پروفیسر قاضی اکرم بشیر
مولانا جعفر قاسمیؒ سے میری پہلی ملاقات 1965ء میں اُس وقت ہوئی جب وہ انگلستان میں اپنے طویل قیام کے بعد اپنے آبائی شہر چنیوٹ میں اپنے آبائی گھر میں تشریف لائے۔ وہ ایک وجیہ و شکیل اور متدین شخصیت تھے۔ باریش ہونے کے ساتھ ساتھ مغربی لباس میں ملبوس تھے۔ ان کی شادی کو تین برس گزر چکے تھے اور ان کے صاحبزادے مدثر حسن قاسمی بھی ان کے ہمراہ تھے۔ ان کی اہلیہ بیگم قیصرہ قاسمی بابائے قوم حضرت قائداعظمؒ کے اے ڈی سی (جی) میجر محمد افضل خان کی صاحبزادی تھیں۔1962ء میں مولانا جعفر قاسمی کی شادی کے موقع پر بھی انہیں دیکھا تھا لیکن اُس وقت میرا شعور ابھی زیادہ بیدار نہیں تھا۔ 1965ء میں جب وہ چنیوٹ آئے تو لاہور کے سفر میں ہمیشہ مجھے بھی ساتھ رکھتے تھے اور لاہور میں مجھے اپنے ساتھ رکھنے کے لیے کیپٹن (ر) شاہد افضل تھے جن سے اوائل عمری میں میں نے بہت کچھ سیکھا۔ 1965ء میں مولانا جعفر قاسمی کا پاکستان میں قیام چند مہینے رہا، اس دوران پاکستان میں ستمبر 1965ء کی جنگ بھی جاری تھی۔ جنگ کے خاتمے پر وہ واپس انگلستان چلے گئے جہاں انہوں نے 1968ء تک قیام کیا۔ وہ 1952ء سے 1968ء تک بی بی سی لندن کی اردو سروس سے وابستہ رہے اور انہوں نے بی بی سی کی اردو سروس سے بعض مقبول عام پروگرام بھی شروع کئے۔
جہاں تک مولانا کی ابتدائی تعلیم اور خاندانی حالات کا تعلق ہے، وہ دسمبر 1927ء میں چنیوٹ کے ایک متمول گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد قاضی غلام حسین چنیوٹ کے ایک بڑے زمیندار تھے۔ جعفر قاسمی نے میٹرک اسلامیہ ہائی اسکول چنیوٹ سے کرنے کے بعد گورنمنٹ کالج فیصل آباد میں داخلہ لیا جہاں سے انہوں نے انٹرمیڈیٹ میں شاندار کامیابی حاصل کی۔ اُس زمانے میں انٹر کا امتحان پنجاب یونیورسٹی لیتی تھی۔ انہوں نے یونیورسٹی بھر میں پہلی پوزیشن حاصل کی تھی جس کا تذکرہ جی سی فیصل آباد کی کانووکیشن رپورٹ میں موجود ہے جو کالج میگزین میں بھی شائع ہوئی تھی۔ انٹرمیڈیٹ کے بعد جعفر قاسمی نے گورنمنٹ کالج لاہور سے گریجویشن کی اور وہ یہاں بھی ایک باصلاحیت اور ممتاز طالب علم رہے۔ ان کے ہم عصر راوینز میں جناب مجید نظامی، اشفاق احمد، محمد حنیف رامے، جاوید قریشی اور بعض دیگر ممتاز شخصیات شامل تھیں۔ صوفی غلام مصطفیٰ تبسم ان کے اساتذہ میں سے تھے۔ اس دوران جعفر قاسمی کے والد قاضی غلام حسین انتقال کر گئے اور ان کی تمام جائدادوں اور زمینوں کا انتظام ان کے بڑے بھائی قاضی غلام محمد مرحوم نے سنبھال لیا۔
