ضمنی انتخابات کے نتائج اور تحریک انصاف کو دھچکا

پاکستان میں ضمنی انتخابات کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو عمومی طور پر ان انتخابات کے نتائج سے حکومتوں کی سیاسی ساکھ اور مقبولیت کا تجزیہ کیا جاسکتا ہے۔ 2018ء کے عام انتخابات کے نتیجے میں تحریک انصاف نے مرکز اور پنجاب میں جو حکومت بنائی تھی اس میں اسے کوئی بڑی برتری حاصل نہ تھی۔ مرکز میں دیگر اتحادی جماعتوں اور پنجاب میں آزاد امیدواروں کی تحریک انصاف میں شمولیت کے بعد حکومت سازی کا عمل مکمل ہوا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ 11 قومی اور 25 صوبائی نشستوں پر ضمنی انتخابات کی اہمیت بڑھ گئی تھی۔ ضمنی انتخابات سے قبل ایک تجزیہ یہ پیش کیا جارہا تھا کہ تحریک انصاف کی حکومت ابتدا ہی میں غیر مقبولیت کا شکار ہوگئی ہے، اس کا اثر نتائج پر ضرور پڑے گا۔
ماضی میں ضمنی انتخابات میں زیادہ تر نشستوں پر حکومتی جماعت ہی کو برتری حاصل ہوتی رہی ہے۔ مرکز و صوبے کے انتخابات میں جو جماعت اقتدار کا حصہ ہوتی ہے اسی کو زیادہ نشستیں ملتی ہیں۔ اس کی دو وجوہات ہوتی ہیں۔ (1) حکومت، حکومتی مشینری اور انتظامی طاقت کا استعمال، (2) ووٹرز کی حزب اختلاف کے مقابلے میں حکومتی جماعت کی حمایت۔ کیونکہ عام ووٹر سمجھتا ہے کہ حکومتی جماعت کا امیدوار ہی اس کے مسائل کو حل کرسکتا ہے، اور اگر حزب اختلاف کے امیدوار کو ووٹ دیا تو وہ حکومت میں نہ ہونے کی وجہ سے اس کے مسائل بہتر طور پر حل نہیں کرسکے گا۔ اس لیے ووٹر کا مجموعی مزاج طاقت کی سیاست کے ساتھ ہوتا ہے۔
حالیہ ضمنی انتخابات کے نتائج کا تجزیہ کیا جائے تو اس میں چند پہلوئوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ عمومی طور پر مرکزی اور صوبائی حکومتیں انتخابی نتائج کو اپنے حق میں کرنے کے لیے جائز و ناجائز حربے اختیار کرتی ہیں۔ لیکن حالیہ ضمنی انتخابات میں ایک مثبت پہلو یہ دیکھنے کو ملا کہ اس میں مرکزی اور صوبائی حکومتوں کی مداخلت نہ ہونے کے برابر تھی۔کہیں بھی ایسی شکایت سننے کو نہیں ملی کہ مرکزی یا صوبائی حکومت نے انتظامی مداخلت کی۔ یہی وجہ ہے کہ ان ضمنی انتخابات پر بڑے اعتراضات عدم شفافیت کے تناظر میں سننے کو نہیں ملے۔ ماضی میں ضمنی انتخابات میں حکومتی مداخلت کے پہلو خاصے مضبوط ہوتے تھے۔ اِس بار الیکشن کمیشن کے انتظامات اور صوبائی حکومتوں کی مداخلت کے حوالے سے نگرانی کا نظام بھی بہت حد تک شفاف تھا، جس کی ہر سطح پر تعریف کی جانی چاہیے۔ تحریک انصاف کے کئی امیدواروں نے گلہ کیا کہ حکومت میں ہونے کے باوجود جہاں ہمیں انتظامی مدد نہیں ملی وہیں بہت سی جگہوں پر پرانی بیوروکریسی کا جھکائو بھی نون لیگ کی جانب تھا، اور اس کی شکایت وزیراعظم کو بھی کی گئی، مگر وزیراعظم عدم مداخلت کے اصول پر قائم رہے۔
اگرچہ ان ضمنی انتخابات میں حکمران جماعت کو نشستوں کی تعداد میں اپنے سیاسی مخالفین پر سبقت حاصل رہی ہے، مگر کچھ نشستیں ایسی تھیں جن پر عام انتخابات میں اس نے کامیابی حاصل کی تھی، لیکن وہاں وہ اپنی برتری قائم نہیں رکھ سکی۔ اصل سیاسی معرکہ پنجاب میں تھا جہاں تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ن) میں پانی پت کی جنگ تھی۔ 2018ء کے عام انتخابات میں بھی دونوں جماعتوں میں پنجاب کی سطح پر سخت مقابلہ رہا۔ اِس بار بھی یہی منظرنامہ رہا، لیکن لاہور اور اٹک کی تحریک انصاف کی دو اہم نشستیں مسلم لیگ (ن) نے جیت لیں۔ اسی طرح فیصل آباد این اے 103کی نشست پر بھی سخت مقابلے کے بعد مسلم لیگ(ن) کو کامیابی ملی۔ اسی طرح این اے 60 میں شیخ رشید کے بھتیجے کو بھی سخت مقابلے کے بعد کامیابی ملی۔ مسلم لیگ (ن) نے تحریک انصاف کی کچھ نشستوں پر کامیابی حاصل کرکے تحریک انصاف پر اپنی سیاسی برتری قائم کی ہے۔ بالخصوص خواجہ سعد رفیق کی جیت سے مسلم لیگ (ن) کو تحریک انصاف پر سبقت حاصل ہوئی ہے اور نون لیگ اسے ایک بڑی کامیابی کے طور پر پیش کررہی ہے، اس کے بقول 2018ء کے عام انتخابات میں بھی خواجہ سعد رفیق جیتے تھے، مگر نتائج تبدیل کرکے ان کو ہرادیا گیا تھا، اور اب خواجہ سعد رفیق کی جیت نے ان کی سابقہ جیت کے تاثر کو اور زیادہ مضبوط کردیا ہے۔ حالانکہ عام انتخابات میں خواجہ سعد رفیق کا مقابلہ عمران خان سے تھا اور اب ان کے مقابل تحریک انصاف میں دو ماہ قبل آنے والے ہمایوں اختر تھے جن کو پارٹی کا ٹکٹ تو مل گیا لیکن پارٹی نے ان کے ساتھ اس انداز میں کام نہیں کیا جس انداز سے کیا جانا چاہیے تھا۔
تحریک انصاف کی، بعض نشستوں پر شکست کی وجہ کئی عوامل تھے۔ ان میں پارٹی میں ٹکٹوں کی تقسیم، داخلی جھگڑے اور تقسیم، حکومت کی کارکردگی کے تناظر میں بڑھتی ہوئی تنقید اور حکومتی پالیسیوں میں کئی طرح کے تضادات شامل ہیں، جس سے اس کے سیاسی مخالفین نے نہ صرف فائدہ اٹھایا بلکہ ضمنی انتخابات میں کئی نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔ تحریک انصاف نے عوام میں اپنی حکومت کے حوالے سے جو حد سے زیادہ توقعات بندھائی ہیں اس کا بھی ایک بڑا دبائو ہمیں عوامی اورمیڈیا کے محاذ پر نظر آتا تھا۔ یقینی طور پر ان ضمنی انتخابات کے نتائج نے مشکل میں گھری مسلم لیگ (ن) کو خاصا سہارا دیا ہے اور وہ کہہ سکتی ہے کہ اس نے اپنی مقبولیت کو سیاسی طور پر منوایا ہے۔ ساہیوال میں پی ٹی آئی کے صمصام بخاری کی جیت کی وجہ بھی جہاں رائے حسن نواز کا تعلق بنا، وہیں صمصام بخاری کے بزرگوں کے مریدین بھی بنے۔اسی طرح عوامی تحریک، سنی تحریک، جماعت اہل سنت، تحریک لبیک سمیت اہلِ تشیع کے ووٹ نے بھی ان کی جیت میں بڑا کردار ادا کیا۔
لاہور کا انتخابی معرکہ مسلم لیگ (ن) نے ہی بدستور جیتا۔ تحریک انصاف تمام تر کوششوں کے باوجود لاہور میں اپنی سیاسی برتری قائم نہیں کرسکی، اور یہاں نوازشریف کی حمایت بدستورقائم ہے۔ اس کی ایک وجہ لاہور میں تحریک انصاف کی داخلی تقسیم اور گروپ بندیاں ہیں۔ ہمایوں اختر خان اور دیوان غلام محی الدین کو ٹکٹ دینے پر پارٹی کے پرانے نظریاتی لوگ نالاں تھے اور وہ انتخابی مہم سے لاتعلق نظر آئے۔ ولید اقبال کو اس بار بھی ٹکٹ نہ مل سکا اور پارٹی نے نظریاتی ساتھیوں کے مقابلے میں نئے اور غیر نظریاتی لوگوں کو ٹکٹ دے کر خود اپنے لیے مسائل پیدا کیے۔ اب پارٹی کو تسلیم کرنا ہوگا کہ اس کی لاہور کی سیاست ناکام ہوئی ہے اور لاہور کی قیادت میں وسیع پیمانے پر تبدیلی کے بغیر تحریک انصاف لاہور کی سیاست میں کوئی بڑی کامیابی حاصل نہیں کرسکے گی، اور حکومتی کارکردگی پر بھی سوالات ہیں۔
ان انتخابات کے نتائج کے بعد تحریک انصاف کا زیادہ انحصار اپنی اتحادی جماعتوں پر بڑھ گیا ہے اور ان ہی کی مدد سے اسے آگے بڑھنا ہوگا۔ وگرنہ تحریک انصاف کا خیال تھا کہ ضمنی انتخابات میں زیادہ نشستوں کے حصول کے بعد اس کا اتحادی جماعتوں پر دبائو کم ہوگا۔
