمضان المبارک میں ایک نامعلوم گولی کا شکار ہوکر شہید ہوئے، اپنے ایک مضمون میں یہ بات لکھی تھی کہ کشمیر میں بھارتی فوج جس تعداد میں حریت پسند نوجوانوںکو شہید کررہی ہے اس سے زیادہ تعداد میں مقامی نوجوان اس مزاحمت کا حصہ بن رہے ہیں۔ اس طرح مسئلہ حل ہونے کے بجائے مزید اُلجھتا چلا جا رہا ہے۔ یہ سب اس حقیقت کا عکاس ہے کہ کشمیر بے روزگاری، دراندازی، وقتی غصے اورکسی القاعدہ وغیرہ سے جڑا کوئی مسئلہ نہیں، بلکہ ایک سیاسی مسئلہ ہے جس نے کشمیر کی نسلوں کو اپنے حصار میں لے رکھا ہے۔ کشمیر میں ہر دور اور ہر دہائی میں اس نسل کے نام جدا اور جدوجہد کے انداز تو الگ ہوسکتے ہیں اور مختلف ادوار میں جاری رہنے والی مزاحمت میں رفتار اور شدت کی کمی بیشی کا فرق ہوسکتا ہے مگر کشمیری سماج کبھی مزاحمت اور جدوجہد سے خالی ہوا ہو، تاریخ میں اس کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ مسئلہ کشمیر کی گہری اور وسیع جہات اس بات کی متقاضی ہیںکہ پاکستان اور بھارت کھلے دل کے ساتھ مسئلہ کشمیر کے حل کا راستہ اختیار کریں۔کشمیر کا سلگتا ہوا مسئلہ برصغیر کے خرمنِ امن کو کسی بھی وقت بھسم کرسکتا ہے۔