فرائیڈے اسپیشل: ملک اس وقت معاشی بحران سے گزر رہا ہے، روپے کی قدر میں بھی نمایاں کمی ہوئی ہے۔ تجارتی توازن کسی بھی ملک کی معیشت کا اہم بیرومیٹر ہوتا ہے، آپ کی رائے میں اس وقت ملکی معیشت کا بحران کیوں ہے اور اس صورتِ حال سے باہر کیسے نکلا جاسکتا ہے؟ آپ حکومت کی معاشی پالیسیوں پر کیا تجزیہ کریں گے؟
راجا پرویز اشرف: روپے کی قدر ڈالر کے مقابلے میں مسلسل گرتی جا رہی ہے، پچھلے ایک سال کے دوران روپے کی قدر میں 26 فیصد سے زائد کمی واقع ہوچکی ہے جو باعثِ تشویش ہے۔ حکومت روپے کی قدر کو گرنے سے روکنے کے لیے ٹھوس اصلاحی اقدامات اٹھائے، کیونکہ اس سے کاروبار کی لاگت میں کئی گنا اضافہ ہوگیا ہے جس سے کاروباری سرگرمیاں متاثر ہورہی ہیں جبکہ عوام مہنگائی کے بوجھ تلے دبتے جا رہے ہیں۔ اکتوبر 2017ء میں ڈالر 105روپے کا تھا، جبکہ اکتوبر 2018ء میں 133روپے کا ہوگیا ہے۔ مقامی صنعتی شعبہ مختلف مصنوعات تیار کرنے کے لیے زیادہ تر خام مال باہر سے درآمد کرتا ہے جبکہ روپے کی قدر میں کمی سے صنعتی شعبے کے لیے درآمداتی خام مال مہنگا ہوتا جارہا ہے جس سے ہماری مصنوعات عالمی مارکیٹ میں مزید مہنگی ہوں گی اور برآمدات میں کمی واقع ہوگی۔ روپے کی قدر گرنے سے بجلی بھی بہت مہنگی ہوجائے گی، کیونکہ پاکستان زیادہ تر بجلی تیل سے پیدا کرتا ہے، اور اس کے نتیجے میں پیداواری لاگت میں بے تحاشا اضافہ ہوگا۔ روپے کی قدر میں مسلسل کمی سے پاکستان کے غیر ملکی قرضے میں بھی کئی گنا اضافہ ہورہا ہے، کیونکہ ڈالر کے مقابلے میں ایک روپیہ گرنے سے بیرونی قرضہ 60 ارب روپے بڑھ جا تا ہے۔ اس صورت حال سے نجی شعبے کے تمام بزنس پلان اور مستقبل کے اندازے بھی متاثر ہورہے ہیں، کیونکہ کاروباری برادری کو طویل المدت کاروباری منصوبے تشکیل دینے اور سرمایہ کاری کے لیے مستحکم کرنسی کی ضرورت ہوتی ہے۔ پاکستان کا تجارتی خسارہ 37ارب ڈالر سے تجاوز کر گیا ہے جبکہ خسارے کو کم کرنے کا سب سے بہتر طریقہ پیداواری لاگت کو کم کرنا اور برآمدات کو تیزی سے فروغ دینا ہے، لیکن روپے کی گرتی ہوئی قدر سے ان مقاصد کا حصول مشکل ہے۔ موجودہ صورتِ حال میں صنعتی شعبے کو یا تو اپنی صنعتوں کو بند کرنا ہوگا، یا اپنی مصنوعات کی قیمتوںکو بڑھانا ہوگا۔ تاہم اس سے ہماری مصنوعات مہنگی ہونے سے عوام کے لیے مہنگائی بڑھے گی اور برآمدات میں کمی ہوگی۔ معیشت کو مزید کمزور ہونے سے بچانے کے لیے ضروری ہے کہ حکومت فوری طور پر روپے کی قدر کو مستحکم کرنے اور معیشت کی بحالی کے لیے نجی شعبے کی مشاورت سے ایک جامع حکمت عملی وضع کرے، تاکہ معیشت کو مزید تباہی سے بچایا جا سکے۔
فرائیڈے اسپیشل: کیا حکومت کو اس صورتِ حال کا ادراک ہے؟
