۔10 اکتوبر… عالمی یومِ ذہنی صحت

دنیا بھر میں 10 اکتوبر کو عالمی یومِ ذہنی صحت منایا جاتا ہے۔ اس دن کے منانے کا مقصد لوگوں میں ذہنی صحت کے شعور کو اجاگر کرنا ہے۔
آرٹس کونسل کراچی میں فاران انسٹی ٹیوٹ کے اشتراک سے ایک ورکشاپ اور سیمینار کا اہتمام کیا گیا جس کا عنوان تھا ’’کراچی کا نوجوان، بدلتی دنیا اور ذہنی صحت‘‘۔ سیمینار سے پروفیسر ڈاکٹر محمد صدیق، ڈاکٹر رضا الرحمن، پریس کلب کے صدر ملک احمد خان، شکیل احمد خان کے علاوہ مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد نے اظہارِ خیال کیا۔ پروفیسر ڈاکٹر محمد صدیق نے بتایا کہ اس وقت دنیا میں 1.2 ارب نوجوان آبادی ہے۔ پاکستان چونکہ نوجوان قوم پر مشتمل ہے، اس لیے گزشتہ چالیس سال سے کراچی کا نوجوان ہر لحاظ سے بدلتے ہوئے حالات سے متاثر ہوا ہے اور اسے حکومتی سطح پر بھی نظرانداز کیا گیا ہے، یہی وجہ ہے کہ کراچی میں دیگر شہروں کے مقابلے میں ذہنی صحت کے مسائل زیادہ پیدا ہوئے۔ عالمی سرویز کے مطابق ہر چوتھا فرد اور ہر دسواں بچہ ذہنی صحت کے مسائل سے دوچار ہے، صرف کراچی میں 50 لاکھ سے زائد افراد نفسیاتی مسائل کا سامنا کررہے ہیں، جن میں ’’انگزائٹی اور ’’ڈپریشن‘‘ سرفہرست ہیں۔ عالمی ماہرین بتاتے ہیں کہ اگر ہم ایک ڈالر ذہنی صحت پر خرچ کریں تو چار ڈالر بچا سکتے ہیں۔ کراچی میں نوجوانوں کے غصے، عدم برداشت اور تشدد کے ماحول نے تعلیمی اداروں اور شہر کے ماحول کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے، اگر اس عدم برداشت پر قابو نہ پایا گیا تو پھر اجتماعی افراتفری اور بدامنی کو روکنا ناممکن ہوجائے گا۔ پاکستان میں بارہ سال سے زیادہ عمر کے 6 فیصد افراد تعلیم حاصل کررہے ہیں، انہیں یونیورسٹی کیمپس تک میں ذہنی صحت کی ضرورت سے متعلق آگاہی نہ ہونے کے برابر ہے۔ طلبہ کو تعلیمی دبائو، منشیات کے بڑھتے ہوئے استعمال اور جنسی ہراسگی جیسے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ گزشتہ دنوں پشاور یونیورسٹی کے طلبہ اور پولیس کے درمیان جھگڑے کے نتیجے میں شدید نقصان پہنچا۔ حقیقت یہ ہے کہ تمام ذہنی امراض میں سے نصف لڑکپن میں شروع ہوتے ہیں، جن میں زیادہ تر غیر تشخیص شدہ اور غیر علاج شدہ رہتے ہیں، کیوں کہ آگاہی نہ ہونے کے سبب والدین اور اساتذہ اس قابل نہیں ہوتے کہ وہ ان امراض کی علامات کو پہچان سکیں۔ پاکستان میں اس کا حل نکالنا بہت ضروری ہے۔ 2012ء میں ایک بڑے اخبار نے پاکستان میں ٹین ایج خودکشیوں میں خطرناک حد تک اضافے کی رپورٹ شائع کی ہے۔ یہ جاننا بھی بہت ضروری ہے کہ معاشی و سماجی بدحالی، بدامنی اور فساد، تعلیمی اور معاشرتی دبائو اور خرابیاں کس طرح مختلف صورتوں میں ذہنی امراض کا باعث بن رہی ہیں۔ 