صائمہ ایس۔ حسین
انڈ ے سے کئی قسم کی لذیذ ڈشیں بنائی جاتی ہیں، مثلاً انڈا گھوٹالا، انڈا آلو، انڈا پراٹھا اور نرگسی کوفتا۔ انڈا دوسری چیزوں کے ساتھ ملا کر کئی طریقوں سے پکایا جاسکتا ہے۔ انڈے سے آملیٹ بھی بنایا جاتا ہے، جو بہت مزے دار ہوتا ہے۔ ساری دنیا میں انڈا خوب کھایا جاتا ہے، اس لیے کہ یہ نہایت آسانی سے پک جاتا ہے اور کھانے میں مزا بھی دیتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ انڈا غذائیت سے بھرپور ہوتا ہے۔
کوئل، شتر مرغ اور بطخ کے انڈے بھی کبھی کبھار کھائے جاتے ہیں، مگر سب سے زیادہ انڈے مرغی کے ہی کھائے جاتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ قدیم ہندوستان میں 3200 قبل مسیح میں مرغیاں پالی جاتی تھیں اور ان سے انڈے حاصل کیے جاتے تھے۔ ہڑپا جو اب پاکستان کا علاقہ ہے، اس سے پہلے یہ وادیِ سندھ میں شامل تھا۔ وہاں 2100 قبل مسیح میں انڈے حاصل کرنے کے لیے مرغیاں پالی جاتی تھیں۔
مرغیاں مشرقی یورپ اور ترکی میں 3000 قبل مسیح میں پہنچیں، جب کہ تاریخی ریکارڈ دیکھنے سے پتا چلتا ہے کہ چین اور مصر میں 1400 قبل مسیح میں مرغیاں پالی جاتی تھیں اور اُن سے انڈے حاصل کیے جاتے تھے۔ رومی افواج نے جب انگلستان پر حملہ کیا تو انہوں نے انڈے دینے والی مرغیاں دیکھیں، جن کی باقاعدہ افزائش کی جاتی تھی۔ مرغیاں شمالی امریکہ میں 1493ء میں پہنچیں، جب کولمبس نے وہاں دوسری بار قدم رکھا۔
بیسویں صدی عیسوی میں آپ نے ایک فلم میں ایک اداکار کو گلاس میں انڈے گھول کر پیتے دیکھا ہوگا، جس کے بعد وہ صبح کی دوڑ کے لیے گھر سے نکلتا ہے۔ باکسر اور پہلوان اس پر یقین رکھتے تھے کہ اگر انڈے کو پکالیا جائے تو اس میں موجود لحمیات (پروٹینز) ضائع ہوجاتی ہیں۔
انڈے میں سیلینیم، آیوڈین، فاسفورس، لیوٹین (LUTEIN) اور اس کے علاوہ حیاتین الف، ب2، ب5، ب 12، ھ (ای) د اور کے (k) شامل ہوتی ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ انڈے میں شامل لحمیات کو پکا لیا جائے تو انڈا آسانی سے ہضم ہوجاتا ہے اور جزو بدن بن جاتا ہے، بجائے اس کے کہ اسے کچا کھایا جائے۔ کچے انڈے میں ’’سالمونیلا‘‘ (SALMONELLA) نامی جرثومہ ہوتا ہے، جس کے اثرات مضر صحت ہوتے ہیں۔
کچھ ماہرین یہ بھی کہتے ہیں کہ انڈے کی زردی میں کولیسٹرل ہوتا ہے، جو نقصان پہنچاتا ہے۔ چناں چہ وہ مسلسل کئی عشروں سے یہ مشورہ دے رہے ہیں کہ انڈے کی صرف سفیدی کھانی چاہیے، جس میں لحمیات کی اچھی مقدار ہوتی ہے۔ وہ ان افراد کو زردی کھانے سے منع کرتے ہیں جو عارضۂ قلب میں مبتلا ہوں۔ بہت سے معالجین کو اس رائے سے اتفاق نہیں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ انڈا اگر اعتدال سے کھایا جائے، یعنی ایک انڈا روز، تو اس سے کوئی نقصان نہیں پہنچتا، البتہ ذیابیطس کے مریضوں کو انڈا کھانے سے پہلے اپنے معالج سے مشورہ کرلینا چاہیے۔
انڈے کی زردی نقصان نہیں پہنچاتی۔ سفیدی اُن افراد کے لیے فائدے مند ہے، جن کے چہرے کے مسامات کھل جاتے ہیں۔ اگر اسے پابندی سے چہرے پر لگایا جائے تو جلد صاف ستھری رہتی ہے۔ اس میں شامل کولاجن (COLLAGEN) سے چہرے کے داغ دھبے بھی دور ہوجاتے ہیں۔ اگر آپ کے چہرے کی جلد چکنی ہے تو انڈے کی سفیدی پھینٹ کر جب جھاگ بن جائے تو لیموں کے چند قطرے ملا کر چہرے پر لگالیں۔ پھر تھوڑی دیر بعد چہرے کو دھو ڈالیں۔ یہ عمل کئی بار کرنے سے اس کے مثبت اثرات مرتب ہونے لگتے ہیں۔
انڈے کی زردی بالوں میں لگانے سے بال چمک دار اور گھنے ہوجاتے ہیں۔ زردی میں حیاتین الف، ب، د اور ھ شامل ہوتی ہیں۔ یہ حیاتین بالوں کے لیے مفید ہیں۔ ایک زردی لے کر اسے خوب پھینٹ لیں۔ پھر اس میں زیتوں کا تیل اور شہد ملالیں۔ اس آمیزے کو پابندی سے سر میں لگانے سے بال مضبوط اور چمک دار ہوجاتے ہیں۔