راجا پرویز اشرف: حکومت ملکی معیشت کی بحالی کے لیے کوشاں ہے اور جلد حالات بہتر ہوں گے، لیکن اس وقت معیشت کو مشکل حالات کا سامنا ہے۔ پاکستانی مقامی صنعت میں بہت صلاحیت موجود ہے، حکومت اور تاجر برادری کی مضبوط پارٹنرشپ سے ملک معاشی میدان میں آگے بڑھے گا۔ تاجر برادری اور صنعت کاروں کو ہر ممکن سہولت فراہم کرنا حکومت کی اوّلین ذمے داری ہے۔ عالمی بینک کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کی معاشی صورتِ حال دو سال تک نازک رہے گی۔ پاکستان چڑھتی اور گرتی معیشت کے حصار میں پھنسا ہوا ہے، پاکستان جنوبی ایشیاء کا واحد ملک ہے جس کے راستے محدود اور اخراجات بہت زیادہ ہیں، خراب معیشت کی وجہ کمزور معاشی ترقی اور غربت میں اضافہ ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ لوگوں کو غربت سے نکالنے اور روزگار کے مواقع پیدا کرنے میں دشواری ہو گی، پاکستان کو ترقی کے لیے خسارے کو پائیدار بنیادوں پر کم کرنے کی ضرورت ہے۔ عالمی بینک کی رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ پاکستان کو شرح نمو میں اضافے کے لیے سرمایہ کاری اور صنعتی پیداوار کو فروغ دینا ہوگا۔ حکومت کو یقین ہے کہ وزیراعظم کا دورۂ چین دونوں دوست ملکوں کے تاریخی تعلقات کو مزید مضبوط بنائے گا۔ وزیراعظم کا دورہ تجارت، توانائی، بنیادی ڈھانچہ، سماجی اور معاشی ترقی کے شعبوں میں تعاون کے فروغ کی نئی راہیں کھولے گا۔ دونوں ملکوں کی قیادت سی پیک کے تحت تمام منصوبوں کی بروقت تکمیل کے لیے پُرعزم ہے۔ سی پیک منصوبے سے نہ صرف دونوں ملکوں کے عوام بلکہ خطے کے عوام بھی مستفید ہوں گے۔
فرائیڈے اسپیشل: پاکستان اس خطے کا اہم ملک ہے اور ہمیں معیشت کے علاوہ دیگر حالات سے گزرنا پڑتا ہے، اور جنوبی ایشیاء میں طاقت کا عدم توازن بھی حالات کی خرابی کا باعث ہے۔
راجا پرویزاشرف: امریکہ اور بھارت میں معاہدے سے جنوبی ایشیاء میں طاقت کا توازن بگڑا ہے، بھارت کے تمام روایتی اور غیر روایتی ہتھیاروں کا ہدف پاکستان ہے۔ امریکہ اور بھارت کے درمیان حالیہ جوہری معاہدہ خطے میں اسلحہ کی دوڑ کا سبب بنا ہے، مسئلہ کشمیر پر باتوں کے بجائے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حقِ خود ارادیت دیا جائے۔ جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلائو کے لیے علاقائی سی ٹی بی ٹی کی ضرورت ہے، خطے کا استحکام پاک بھارت امن کے ساتھ ہی ممکن ہے۔ ہمیں نیوکلیئر سپلائر گروپ کے معاملے پر مؤثر سفارت کاری کی ضرورت ہے۔ آگے بڑھنا ہے تو امن کے حصول کے لیے ایک ساتھ مل کر مذاکرات کا راستہ اپنانا ہوگا۔ اسرائیل کے ایٹمی پروگرام کو نظرانداز کرنے کے بجائے یہ معاملہ سنجیدگی سے اٹھایا جائے۔
فرائیڈے اسپیشل: حکومت کہہ رہی ہے کہ تاجر اور صنعت کار آزادی سے کاروبار کریں، کسی کو ناجائز تنگ نہیں کریں گے۔ اس بات میں کہاں تک صداقت ہے؟
راجا پرویز اشرف: ہم تو شروع دن سے ہی کہہ رہے ہیں کہ گالم گلوچ سے ملکی معیشت ٹھیک نہیں ہوسکتی۔ ملک میں یکساں قانون ہونا چاہیے۔ ملکی معاشی صورتِ حال سے عوام خوف زدہ ہیں۔ ٹیکس بڑھ رہے ہیں، کاروبار ٹھپ ہوگیا ہے، ڈالر اوپر چلا گیا ہے۔ جس ملک میں انصاف الگ طرح کا ہوگا وہاں مسائل جنم لیں گے۔
فرائیڈے اسپیشل: ابھی حکومت نے پچاس لاکھ گھروں کی تعمیر کا اعلان کیا ہے اور حکمت عملی بھی دی ہے، اس کے اثرات کیا ہوسکتے ہیں؟