قاضی غلام محمد کے دو بھائی اور چھے بہنیں تھیں لیکن انہوں نے خاندانی جائداد میں اپنی ہمشیرگان کو نظرانداز کردیا۔ اس دوران جعفر قاسمی اپنی خاندانی جائداد کا بڑا حصہ فروخت کرکے قانون کی اعلیٰ تعلیم کے لیے انگلستان روانہ ہوئے جہاں انہوں نے لنکن اِن لندن میں داخلہ لیا۔ یہاں مجید نظامی اور نذیر احمد غازی بھی ان کے ہم عصر طلبہ میں شامل تھے۔ مولانا جعفر قاسمی نے انگلستان میں برٹرینڈرسل، راجا صاحب محمود آباد اور ڈاکٹر عاشق حسین بٹالوی جیسی شخصیات سے مسلسل رابطہ رکھا۔ اسی دوران وہ روم کے سلسلہ تصوف الشازلیہ سے وابستہ ہوئے اور سیدی ابوبکر سراج الدین (مارٹن لنگز) نے ان کو پاکستان میں سلسلہ شازلیہ میں اپنا مقدم مقرر کیا۔ اسی سلسلے میں ڈاکٹر حسین نصر(ایران) اور اے کے بروہی بھی تھے، بعد میں سراج منیر اور سہیل عمر نے بھی سلسلہ الشازلیہ میں مولانا جعفر قاسمی کے ہاتھ پر بیعت کی۔
مولانا جعفر قاسمی نے تبلیغ اسلام کا سلسلہ بھی شروع کررکھا تھا اور یورپ میں بہت سے غیر مسلموں نے ان کے ہاتھ پر بیعت کی اور دائرہ اسلام میں داخل ہوئے۔ مولانا جعفر قاسمی نے دنیا کے 27 ممالک کی سیر و سیاحت بھی کی اور یورپی ممالک میں ان کا طویل قیام رہا۔ جب وہ پاکستان واپس آئے تو یہاں کے ماحول اور معاشرے میں وہ اپنے آپ کو ذہنی طور پر ایڈجسٹ نہ کرسکے۔ 1968ء سے 1987ء تک پاکستان کے ایک سینئر بیوروکریٹ جناب محمد حسین صوفی نے ہمیشہ مولانا جعفر قاسمی کے لیے آسانیاں پیدا کرنے کی کوششیں کی۔ مولانا اس دوران محکمہ اوقاف میں ڈائریکٹر پبلک ریلیشنز اور ڈائریکٹر علماء اکیڈمی بھی رہے، بعد میں ایڈیٹر (گزٹیئر) بورڈ آف ریونیو ویسٹ پاکستان کے عہدے پر بھی فائز رہے۔
مولانا جعفر قاسمی نے حضرت بابا فرید گنج شکر پر ایک کتاب لکھی جس کے تراجم آر سی ڈی کی طرف سے انگریزی، فارسی اور ترکی میں بھی ہوئے۔ اسی طرح 1971ء میں ’’تاثیر معنوی ایران در پاکستان‘‘ کے عنوان سے مقالات کا ایک مجموعہ شائع کیا۔ انگریزی زبان میں مولانا کے مضامین یورپی اخبارات میں شائع ہوتے رہے اور پاکستان واپسی پر وہ پاکستان ٹائمز، ڈان، امروز اور نوائے وقت میں بھی لکھتے رہے۔ مولانا جعفر قاسمی سیرۃ النبی پر بھی کام کررہے تھے لیکن زندگی نے مہلت نہ دی اور اس کام کو پایہ تکمیل تک نہ پہنچا سکے۔ وہ ڈاکٹر اسرار احمد کے ہفتہ وار ندائے خلافت میں بھی لکھتے رہے، اور یہ مضامین ان کے صاحبزادے مدثر حسن قاسمی نے ”محشر خیال“ کے عنوان سے کتابی صورت میں شائع کئے ہیں۔ مولانا کے بڑے صاحبزادے مدثر حسن عربی زبان و ادب کے اسسٹنٹ پروفیسر ہیں اور ٹیلی ویژن کے ڈراموں سے بھی کافی شہرت حاصل کرچکے ہیں۔ مدثر حسن قاسمی بذاتِ خود بھی ڈراما پروڈکشن اور ڈائریکشن کرتے رہے۔