تحریک انصاف کو بعض نشستوں پر ناکامی کا سامنا کرنا پڑا، لیکن اس کے ہارنے والے امیدواروں اور جیتنے والے امیدواروں کے درمیان ووٹوں کا فرق بہت کم تھا۔ خیبر پختون خوا اور جہلم سمیت بعض حلقوں میں ہار کا تناسب چند سو سے چند ہزار ووٹوں کا تھا۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ پی ٹی آئی کے ورکرز یا جماعت اپنے ووٹ بینک کو زیادہ بہتر انداز میں موبلائز نہیں کرسکی۔ جبکہ ان کے مقابلے میں مسلم لیگ (ن) خاصی سرگرم نظر آئی اور اس کا انتخاب لڑنے اور جیتنے سمیت سیاسی کارکنوں کا تجربہ بھی کھل کر سامنے آیا۔ تحریک انصاف کو یہ ماننا ہوگا کہ اس کی ہار کی وجہ اپنی ہی جماعت کے داخلی اور ایک دوسرے کے ساتھ گروپ بندی کے مسائل بنے ہیں۔ کیونکہ تحریک انصاف میں تنظیمی انتخابات نہ ہونے کی وجہ سے تنظیمی ڈھانچہ موجود نہیں، اور یہی اس کی ہار کی وجہ بھی بنا ہے۔ اسی طرح تحریک انصاف میں ٹکٹوں کی تقسیم کی وجہ سے بھی نئے اور پرانے ساتھیوں کے درمیان کئی طرح کے مسائل دیکھنے کو ملے ہیں۔ یہ لڑائی تحریک انصاف میں 2013ء سے ہی جاری ہے۔
عمومی طور پر عام انتخابات کے مقابلے میں ووٹرز کا ٹرن آئوٹ ضمنی انتخابات میں کم ہوتا ہے۔ یہ منظر ہمیں ان حالیہ ضمنی انتخابات میں بھی دیکھنے کو ملا۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ حکومتی جماعت سمیت حزب اختلاف نے ووٹرز کو متحرک اور فعال کرنے کے لیے کوئی بڑی انتخابی مہم نہیں چلائی، یا ووٹروں کی عدم دلچسپی کی وجہ سیاسی مایوسی بھی ہوسکتی ہے، کیونکہ لوگ حکومت ہو یا حزب اختلاف… سب سے نالاں نظر آتے ہیں اور ان کو لگتا ہے کہ سیاسی قیادت ہمارے مسائل سے لاتعلق ہے۔ ویسے بھی عمران خان کی سیاست نے لوگوں کو متحرک کیا ہوا ہے، اور یہی وجہ ہے کہ ہمیں 2013ء اور اب 2018ء میں ووٹروں کی جانب سے ووٹ ڈالنے میں دلچسپی زیادہ نمایاں نظر آتی ہے۔ ایک وجہ یہ بھی تھی کہ تحریک انصاف اگرچہ حکومت میں ہے لیکن اس کی جانب سے ان 35 نشستوں پر ضمنی انتخابات کے تناظر میں کوئی بڑی انتخابی مہم دیکھنے کو نہیں مل سکی۔ اور جو ووٹروں کا ٹرن آئوٹ کم رہا ہے اس کی وجہ خود حکومتی پالیسی بھی ہوسکتی ہے۔
ایک سبق انتخابات اور دولت کا باہمی تعلق ہے جس پر سیاسی سطح پر زیادہ غور وفکر کرنا ہوگا کہ سیاست سے دولت کی ریل پیل کو کیسے ختم کیا جاسکتا ہے۔ کیونکہ اس کے خاتمے کے بغیر متوسط اور غریب قیادت کا آنا ممکن نہیں۔ اب حکومت پر ذمے داری بڑھ گئی ہے کہ وہ اپنی کارکردگی پر توجہ دے اور جو وعدے اس نے کررکھے ہیں اُنہیں پورا کرنے کے لیے مؤثر حکمت عملی بنائے، وگرنہ آگے جاکر پارٹی کو مزید مشکل کا سامنا کرنا پڑے گا۔
ان ضمنی انتخابات کے نتائج سے یہ سبق ملتا ہے کہ حکومت جو ایک بڑے امتحان میں پہلے سے ہی داخل تھی اب مزید داخل ہوگئی ہے، اور یہ اچھی بات ہے کہ ابتدا ہی میں ان نتائج نے تحریک انصاف کو بہت کچھ سیکھنے کا سبق دے دیا ہے، اگر وہ سیکھ سکے۔کیونکہ اس کے پاس حکومت میں آنے کے بعد عملی طور پر غلطیوں کی گنجائش کم ہے۔ لوگوں کی تحریک انصاف اور عمران خان سے بہت زیادہ توقعات ہیں۔ ان توقعات کو آگے بڑھانے میں خود عمران خان کی سیاست کا دخل ہے۔ کیونکہ انہوں نے ہی یہ تاثر دیا تھا کہ حکومت آتے ہی وہ واقعی ملک میں بڑی تبدیلیاں لائیں گے، لیکن عوامی تناظر میں ابھی ان کی جانب سے کوئی بڑی تبدیلی دیکھنے کو نہیں مل رہی جس سے لوگوں میں مایوسی کا پیدا ہونا فطری امر ہے۔