راجا پرویز اشرف: بلاشبہ ہر شخص کو گھر کی ضرورت ہے۔ حکومت گھر بنانے کے لیے قرض دے رہی ہے۔ کارکردگی دکھانے کے لیے حکومت نے خود 100روزہ پلان کا اعلان کیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ انصاف کے نظام کو مزید بہتر کرنے کی ضرورت ہے، ہمارے قوانین اور سسٹم میں ترامیم کی ضرورت ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: ملک کی اعلیٰ عدلیہ تو کام کررہی ہے اور وہ بنیادی حقوق کی حفاظت بھی کررہی ہے۔
راجا پرویز اشرف: اگرچہ آئینِ پاکستان میں عدالتِ عظمیٰ کو دفعہ 184 اور عدالت ہائے عالیہ کو دفعہ 199 کے تحت انسانی حقوق کے تناظر میں ازخود نوٹس لینے کے اختیارات دیئے گئے، مگر انصاف کے متعلقہ اداروں کی جانب سے ان اختیارات کا کم ہی استعمال کیا گیا۔ ان اختیارات کے ماتحت عدلیہ کی فعالیت سابق چیف جسٹس سید سجاد علی شاہ کے دور میں شروع ہوئی مگر وہ بالآخر خود ہی اس فعالیت کی زد میں آکر اپنے منصب سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ پھر جسٹس افتخار محمد چودھری نے چیف جسٹس کے منصب پر فائز ہونے کے بعد جوڈیشل ایکٹوازم کو بروئے کار لانے کا بیڑا اٹھایا جو جرنیلی آمر پرویزمشرف کو ناگوار گزرا تو انہوں نے جسٹس افتخار چودھری پر جرنیلی تازیانے برسانے کا اقدام اٹھالیا، جس کے ردعمل میں سول سوسائٹی کی تحریک نے جنم لیا تو ملک کی عدالتی تاریخ میں جرنیلی آمر کے ہاتھوں برطرف ہونے والی عدلیہ کی بحالی کا سنہرا باب رقم ہوگیا، اور پھر جوڈیشل ایکٹوازم بھی ایک باقاعدہ تاریخ بن گئی۔ سیاسی اور عدالتی نظام کی اصلاح کے اسی جذبے کے تحت عدلیہ پر سیاسی مقدمات کا بوجھ نہ پڑنے دیا جائے تو عوام الناس کے سالہا سال سے زیرالتوا مقدمات کا بوجھ بھی بتدریج کم ہوتا جائے گا۔ تاہم اس کے لیے حکومت کی مکمل معاونت کے بغیر کوئی راستہ نہیں نکل سکتا۔ عوام کو اپنے روٹی روزگار کے معاملے میں متعلقہ حکومتی، سرکاری فورموں پر انصاف ملتا رہے گا۔
فرائیڈے اسپیشل: حکومت کے پہلے سو دنوں میں سے نصف مکمل ہوچکے ہیں، اب تک کی حکومت کی کارکردگی کیسی ہے؟
راجا پرویز اشرف: وزیراعظم عمران خان اور وزیرخارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی کی الگ الگ گفتگو سامنے آئی جس کے مطابق دونوں رہنما جو برسراقتدار جماعت کے چیئرمین اور وائس چیئرمین بھی ہیں، عوام کے لیے درد محسوس کرتے ہیں، تاہم ان کے لیے کوئی سہولت فراہم کرنا مشکل اور سخت فیصلے کرنا مجبوری ہے۔ حکومت کو بھی علم ہے کہ مہنگائی کے باعث عوام پریشان ہیں، حالت یہ ہے کہ لوگ قربانی دینے کو تیار نہیں ہیں اور صورتِ حال یہ ہے کہ کوئی ہمیں قرض دینے کو تیار نہیں۔ اب منی بجٹ کے ذریعے درآمدی اشیاء پر ٹیکس لگائے گئے اور ڈالر کی قدر میں اضافہ اور روپے کی قدر کم ہوئی ہے تو اس سے جو شعبہ متاثر ہوتا ہے وہ درآمدی اشیاء کا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ قیمتیں بڑھتیں تو ان درآمدی اشیاء کی۔ لیکن یہاں تو مہنگائی کا ایک ریلا آگیا اور مزید سیلاب متوقع ہیں۔