10 سال سے 20 سال تک کے نوجوانوں میں گھبراہٹ اور خوف، مایوسی اور ڈپریشن، منشیات کی لت، غصہ اور تشدد، عدم برداشت، سوشل میڈیا اور ملٹی میڈیا کے استعمال سے نیند میں کمی، بے مقصدیت، فحاشی اور جنسی بے راہ روی، مشاغل کا نہ ہونا، مستقبل اور کیریئر کے حوالے سے غیر یقینی صورت حال، حالات کا مقابلہ کرنے کی قوت اور حکمت عملی کا فقدان جیسے حالات میں ذہنی ونفسیاتی امراض تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ انہوں نے اس کا حل پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں اپنے کمیونٹی کے سپورٹ سسٹم کو بہتر کرنا ہوگا۔ خاندان، اسکولوں اور مقامی معالجین کی سطح پر شعور اور آگاہی کے نظام کو مؤثر بنانا ہوگا۔ ذہنی صحت اور علاج سے متعلق غلط فہمیوں کو دور کرنا ہوگا۔ لائبریریوں، صحت مند اِن ڈور اور آئوٹ ڈور کھیلوں کی سہولیات کی فراہمی اور کھیل کے میدانوں کو آباد کرنا ہوگا۔ یونین کونسل کی حد تک ہمیں نوجوانوں کو ترقی اور فلاحی کاموں میں شریک کرنا ہوگا۔
اس موقع پر دستاویزی فلموں اور مختلف چارٹس کی مدد سے بھی اعداد و شمار پیش کیے گئے۔ پریس کلب کے صدر ملک احمد خان نے کہا کہ ہماری ذمے داری ہے کہ ہم معاشرے کو صحت مند بنانے میں کوئی کسر نہ چھوڑیں۔ ہمیں اپنے قلم اور عمل سے اس جہاد میں حصہ لینا ہوگا۔ تقریب سے معروف کمپیر شکیل احمد خان، ڈاکٹر رضا الرحمن و دیگر نے بھی خطاب کیا۔
الخدمت خواتین کراچی اور پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن کے تحت الخدمت سینٹر پٹیل پاڑہ اور الخدمت ہیڈ آفس میں بھی خواتین کے لیے ’’صحت مند ذہن، صحت مند زندگی‘‘ کے عنوان سے پروگرام منعقد کیے گئے۔ مقررین نے بتایا کہ ذہنی امراض کے حامل افراد کو پاگل نہ کہا جائے، کیونکہ یہ مناسب علاج سے نارمل زندگی گزار سکتے ہیں۔ کراچی نفسیاتی اسپتال میں بھی ڈاکٹر مبین اختر نے ذہنی صحت اور اس کے علاج کی آگاہی کو فروغ دینے کے لیے زور دیا اور کہا کہ صحت مند ذہن ہی صحت مند معاشرہ بنا سکتا ہے۔
عیسیٰ لیبارٹری اور آغوش ٹرسٹ کے زیراہتمام گلشن اقبال میں سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر فوزیہ صدیقی (معروف نیورلوجسٹ اور ماہر امراض مرگی) نے کہا کہ ذہنی امراض کی بڑھتی شرح ہماری انسانیت سے دوری، آئی فون، ٹوئٹر اور فیس بُک سے زیادہ انسیت کی وجہ سے ہے۔ اسلامی ممالک میں ڈپریشن بڑھتا جا رہا ہے، اس کی وجہ قرآن سے دوری ہے، جبکہ اللہ کا ذکر ہی دلوں کو اطمینان دیتا ہے۔ ہمیں انفرادی اور اجتماعی سطح پر ہنگامی بنیادوں پر صحت مند معاشرے کے قیام کے لیے جدوجہد کرنا ہوگی جس کے لیے آگاہی بہت ضروری ہے۔