سندھی تحریر: ڈاکٹر عزیز تالپور
ترجمہ: اسامہ تنولی
بدھ 10اکتوبر 2018ء کو معروف فکاہیہ و طنز نگار ڈاکٹر عزیز تالپور نے محولہ بالا عنوان سے کثیرالاشاعت سندھی روزنامہ ’’کاوش‘‘ حیدرآباد میں تحریر کردہ اپنے کالم میں صوبہ سندھ کے موجودہ سیاسی، سماجی اور معاشرتی حالات کی فرضی کرداروں کے ذریعے اپنے مخصوص انداز میں خوب عکاسی کی ہے۔ اس کالم کا ترجمہ معلومات اور دلچسپی کے لیے پیش خدمت ہے۔
’’پہلے روز رات کو نانیاں بچوں کو خطرناک اور خوف زدہ کردینے والی کہانیاں سنایا کرتی تھیں۔ ان میں کئی جن بھوت، دیو، عفریت، پریاں، شہزادے، شہزادیاں اور چڑیلیں یا جادوگرنیاں ہوا کرتی تھیں۔ ڈائنوں کو نانیاں ’’مم‘‘ (سندھی زبان میں) کہا کرتی تھیں۔ اب فیشنی دور ہے تو بچے اپنی ماں کو ’’مم‘‘ کہنے لگے ہیں۔ صبح کو چائے میں ’’پاپا‘‘ ڈبو کر کھاتے ہیں، اب باپ کو ’’پاپا‘‘ کہا جانے لگا ہے۔ پہلے ماسٹر کو استاد کہا جاتا تھا، اب جٹ، ڈرائیور، گویّے اور حجام کو ’’استاد‘‘ کہا جانے لگا ہے۔ جو شخص ٹھگی، فراڈ اور دھوکے بازی کرے اب تو اسے بھی ’’استاد‘‘ ہی کہا جاتا ہے۔ چند دن قبل عالمی ’’یوم اساتذہ‘‘ تھا تو مختلف تنظیموں نے ان کی شان میں بڑے بڑے اجلاس اور سیمینار منعقد کروائے، اور میں نے گوسڑو اساتذہ (ڈیوٹی سے غیر حاضر رہنے والے اساتذہ) کی شان میں ایک شاندار سیمینار کروایا۔ مجھے سندھ کے ہر ضلع سے پانچ سو سے زیادہ گوسڑو ماسٹر اور استانیاں مل گئیں۔ میں نے انہیں ان کی شاندار کارکردگی پر انعامات، ایوارڈ اور سرٹیفکیٹس دیے اور عقیدت بھرا سلام کا نذرانہ بھی پیش کیا۔ کیوں کہ انہوں نے اس سائنسی دور میں بھی تعلیمی اداروں میں اساتذہ کی حاضری کو یقینی بنانے والے محکمہ تعلیم سندھ کے رائج کردہ انگوٹھا ثبت کرنے والے بائیو میٹرک سسٹم کو ناکامی سے دوچار کر ڈالا تھا۔ ان میں بعض ایسی عظیم استانیاں بھی شامل تھیں جو اپنے شوہر اور بچوں کی خاطر، یا پھر شادی کے بعد سکھر، لاڑکانہ، حیدرآباد اور کراچی شفٹ ہوگئی تھیں، لیکن تنخواہ پھر بھی کنب، پیروسن، ڈوکری، راجو خانانی، اڈیرو لعل کے اسکولوں کی جعلی اور جھوٹی حاضری کی بنیاد پر لیا کرتی ہیں۔ ماسٹر مولا بخش ماروانی نے تو اپنی 35سالہ ڈیوٹی کے دوران ایک روز بھی اپنے اسکول کا منہ نہیں دیکھا تھا، اور محض ایک بااثر بھوتار کی کم داری (زمینوں کا کام کاج) ہی کرتا رہا ہے۔پہلے جب ہمارے ہاں بڑا خوف ناک سیلاب (2010ء میں) آیا تھا تب یہ کہا گیا تھا کہ متاثرہ افرادکو امداد بذریعہ چیک ملا کرے گی۔ لوگوں نے یہ شرط سن کر مختلف بینکوں میں اپنے اپنے کھاتے کھلوائے۔ میں نے بھی اپنی دو تین مرغیاں بیچ کر بینک میں کھاتہ کھلوا کر 400 روپے جمع کروا کر وہاں سے چیک بک ملنے کے بعد اسے طوطن کی ماں کے پاس جمع کروا دیا۔کل بینک منیجر نے آدمی بھیج کر مجھے اپنے ہاں بلوایا اور کہا کہ تمہارے کھاتے میں کسی نے 34 کروڑ روپے جمع کروائے ہیں۔ یہ جان کر میں مارے خوشی کے جس کرسی پر بیٹھا ہوا تھا، بے ہوش ہوکر اس سے نیچے زمین پر گر پڑا۔ پھر گارڈز نے میرے پیروں کے تلوئوں کو مَل کر مجھے ہوش میں لانے میں مدد دی۔ میں ہوش میں تو آگیا لیکن خوشی کے عالم میں میرے منہ سے بہنے والا جھاگ رکا ہی نہیں، گویا تیل کی تھیلی لیک ہوگئی ہو۔ کرسی پر بیٹھ نہیں پا رہا تھا۔ کسی نہ کسی طور اپنے گوٹھ پہنچا۔ پھر تو میں پیسے کے نشے میں گویا پھول گیا۔ میں نے اور طوطن کی والدہ نے باہم مشورہ کیا کہ ان 34 کروڑ روپوں سے کون سا کاروبار کیا جائے؟ میں نے تجاویز دیں کہ آج کل پرائیویٹ اسکولز اور پرائیوٹ اسپتالوں کا کاروبار بڑا منافع بخش ہے تو کیوں ناں ہم بھی یہ دھندہ شروع کردیں۔ دوسرے نمبر پر پلازہ بنانے اور پیٹرول پمپ کھولنے کی تجویز دی۔ تیسری تجویز یہ پیش کی کہ کوئی خوبصورت نعروں اور عظیم نظریے کی حامل سیاسی پارٹی قائم کی جائے، کیوں کہ آج کل سیاست بھی حد درجہ نفع بخش کاروبار کی صورت اختیار کرگئی ہے۔ کس طرح سے بھتے اور منتھلیاں ملتی ہیں، اس پر مستزاد نام اور اثر رسوخ بہ طور بونس ملا کرتے ہیں۔ طوطن کی والدہ محترمہ نے کہا کہ یہ سب جھنجھٹ میں ڈالنے والے دھندے ہیں اور تم انگوٹھا چھاپ شخص ہو۔ نہ ڈاکٹر، نہ ماسٹر اور نہ ہی بلڈر!! یہ سارے کاروبار تم سے ہونے کے نہیں ہیں۔ سیاست میں بھی خوب غیظ و غضب بھری اور جھوٹ پر مبنی تقریریں کرنا پڑتی ہیں اور یہ کام بھی تم سے ہوگا نہیں، اس لیے ذرا صبر سے کام لو اور اپنا آبائی کاروبار کرو، بھینسوں کا ایک بڑا باڑہ کھولو۔ یہ بات سن کر میرا منہ ٹول پلازہ کی طرح کھلے کا کھلا رہ گیا اور جواباً اس سے کہا کہ تم تو بالکل کوئی چَری (پاگل) ہو! 34 کروڑ روپے تو میں نے کبھی اپنے خواب میں بھی نہیں دیکھے تھے۔ ہم اب ملک کے 22 امیر خاندانوں میں شامل ہونے والے ہیں۔ پھر کیا تھا، ہم اس بات پر آپس ہی میں لڑنے جھگڑنے لگ گئے۔ بعد میں، میں نکل کھڑا ہوا مٹھن موالی کی اوطاق کی طرف۔ وہاں جو پہنچا تو دیگر سارے دوست بھی آن وارد ہوئے۔ ڈاڑھوں ڈکھایل، نورل نمانو، لال سائیں، کجھوکھنبڑائی، ہاشو ہڑباٹی، پپوپاسراٹی، سوٹ صدورو، ماسات ماکوڑو وغیرہ وغیرہ۔ ان سب یار دوستوں نے اپنے اپنے ذہن اور سوچ کے مطابق کئی کاروبار کرنے کے مشورے دے ڈالے۔ تاہم لال سائیں ان سب میں زیادہ دانا وبینا تھا۔ اس نے بتایا کہ اپنے کالے دھن کو چھپانے کے لیے کسی گروپ نے مختلف اکائونٹس میں پیسے بھیجے ہیں، اور اگر تم خود کو اپنے کسی ایسے ہی بینک کھاتے کا مالک کہلوائو گے تو نیب، اینٹی کرپشن، سی آئی اے، ایف بی آر اور دیگر اداروں کی تم پر ایک ایسی یلغار شروع ہوجائے گی کہ تمہاری بقیہ ساری زندگی جیل ہی میں گزر جائے گی۔ مجھے لال سائیں کی یہ بات دل کو لگی اور تب میں نے سوچا کہ یہ 34 کروڑ روپے جائیں بھاڑ میں، ان میں سے ایک کروڑ روپیہ ہی نکلوا کر زندگی کی تشنہ آرزوئوں کی تکمیل کروں تو کافی ہوگا۔ میں نے جاکر طوطن کی والدہ سے چیک بک مانگی۔ چار گھنٹوں کی عظیم جدوجہد کے بعدکہیں جاکر چیک بک مل سکی۔ لیکن اس چیک بک کی حالت چوہوں نے ویسی کر رکھی تھی جس طرح سے سندھ کے بھوتاروں نے سندھ کا حال کررکھا ہے۔ خیر میں یہ چیک بک لے کر بینک گیا اور وہاں موجود منیجر صاحب کو نئی چیک بک دینے کی درخواست دی۔ منیجر صاحب نے بھی مجھے لال سائیں والا مشورہ ہی دیا اور کہنے لگا کہ یہ پیسے جو تمہارے بینک اکائونٹ میں آئے ہیں حرام کے ہیں اور اگر تم انہیں نکلوائو گے تو یہ بات تمہارے گلے پڑ جائے گی، اس لیے تحمل سے کام لو اور مجھے یہ درخواست لکھ دو کہ ان پیسوں سے تمہارا کوئی بھی واسطہ اور تعلق نہیں ہے۔ میں سوچ میں پڑ گیا اور جواباً یہ کہا کہ میں درخواست تو لکھ دیتا ہوں لیکن مجھے پانچ دس ہزار روپے آپ دے دیں تاکہ کسی بڑے ہوٹل میں جاکر کھانا کھانے کی خواہش پور ی کرسکوں اور اپنے گھر کے دروازے پر کھڑے قرض دینے والوں سے نجات پا سکوں۔ منیجر نے مجھ سے درخواست لکھوائی اور پھر اپنی جیب سے 50 روپے نکال کر مجھے یہ کہتے ہوئے تھما دیے کہ میں ان سے برگر لے کر کھائوں اور یہاں سے گولی ہوجائوں!! میں نے ایک ٹھیلے والے سے برگر خرید کر اپنی بھوک مٹائی۔
جس اخبار میں ٹھیلے والے نے مجھے برگر ڈال کر دیا تھا، اس میں ایک ادارے نیوٹریشن سپورٹ پروگرام کا اشتہار چھپا ہوا تھا جس پر اوپر بڑے الفاظ میں لکھا تھا ’’بچوں کی بنیاد کو مضبوط کرنے کے لیے مائیں انہیں 24 ماہ اپنا دودھ پلائیں‘‘۔ اس کے نیچے پھر چھوٹے الفاظ میں لکھا ہوا تھا کہ ’’مہمند اور بھاشا ڈیم کے لیے فنڈ دیجیے‘‘۔ میں نے ادارے کو فون کرکے کہا: ادا! آپ ایک ہی اشتہار میں بچوں کو دودھ پلانے کی بات کرنے کے ساتھ ساتھ ڈیم کے لیے فنڈ کی اپیل کیوں کررہے ہیں؟ جواب ملا کہ آپ دونوں باتوں میں سے کسی ایک بات پر ہی عمل کرلیں۔ میں نے کہا: ٹھیک ہے!! میں بچوں کو دودھ پلانے والے سنہری مشورے کی تشہیر کرتا ہوں۔ اخبار کے ٹکڑے کے پیچھے یہ خبر بھی چھپی ہوئی تھی کہ میرے غم زدہ متاثرہ دیس تھر میں حالیہ برس بھوک کی بیماری کے سبب پانچ سو سے زیادہ بچے مر چکے ہیں۔ بچوں کو موت سے بچانے کے لیے مائوں کی جانب سے انہیں دودھ پلانے کی مہم چلانے کی غرض سے میں تھر چلا گیا۔ وہاں پہنچ کر تھر کی مائوں کو اکٹھا کرنے کے بعد میں نے انہیں سمجھایا کہ بچوں کو بیمار ہونے اور مرنے سے بچانے کے لیے انہیں ہر حال میں 24 مہینوں تک دودھ پلانا بے حد ضروری ہے۔ میری تقریر سننے کے بعد مسکین تھری ماں نے عالم بے بسی و لاچاری میں ڈاٹکی (مقامی تھری زبان) میں کہا ’’بھائیا! تُون وات کرین تھوباڑیاں ناں ڈودھ پیارن ری! اتھ تھڑ میں ڈکاری ری کری اسیں بُھک تھامراں! چھاتیاں ماں ڈودھ ئی سُکی گئی آھی۔ باڑیا مرسیں ناں تو بیجو کے کرسیں؟‘‘ (مفہوم: بھائی! تم بات کرتے ہو بچوں کو دودھ پلانے کی، اور ہمارے ہاں تھر میں قحط سالی کی وجہ سے ہم بھوکوں مر رہے ہیں اور مائوں کی چھاتیوں میں ان کا دودھ خشک ہوگیا ہے۔ ایسے میں بچے مریں گے نہیں تو کیا ہوگا؟) یہ درد بھرا جواب سن کر خودبخود میری آنکھوں سے اشکوں کی برسات شروع ہوگئی۔ وہاں پر میرے اور تھری مائوں کے آنسو پونچھنے والا کوئی بھی نہیں تھا!!‘‘