قبائلی تنازعات اور سیاسی جماعتوں کی کشمکش

۔14 اکتوبر 2018ء کو بلوچستان اسمبلی کے دو حلقوں پی بی35 مستونگ اور پی بی40 خضدار میںضمنی انتخاب ہوا۔ پی بی 40 خضدار سے بلوچستان نیشنل پارٹی کے امیدوار محمد اکبر مینگل کامیاب ہوئے، جبکہ پی بی35 مستونگ سے سابق وزیراعلیٰ بلوچستان نواب محمد اسلم رئیسانی جیت گئے۔ پی بی40 پر سردار اختر مینگل 25 جولائی کے عام انتخابات میں کامیاب ہوئے تھے۔ چونکہ سردار اختر مینگل بیک وقت قومی اسمبلی کے حلقہ پر بھی کامیاب ہوئے تھے، صوبے میں بی این پی اپنی حکومت نہ بناسکی اس بنا پر سردار اختر مینگل نے صوبائی نشست چھوڑ دی۔ ویسے بھی ان کی جماعت چاہ رہی تھی کہ سردار اختر مینگل قومی اسمبلی میں پارٹی اور صوبے کی رہنمائی کریں۔ اس وقت قومی اسمبلی میں کوئی قابلِ ذکر قوم پرست رہنما ہے بھی نہیں۔ اس بنا اُن کی قومی اسمبلی میں موجودگی ضروری سمجھی گئی۔ بلوچستان نیشنل پارٹی صوبے میں حزبِ اختلاف میں بیٹھ گئی، اور مرکز میں تحریک انصاف کی اتحادی ہے، تاہم اس نے حکومتی مناصب حاصل نہیں کیے۔ صوبائی اسمبلی کی ایک اور نشست پر کامیابی کے بعد بلوچستان نیشنل پارٹی کی عددی قوت 10 ارکان پر مشتمل ہوگئی۔ خضدار کی نشست پر آزاد امیدوار شفیق مینگل مدمقابل تھے۔ بی این پی کو متحدہ مجلس عمل کی حمایت بھی حاصل تھی۔ نواب اسلم رئیسانی کا وزن بھی بلوچستان اسمبلی میں بی این پی کے پلڑے میں ہوگا۔ بی این پی نے پی بی 35 مستونگ پر نواب اسلم رئیسانی ہی کی حمایت کی تھی۔ ویسے بھی ان کے چھوٹے بھائی نواب زادہ لشکری رئیسانی بی این پی سے وابستہ ہیں۔ وہ پارٹی کی مرکزی کمیٹی کے رکن ہیں۔ گزشتہ عام انتخابات میں لشکری رئیسانی پی بی31 اور قومی اسمبلی کے حلقہ این اے265 پر بی این پی کے امیدوار تھے۔ صوبائی حلقے پر انہیں پشتون خوا ملّی عوامی پارٹی کے نصراللہ زیرے سے شکست کھانی پڑی، جبکہ قومی اسمبلی کے حلقے پر تحریک انصاف کے قاسم خان سوری کامیاب ہوگئے۔ محمود خان اچکزئی بھی مدمقابل تھے۔ لشکری رئیسانی دوسری پوزیشن پر تھے۔ بی این پی اگر ہزار ڈیموکریٹک پارٹی سے انتخابی اتحاد یا سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرلیتی تو امکان تھا کہ لشکری رئیسانی قومی اسمبلی کی اس نشست پر کامیاب ہوجاتے۔ عام انتخابات میں پی بی35 پرنواب اسلم رئیسانی اور لشکری رئیسانی کے چھوٹے بھائی سراج رئیسانی بھی امیدوار تھے، یعنی نواب اسلم رئیسانی کے خلاف الیکشن لڑرہے تھے، اس وجہ سے خاندان میں چپقلش بھی رہی۔ نواب زادہ سراج رئیسانی انتخابی مہم کے دوران13جولائی کو مستونگ کے علاقے درینگڑھ میں خودکش حملے کا نشانہ بنے۔ دھماکا جلسے میں ہوا جس میں اُن سمیت150سے زائد افراد جاں بحق ہوگئے۔ یوں اس حلقے پر انتخاب ملتوی ہوگیا۔ سراج رئیسانی بلوچستان عوامی پارٹی(باپ) کے ٹکٹ پر انتخاب لڑرہے تھے۔ اس طرح نواب اسلم رئیسانی نے ضمنی انتخاب میں بلوچستان عوامی پارٹی کے امیدوار سردار نور احمد بنگلزئی اور نیشنل پارٹی کے سردار کمال خان بنگلزئی کو شکست دی۔ نواب اسلم رئیسانی نے13155ووٹ حاصل کیے۔
