نواب نے بلوچستان عوامی پارٹی کو شکست دے دی ؟

بلوچستان میں صوبائی اسمبلی کی دو نشستوں پر مقابلہ تھا، ایک نشست خضدار کی تھی اور دوسری مستونگ کی۔ مستونگ کی نشست پر اُس وقت انتخاب ملتوی ہوگیا تھا، جب سراج رئیسانی کی انتخابی مہم کے دوران خودکش حملہ ہوا اور وہ موقع پر ہی جاں بحق ہوگئے۔ چند سال قبل بھی مستونگ کے اسٹیڈیم میں ایک تقریب کے دوران ان پر خودکش حملہ ہوا تھا، اس میں کئی لوگوں کے ساتھ سراج رئیسانی کا بڑا بیٹا بھی مارا گیا، لیکن سراج رئیسانی بچ گئے تھے۔ اس حملے کے بعد سے انہوں نے اپنی سرگرمیاں ساراوان ہائوس تک محدود کرلی تھیں۔ 2018ء کے انتخابات میں سراج رئیسانی، اس نشست پر نواب محمد اسلم خان رئیسانی کے مدمقابل ایک طاقتور حریف کے طور پر آگئے تھے۔ ساراوان ہائوس کی چار دیواری کے اندر یہ سیاسی تقسیم اہلِ علاقہ کو حیرت زدہ کررہی تھی۔ نواب رئیسانی کے چھوٹے بھائی سابق سینیٹر حاجی لشکری بڑے بھائی نواب محمد اسلم خان کے ساتھ تھے۔ حاجی لشکری کا تعلق پی پی پی سے تھا، بعد میں انہوں نے پیپلز پارٹی سے استعفیٰ دے دیا اور کچھ عرصہ خاموش رہنے کے بعد 2018ء میں انہوں نے اپنے ساتھیوں سمیت بی این پی مینگل میں شمولیت اختیار کرلی ۔ 2018ء کے انتخابات میں انہوں نے قومی اسمبلی کی نشست پر مقابلہ کیا اور پی ٹی آئی کے قاسم سوری کے ہاتھوں شکست کھا گئے۔ یہ کوئٹہ کی نشست NA-265 تھی۔ قاسم سوری نے 25973 ووٹ جبکہ حاجی لشکری نے 20389 ووٹ حاصل کیے۔ اس نشست پر محمود خان اچکزئی اور حافظ حمداللہ (MMA) نے بھی شکست کھائی۔
مستونگ کی نشست سے نواب اسلم رئیسانی نے انتخاب لڑا اور وہ کامیاب ہوگئے۔ ان کے مدمقابل نیشنل پارٹی کے سردار کمال خان بنگلزئی تھے، جبکہ سردار نور احمد بنگلزئی کا تعلق بلوچستان عوامی پارٹی سے تھا۔ نواب اسلم خان رئیسانی نے 14711ووٹ لیے، نور احمد بنگلزئی کو 9610، اور سردار کمال بنگلزئی کو 8109ووٹ حاصل ہوئے۔ پی ٹی آئی کے امیدوار ملک فیصل دھوار 2227ووٹ حاصل کرسکے۔ اس نشست پر جمعیت علمائے اسلام نے اپنا امیدوار کھڑا کیا تھا اور اعلان کیا تھا کہ ان کا امیدوار انتخاب سے دستبردار نہیں ہوگا، لیکن ایک دن قبل جمعیت علمائے اسلام نے اپنا امیدوار نواب رئیسانی کے حق میں دستبردار کرا لیا۔ بی این پی بھی نواب رئیسانی کی حمایت کررہی تھی اور ان کی مہم چلا رہی تھی۔
خضدار کی نشست سردار اختر مینگل نے خالی کی تھی، وہ قومی اسمبلی میں بھی کامیاب ہوئے تھے، ان کا خیال تھا کہ بلوچستان کے وزیراعلیٰ کا تاج ان کے سر پر سجادیا جائے گا۔ انتخاب کے دوران سردار اختر مینگل نے خضدار کی نشستوں پر جمعیت علمائے اسلام سے معاہدہ کرلیا تھا، حالانکہ اس وقت جمعیت MMA کا حصہ تھی، مگر جمعیت نے جماعت اسلامی اور دیگر پارٹیوں سے صلاح مشورہ کرنا بھی گوارا نہیں کیا اور تن تنہا بی این پی سے معاہدہ کرلیا۔ جمعیت کی خواہش تھی کہ سردار اختر مینگل سے مل کر حکومت تشکیل دے۔ سب جانتے ہیں کہ پی ٹی آئی اور جمعیت میں سخت اختلافات موجود ہیں، اس لیے مرکز میں پی ٹی آئی کی جیت کے بعد بلوچستان میں عمران خان کو بی این پی اور جمعیت کا اشتراک ایک آنکھ نہیں بھایا، اس لیے سردار اختر مینگل بلوچستان میں حکومت تشکیل نہ دے سکے اور نہ وہ اپوزیشن میں تھے۔ جب انہوں نے ہوا کا مقامی رخ دیکھ لیا تو بلوچستان کی صوبائی نشست خالی کردی اور قومی اسمبلی کی نشست برقرار رکھی۔ اب بی این پی عمران خان کے ہمراہ اپنے چھے نکات کے ساتھ سیاسی سفر کررہی ہے۔ بلوچستان میں ان پر دبائو ہے کہ کچھ حاصل کرنے کیے بغیر عمران خان کے ساتھ کیوں گئے؟ بی این پی کی ساری سیاست افغان مہاجرین اور پشتون خوا ملّی پارٹی کی مخالفت کے گرد گھوم رہی ہے اور وہ چاہتے تھے کہ بلوچستان کی گورنری ان کی پارٹی کو حاصل ہو اور ایک بلوچ گورنر جلوہ گر ہو۔ لیکن عمران خان کی پارٹی نے اس مؤقف کو قبول نہیں کیا، اور بلوچستان میں ایک پشتون امان اللہ یاسین زئی کو گورنر بنادیا۔ بی این پی گورنر کی حلف برداری کی تقریب میں شریک ہوئی۔ اس دوران پارٹی ورکر اُن سے پوچھتے رہے کہ انہوں نے تحریک انصاف کو وزیراعظم، اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کا ووٹ کیوں دیا؟ وہ اس کے جواب میں اپنے چھے نکاتی معاہدے کا حوالہ دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ انہیں گورنر بلوچستان کا عہدہ اور چار وزارتوں کی پیشکش ہوئی تھی جسے انہوں نے اس لیے ٹھکرا دیا کہ انہیں بلوچستان کے مفادات عزیز ہیں۔ خضدار کی خالی کردہ نشست پر شفیق الرحمن کھڑے ہوئے تھے اور ان کی حمایت نیشنل پارٹی کررہی تھی۔ ان کے مدمقابل بی این پی کے اکبر مینگل کھڑے تھے اور اس نشست پر بی این پی اور جمعیت علمائے اسلام کا معاہدہ تھا، اس لیے جمعیت علمائے اسلام نے بی این پی مینگل کے امیدوار کے مدمقابل امیدوار کھڑا نہیں کیا تھا۔ یاد رہے کہ شفیق مینگل کے والد میر نصیر مینگل ہیں جو بلوچستان کے نگراں وزیراعلیٰ بھی رہے ہیں۔ وہ اپنے بیٹے کی مہم چلا رہے تھے۔ خضدار کی نشست پر بی این پی کے محمد اکبر مینگل نے 23905ووٹ حاصل کیے جبکہ شفیق مینگل 14312ووٹ حاصل کرسکے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ نواب محمد اسلم خان رئیسانی اپنی آزاد حیثیت کو برقرار رکھتے ہیں یا وہ بی این پی میں شمولیت اختیار کرلیتے ہیں۔ نواب اسلم رئیسانی نواب غوث بخش بزنجو مرحوم کی پارٹی میں تھے، بعد میں وہ پیپلز پارٹی میں چلے گئے اور 2004ء میں پی پی پی کے ٹکٹ پر انتخاب لڑا اور جیت گئے۔ زرداری نے مرکز میں حکومت تشکیل دی اور نواب نے بلوچستان میں۔ بلوچستان کے 65 رکنی ایوان میں سردار یار محمد رند کے سوا باقی سب ارکان وزیر مشیر بن گئے۔ یہ ایک دلچسپ دور تھا جس میں حزب اختلاف موجود ہی نہیں تھی۔ سردار یار محمد رند اور نواب رئیسانی میں قبائلی چپقلش تھی اس لیے رند صاحب اسمبلی میں نہیں آئے۔ اب دونوں متحارب شخصیات بلوچستان اسمبلی میں موجود ہوں گی۔ یہ ایک ایسا نقشہ ہے جو خوش کن نظر نہیں آرہا ہے ۔