سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے اساتذہ کو ہتھکڑیاں لگاکر عدالتوں میں پیش کرنے پر سخت برہمی کا اظہار کیا ہے، اور نیب کے چیئرمین کی اس معاملے میں اس قدر سرزنش کی ہے کہ وہ عدالت میں رو پڑے۔ نیب کی طرف سے یہ عذر بھی پیش ہوا کہ نیب کے زیر حراست ملزمان کو عدالتوں میں پیش کرنا نیب کا نہیں، پولیس کا کام ہے، اس لیے سرگودھا یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر اکرم چودھری اور پنجاب یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر کو ہتھکڑیوں سمیت نیب نے نہیں پولیس نے پیش کیا۔ یہ سوال کہ یہ ذمے داری نیب کی ہے یا پولیس کی، اپنی جگہ موجود ہے۔ لیکن اس سوال کا کیا جواب ہے کہ اسی نیب اور پولیس نے شہبازشریف اور اس سے پہلے نوازشریف کو تو ہتھکڑی لگا کر عدالتوں میں پیش نہیں کیا۔ اساتذہ کو اس طرح کیوں پیش کیا گیا؟ جب کہ نوازشریف تو اپنے مقدمے میں باقاعدہ سزا یافتہ تھے، جب کہ ان اساتذہ پر جرم ابھی ثابت ہونا ہے۔ اس معاملے پر اگرچہ چیف جسٹس نے تو نوٹس لے لیا لیکن حکومت نے تاحال اس پر کسی تاسف یا شرمندگی کا اظہار نہیں کیا، بلکہ حکومتی حامیوں نے سوشل میڈیا پر اب تک یہ طوفان مچایا ہوا ہے کہ چور تو چور ہی ہوتا ہے، اس کے ساتھ رعایت نہیں ہوسکتی، قانون کی نظر میں سب برابر ہیں، اساتذہ نے خود اپنا مقام گرایا ہے۔ اس قسم کی بے رحم پوسٹوں سے اساتذہ کی مزید مٹی پلید ہورہی ہے، حالانکہ ابھی تو ان پر لگا ہوا جرم ثابت نہیں ہوا۔ دوسرے، دنیا بھر میں اگر کسی استاد پر کوئی جرم ثابت بھی ہوجائے تو اس کے ساتھ دوسرے سزا یافتہ افراد سے مختلف سلوک کیا جاتا ہے تاکہ ایک فرد کی وجہ سے کوئی باعزت پیشہ تضحیک کا شکار نہ ہو۔
اساتذہ کو ہتھکڑیاں لگانے کے عمل کو عدالتِ عظمیٰ کے علاوہ دیگر طبقات نے بھی سخت ناپسند کیا ہے اور اس پر سخت ردعمل کا اظہار بھی کیا ہے۔ متعدد کالم نگاروں نے اس عمل کو ناپسندیدہ اور نقصان دہ قرار دیا ہے، بلکہ سوشل میڈیا اور نجی و سیاسی محفلوں میں بھی اس پر تنقید کی ہے۔ اور دلیل یہی ہے کہ جرم ثابت ہونے پر بھی سزا دی جا سکتی ہے، تذلیل نہیں کی جا سکتی۔ انصاف کا عمل مکمل ہونے سے قبل افراد اور معزز طبقات کی تضحیک و توہین خاص مقصد کے لیے کی جارہی ہے۔ یہ کام یقیناً نیب اور پولیس کے ذریعے لیا جارہا ہے جس کے خاص مقاصد ہیں، اور حکومت کی آشیرباد کے بغیر ایسا ممکن نظر نہیں آتا۔ ان حلقوں کا کہنا ہے کہ نئی حکومت خاص مقاصد کے تحت خوف کا ماحول پیدا کررہی ہے، جس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ حکومت کو کوئی زیادہ سازگار ماحول حکمرانی کے لیے نہیں ملا۔ معیشت دگرگوں، قرضوں کا بوجھ ناقابلِ برداشت، مشکلات بہت زیادہ اور عوام کی توقعات اس سے بھی زیادہ ہیں۔ اور ان مشکلات سے نبردآزما ہونے اور عوامی توقعات پر پورا اترنے کے لیے حکمران جماعت کے پاس نہ تو ٹیم ہے اور نہ ہوم ورک۔ سادگی اور کفایت شعاری کے غبارے سے ابتدا ہی میں ہوا نکل چکی۔ چھوٹی کابینہ چند دن میں خاصی بڑی ہوچکی۔ وزرا کا تقرر دعووں کے برعکس ہوا۔ قومی اسمبلی، سینیٹ اور صوبائی اسمبلیوں میں مضبوط اپوزیشن سامنے آکھڑی ہوئی ہے۔ ضمنی انتخابات کے یہی نتائج حکمرانوں کو نظر آرہے تھے۔ آئی ایم ایف میں جانے کے فیصلے نے حکمرانوں کو خاصی سیاسی زک پہنچائی۔ ایسے میں جب حکومت کے اپنے دعوے کے مطابق خزانہ خالی اور قرضوں کا بوجھ پریشان کن تھا، حکومت کو دو چیزوں کی فوری ضرورت تھی۔ ایک خزانے میں رقم، اور دوسرے اپنی سیاسی ساکھ کو بچانا۔ چنانچہ ان دو مقاصد کے لیے سب سے پہلے حکومتی رٹ بحال کرنے کی ٹھانی گئی۔ چنانچہ پولیس، نیب، ایف آئی اے اور اسی طرح کے اداروں کو استعمال کیا گیا۔ حکومت کا خیال تھا کہ نیب اور ایف آئی اے کی زد میں اس کے سیاسی مخالفین آئیں گے تو خوف کی اس فضا میں حکومتی رٹ بحال ہوگی اور یہ سیاسی مخالفین اور دیگر لوگ خوف کے باعث نہ صرف کچھ نہ کچھ دینے پر تیار ہوجائیں گے بلکہ سرکاری افسران اور بااثر افراد مزید گڑبڑ سے ہاتھ کھینچ لیں۔
اس طرح ایک طرف کرپشن کا حجم کم ہوگا، جب کہ دوسری جانب قومی خزانے میں کچھ رقم آجائے گی۔ اس فلسفہ کے تحت تجاوزات کے خلاف کارروائی شروع کی گئی۔ یہ کارروائی صرف پنجاب میں اس سوچ کے ساتھ کی گئی کہ تاجر طبقہ جو مسلم لیگ (ن) کا بڑا ووٹ بینک ہے اُسے اس کی سیاسی وفاداری کی سزا بھی مل جائے گی اور یہ طبقہ اپنے مفادات کے تحت تنگ ہوکر ہماری طرف آجائے گا۔ شاید عملاً ایسا ہی ہو، لیکن فوری طور پر یہ طبقہ تنگ ہوکر میدان میں آگیا۔ حالیہ ضمنی انتخابات میں حکمران جماعت کی پنجاب میں شکست میں یہ فیکٹر سب سے اہم ثابت ہوا۔ سب جانتے ہیں کہ حکومت نے چھوٹے دکانداروں اور غریب اور عام شہریوں کے مکانات اور دکانیں تو گرادیں لیکن عملاً کسی بڑے قبضہ گروپ کے خلاف کارروائی نہیں کی۔ مثلاً ریلوے کے اپنے وزیر کے مطابق ریلوے کی ہزاروں ایکڑ اراضی پر ناجائز قبضے ہیں، ریلوے کی رہائشی کالونیاں اور دیگر عمارات بھی مختلف افراد اور گروہوں کے زیر قبضہ ہیں۔ لاہور میں ریلوے اراضی پر قائم ایک فائیو اسٹار ہوٹل تاحال ادائیگی کیے بغیر کام کررہا ہے، بعض ریلوے اسٹیشنوں، پلیٹ فارموں اور دیگر ریلوے تعمیرات پر لوگ قابض ہیں۔ یہ زمین ہزاروں ایکڑ پر محیط اور اس کی مالیت اربوں روپے سے زائد ہے، لیکن اس زمین کو واگزار نہیں کرایا گیا، البتہ چھوٹے دکانداروں اور چند مرلے کے مکانات کے مالکوں کی چھت چھین کر بددعائیں لی گئیں۔ ٹریفک چالانوں اور ہیلمٹ کی سخت پابندی اور خلاف ورزی کرنے والوں کو فوری جرمانے بھی اسی سوچ اور فکر کے ساتھ کیے گئے۔ گویا تجاوزات کے خلاف حکومتی آپریشن، چھوٹی چھوٹی سرکاری اراضی کی واگزاری، ٹریفک چالان، ہیلمٹ کے عدم استعمال پر فوری جرمانے اور اساتذہ کو ہتھکڑیاں اور سیاسی مخالفین کی نیب اور ایف آئی اے میں طلبیاں اور گرفتاریاں اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں کہ سیاسی اشرافیہ کا اثر زائل کردیا جائے۔ اساتذہ جیسیاہم لیکن بے آواز طبقات کی توہین کے ذریعے یہ پیغام دیا جائے کہ کسی پر بھی ہاتھ ڈالا جاسکتا ہے اور ادارے جس پر ہاتھ ڈالنا چاہیں گے ڈال لیں گے، کوئی اُن کی راہ میں رکاوٹ نہیں بن سکتا۔ اس پیغام اور اس کے عملی اظہار سے چھوٹے موٹے کرپٹ لوگ خوفزدہ ہوکر کم از کم فوری طور پر کرپشن سے ہاتھ کھینچ لیں گے جس سے معاشرے میں ایک اچھا پیغام جائے گا۔ حکمران جماعت کے ایک دعوے یا وعدے کی کوئی عملی شکل نظر آنے لگے گی، اور سب سے بڑھ کر ان زیر حراست افراد کے ذریعے قومی خزانے میں کچھ رقم آجائے گی جبکہ باقی زیر غور افراد اپنی ذلت کے خوف اور ناگہانی مشکلات سے بچنے کے لیے ازخود سمجھوتوں پر آجائیں گے۔ اس سوچ کو لاگو کرنے کے لیے سب سے پہلے ان اداروں کو چھوٹ دی گئی۔ نیب نے نہ صرف میڈیا کو استعمال کرتے ہوئے ہر روز ایسے افراد کی فہرستیں جاری کرنا شروع کیں جو نیب کے مطابق کرپشن کے الزامات کی زد میں تھے۔ اس طرح اِن کی ابتدائی ذلت کے باعث لوگوں کی اُن سے ہمدردی ختم اور ان کے خلاف ہر کارروائی کے لیے زمین ہموار کی گئی۔ حالانکہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ نیب خفیہ طور پر معلومات اکٹھی کرتا، اپنے طور پر تفتیش کرتا اور پھر کیس تیار کرکے ملزمان کو گرفتار کرتا یا کوئی دوسری کارروائی کرتا۔ لیکن نیب نے کارروائی سے زیادہ تشہیر کا سہارا لیا۔ اس مقصد کے لیے نیب کے چیئرمین جو پہلے ہی سرگرم تھے زیادہ متحرک ہوگئے۔ ان کی تقاریر اور خطابات میں اضافہ ہوگیا، اور ان تقاریر اور خطابات کو میڈیا میں جگہ بھی ملنے لگی۔ یہ تقاریر اپنے مواد کے باعث خود بھی میڈیا میں جگہ پاتی رہیں، جبکہ اس کے لیے نیب نے یقینی طور پر میڈیا ہینڈلنگ کے بعض مؤثر اقدامات بھی کیے ہوں گے۔ نئی حکومت بننے سے قبل بھی چیئرمین نیب خاصے متحرک تھے، بلکہ نئی حکومت بننے کے فوری بعد انہوں نے نئے وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کی، جس پر اپوزیشن نے خاصی تنقید کی۔ اس ملاقات میں وزیراعظم نے نیب کو فری ہینڈ دینے اور اس کے کام میں مداخلت نہ کرنے کا عندیہ دیا، جس کے بعد چیئرمین نیب مزید تیز ہوگئے، جس پر اپوزیشن کی تنقید بھی بڑھ گئی۔ اس دوران عدالتوں خصوصاً سپریم کورٹ میں ایسے مقدمات آئے جن میں سیاسی مداخلت کا الزام تھا۔ ان میں عام تاثر یہ تھا کہ سیاسی مداخلت کے ذریعے پولیس افسران سے غلط کام کرانے کی کوشش کی گئی اور اُن کے فرائض کی ادائیگی میں حکومت یا حکمرانوں نے رکاوٹ ڈالی۔
عدالتوں نے اس کا سخت نوٹس لیا، خصوصاً پاکپتن ڈی پی او کیس۔ آئی جی پنجاب کی اس کیس میں رپورٹ۔ اور لاہور میں منشا بم کیس میں عدالت نے پولیس افسران کو حکم دیا کہ وہ کسی کا غیر قانونی حکم نہ مانیں۔ وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کا بھی نہیں۔ اس سے نہ صرف پولیس کا مورال بلند ہوا بلکہ انہیں حوصلہ بھی ہوگیا۔ حکمران جماعت نے اسے بھی اپنے حق میں استعمال کرلیا تاکہ نیب اور پولیس کی اس طاقت کو سیاسی مخالفین، تاجروں، نیب زدہ افراد کے خلاف استعمال کرکے قومی خزانے میں کچھ رقم بھی حاصل کرلی جائے اور حکومت کی رٹ بھی اس طاقت کے ذریعے مؤثر کرلی گئی۔ سردست حکومت اسے کامیابی سمجھ رہی ہے لیکن نیب اور پولیس کی طاقت آخرکار حکومت کے لیے دردِ سر بن جائے گی۔ یہ طاقت عوام کے خلاف استعمال ہوگی اور عوام کی نظریں اور امیدیں حکمرانوں سے ہی ہوں گی۔