الیکشن مہم کے دوران 10اکتوبر کو بلوچستان نیشنل پارٹی نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ وڈھ میں سردار اختر مینگل پر حملے کی کوشش ہوئی۔ تین افراد نے ان کی رہائش گاہ میں داخل ہونے کی کوشش کی، محافظین نے انہیں روکا اور تلاشی لی تو ان سے اسلحہ اور دستی بم برآمد ہوئے۔ بی این پی کے مطابق ایک ملزم فرار ہوگیا اور باقی دو کو لیویز کے حوالے کردیا گیا۔ سردار اختر مینگل نے بھی ٹوئٹ کے ذریعے خود پر حملے کی تصدیق کی کہ ان پر حملے کی کوشش ہوئی جسے محافظوں نے ناکام بنایا۔ اور یہ بھی کہا کہ مجھے بزدل افراد کی جانب سے دھمکیاں مل رہی تھیں۔ اس واقعے کے خلاف ان کے مقابل الیکشن لڑنے والے شفیق مینگل اور ان کے حامیوں نے کوئٹہ کراچی شاہراہ احتجاجاً بند کردی کہ ان کے حامی عبدالغفور لانگو کو مقامی قبائلی شخصیت کے مسلح افراد نے مبینہ طور پر اغوا کیا اور ان پر تشدد کیا۔ فاتحہ پر بیٹھے ان افراد کو زبردستی لے جایا گیا اور انہیں حبس بے جا میں رکھا گیا۔ بی این پی کے اس الزام پر صوبے کی بڑی قوم پرست جماعت نیشنل پارٹی نے بھی تنقید کی۔ نیشنل پارٹی کے مرکزی ترجمان نے اس حوالے سے مؤقف دیا کہ بی این پی کا بیان انتہائی افسوسناک اور قبائلی روایات اور آدا ب کے خلاف ہے۔ نیشنل پارٹی کے مطابق قبائلی اور ذاتی رنجش کو جس طرح سیاسی دہشت گردی کا رنگ دیا گیا وہ قابلِ مذمت ہے۔ پارٹی ترجمان نے مزید کہا کہ سردار اختر مینگل کو اپنے آبا و اجداد خصوصاً سردار عطاء اللہ مینگل کے احترام کو اپنے سامنے رکھ کر سیاسی اقدامات کی ضرورت ہے۔ سردار عطاء اللہ مینگل ہمارے بزرگ قومی و سیاسی رہنماء ہیں ملک بھر میں ان کی بڑی عزت ہے، ان کا سیاسی کردار غیر متنازع ہے، لہٰذا بی این پی کو بھی سیاسی اقدام کرنے سے پہلے سردار عطاء اللہ مینگل کے عزت و احترام کو ملحوظِ خاطر رکھنا چاہیے۔ نیشنل پارٹی کے ترجمان نے یہ بھی واضح کردیا کہ ’’سردار اختر مینگل کے گھر پر کوئی دہشت گردی نہیں ہوئی بلکہ لانگو قبائل کے کچھ عمائدین کو خود سردار اختر مینگل نے اپنے گھر بلاکرانتخاباتمیں تعاون مانگا۔ حالانکہ گزشتہ انتخابات میں ان افراد نے سردار اختر مینگل کی حمایت کی تھی، لیکن چونکہ بی این پی کے نئے امیدوار سے ان کے ذاتی تنازعات تھے، بلکہ بی این پی کے ان رہنمائوں نے ایک قبائلی تنازعے کے بعد ان لوگوں کو علاقے اور اپنے گھروں سے بے دخل کردیا تھا اس لیے انہوں نے ووٹ دینے سے معذرت کی جس پر سردار اختر مینگل کے حکم پر ان افراد کو زدوکوب کرنے کے بعد ذاتی جیل میں ڈالا گیا۔ ستم ظریفی کی انتہا دیکھیں کہ اپنے اس غیر سیاسی و قبائلی اہداف کے برخلاف اقدام پر شرمسار ہونے کے بجائے ان افراد پر دہشت گردی کا جھوٹا مقدمہ کرنے کی کوشش کی گئی اور بی این پی کے رہنمائوں کو حکم دیا گیا کہ وہ اس قبائلی و خاندانی رنجش کو سیاسی رنگ دے کر پریس کانفرنسیں کریں۔ ترجمان نے یہ بھی کہا کہ متاثرہ افراد کا نیشنل پارٹی سے کوئی تعلق نہیں لیکن یہ مسئلہ خالصتاً انسانی نوعیت کا ہے، بی این پی کی سیاسی قیادت سنجیدگی کا مظاہرہ کرے اور اس طرح کے ذاتی اور قبائلی معاملات کو سیاست زدہ کرنے سے گریز کرے۔‘‘ (12اکتوبر2018ء)
بہرحال مستونگ اور خضدار میں انتخابات پُرامن ماحول میں پایہ تکمیل کو پہنچ گئے۔ ان انتخابات کے بعد 65 رکنی ایوان میں ارکان کی تعداد 60 ہوگئی ہے۔ صوبائی اسمبلی کی پانچ نشستوں پر کامیاب امیدواروں کو نااہل قرار دیا گیا ہے، یا پھر ان کے نوٹیفکیشن روکے گئے ہیں۔ بلوچستان اسمبلی کی نشست پی بی26کوئٹہ پر نتیجہ روک دیا گیا ہے۔ یہاں سے ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کے علی احمد کوہزاد کامیاب ہوئے تھے جن کی پاکستانی شہریت چیلنج ہوئی کہ علی احمد کوہزاد افغان باشندہ ہے۔ چنانچہ معاملہ وزارت داخلہ میں زیر التواء ہے۔ علاوہ ازیں سپریم کورٹ نے حلقہ پی بی47 سے بلوچستان عوامی پارٹی کے امیدوار عبدالرئوف رند کی کامیابی کو کالعدم قرار دے دیا۔ سپریم کورٹ نے یہ حکم عبدالرئوف رند کے عمان کی شہریت رکھنے پر دیا۔ یعنی دوہری شہریت کی وجہ سے انہیں نااہل کردیا گیا۔ عبدالرئوف رند کے والد نے عمان کی شہریت لی تھی۔ اسی طرح الیکشن کمیشن آف پاکستان نے بلوچستان کے دو صوبائی حلقوں پی بی5 دکی اور پی بی21 قلعہ عبداللہ اور قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 258 پر بھی انتخاب کالعدم قرار دے کر دوبارہ پولنگ کرانے کا حکم دے دیا ہے۔ پی بی 5 دکی سے سردار مسعود علی خان لونی آزاد حیثیت سے کامیاب ہوئے تھے اور پھر بلوچستان عوامی پارٹی میں شامل ہوئے۔ ان کے خلاف بلوچستان عوامی پارٹی کے امیدوار سردار در محمد ناصر اور جمعیت علمائے اسلام کے امیدوار سردار یحییٰ خان ناصر نے دھاندلی کا کیس دائر کیا تھا۔ پی بی21 قلعہ عبداللہ سے عوامی نیشنل پارٹی کے انجینئر زمرک خان اچکزئی کامیاب ہوئے تھے۔ یہاں بھی دھاندلی کا الزام لگایا گیا تھا۔ الیکشن کمیشن نے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 258 لورالائی کم موسیٰ خیل کم زیارت کم دکی کم ہرنائی پر بھی دوبارہ انتخاب کرانے کا حکم دیا۔ اس حلقے پر بلوچستان عوامی پارٹی کے سردار اسرار خان ترین کامیاب ہوئے تھے۔ دوسرے نمبر پر ایم ایم اے (جمعیت علمائے اسلام) کے مولانا امیر زمان تھے۔ مسلم لیگ نواز کے سردار یعقوب خان ناصر تیسرے نمبر پر تھے۔ چنانچہ آخر الذکر ہارنے والے دونوں امیدواروں نے دھاندلی کا الزام لگایا۔ کامیاب امیدواروں نے الیکشن کمیشن کے فیصلوں کے خلاف عدالتوں سے رجوع کر رکھا ہے۔