مولانا کے دوسرے صاحبزادے مزمل حسن قاسمی قانون کے پیشے سے وابستہ اور لاہور ہائی کورٹ میں پریکٹس کررہے ہیں، جبکہ مولانا کی تین صاحبزادیاں ہیں۔ مولانا جعفر قاسمی عالم اسلام کے ایک ممتاز دینی و مذہبی اسکالر ہونے کے ساتھ ساتھ تصوف و عرفان میں بھی ایک بلند مقام رکھتے تھے۔ امریکہ کے ایک انسائیکلوپیڈیا میں دنیا کی ممتاز صوفی شخصیات میں مولانا جعفر قاسمی کا تذکرہ ہوا ہے۔ ان کے حلقہ احباب میں شامل ممتاز شخصیات میں جناب مجید نظامی، جناب مجیب الرحمن شامی، جاوید قریشی، مولانا محمد حنیف ندری، مولانا محمد اسحاق بھٹی، مولانا سید ابوالخیر مودودی، مولانا محمد ادریس کاندھلوی، نثار عثمانی مرحوم، احمد ندیم قاسمی، اشفاق احمد، منو بھائی، ظہیر بابر، حمید جہلمی کے علاوہ مسعود کھدرپوش، مولانا عبدالقادر آزاد، حنیف رامے، رشید احمد چودھری، خانم مریم بہنام، رشید فرزانہ پور، ڈاکٹر حسین نصر، اے کے بروہی، جی ایم سکندر، شہزاد حسن پرویز، چودھری محمد امین، چودھری محمد یعقوب، مہر ظفر عباس لک، ڈاکٹر امجد ثاقب کے علاوہ بے شمار ایسے لوگ بطور خاص قابل ذکر ہیں۔
رشتہ داروں میں میرے والد محترم قاضی بشیر احمد مرحوم، برادر مکرم آصف قاضی اور میرے ساتھ محبت و شفقت کا خصوصی تعلق تھا۔ جس زمانے میں میاں محمد نوازشریف پنجاب کے وزیراعلیٰ تھے اور جی ایم سکندر ان کے پرنسپل سیکرٹری تھے امریکن قونصل جنرل رچرڈ مکی نے انہیں مولانا جعفر قاسمی کے حوالے سے ایک خط لکھا جس پر وزیراعلیٰ میاں محمد نوازشریف نے مولانا جعفر قاسمی کی بے حد قدر دانی کی۔ زندگی کے آخری برسوں میں مولانا جعفر قاسمی ایک علمی پراجیکٹ پر کام کررہے تھے اور فیصل آباد میں قیام پذیر تھے۔ اچانک 12اکتوبر 1991ء کو مولانا حرکتِ قلب بند ہوجانے سے انتقال کر گئے اور انہیں چنیوٹ میں ان کے آبائی قبرستان میں سپردِخاک کیا گیا۔مولانا کی یاد میں ایک میموریل سوسائٹی قائم کی گئی جو ہر سال ان کی یاد میں ایک میموریل لیکچر کا اہتمام کرتی ہے۔ اس سوسائٹی کی تقریبات میں شریک ہونے والی شخصیات میں مجید نظامی مرحوم، جاوید قریشی، مجیب الرحمن شامی، امجد اسلام امجد، ڈاکٹر امجد ثاقب ، سہیل عمر اور ان کے دیگر احباب شرکت کرتے رہے ہیں۔
)بشکریہ روزنامہ پاکستان ،13اکتوبر 2018ء(