عمر جاوید
پاپولرازم کی سیاست نے اس وقت دنیا خاص طور پر جمہوری دنیا کو اپنی گرفت میں لیا ہوا ہے، یہاں پر پاپولرازم سے مراد ہے، ایسی سیاست،جس میں مسائل کے حل کے لئے ٹھوس اور قابل عمل پروگرام نہ ہو، بلکہ سستی نعرہ بازی اور انتہائی سادہ اور سطحی انداز میں پیچیدہ مسائل کو حل کرنے کی بات کی جائے۔ نظریات کی سیاست ختم ہوتی جا رہی ہے، اس لئے اس خلا کو اب پاپولر ازم بھر رہا ہے۔ یورپ کو ہی دیکھیں، معاشی مسائل اور بے روزگاری کے باعث ایسی پاپولر جماعتوں کو مقبول ہونے کا موقع مل رہا ہے، جن کے پاس مسائل کا کوئی حقیقی حل نہیں، صرف سطحی نوعیت کے نعرے ہیں، جیسے ’’یورپ کے معاشی مسئلے کا حل یہی ہے کہ تمام تارکین وطن کو باہر نکال دیا جائے‘‘ یا یورپی یونین کو چھوڑ کر صرف اپنے قومی مفاد کا تحفظ کیا جائے وغیرہ وغیرہ۔ برصغیر بھی اس پاپولر سیاست سے محفوظ نہیں۔
پاکستان اور بھارت میں ایسی پاپولر سیاست کو خوب فروغ ملا،جس میں سیاسی جماعتیں یہ دعویٰ کرتی ہیں کہ راتوں رات لوٹی ہوئی دولت واپس لائیں گے، چند دنوں میں ہی ملکی معیشت کے تمام مسائل حل کرکے یہاں پر دودھ اور شہد کی نہریں بہا دی جائیں گی وغیرہ غیرہ۔ پاپولر ازم کی یہ صورت حال اس وقت مزید خطرناک ہو جاتی ہے، جب عالمی سرمایہ داری نظام کے سرخیل اور اس وقت کی سپرپاور امریکہ بھی بری طرح سے پاپولرازم کی زد میں ہو۔ امریکہ میں ٹرمپ جیسے شخص کا صدر ہونا، اسی پاپولر سیاست کا ہی ایک اظہار ہے۔ یہ پاپولر سیاست ہی ہے، جس میں امریکی مسائل کے حل کے لئے ٹھوس پروگرام دینے کی بجائے، میکسیکو کی سرحد پر دیوار تعمیر کرنے کی بات کی گئی، تمام ٖغریب ممالک کے شہریوں کا امریکہ میں داخلہ ممنوع قرار دینے کا نعرہ دیا گیا اور یورپ اور چین کے ساتھ تجارتی معاہدوں کو منسوخ کرنے کو امریکی معیشت کی ترقی سے تعبیر کیا گیا۔
کسی ملک میں پاپولرازم کی سیاست سے دنیا اتنی متاثر نہیں ہوتی،جتنی امریکہ میں پاپولر سیاست کے باعث۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ کے بعض سنجیدہ دانشور اور صحافی بھی نہ صرف اس صورت حال سے پریشان ہیں، بلکہ ٹرمپ کی سیاسی حماقتوں کو دنیا کے سامنے بھی لا رہے ہیں۔معروف امریکی صحافی’’باب ووڈ ورڈ‘‘ کی تازہ ترین کتاب Fear: Trump in the White Houseبھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ باب ووڈورڈ نے ٹرمپ اور اس کے طرز حکومت کو سمجھنے کے لئے ٹرمپ انتظامیہ کے بعض عہدے داروں کے ساتھ کئی گھنٹوں پر محیط انٹرویوز کئے۔کتاب کے پبلشر Simon & Schuster کے مطابق اس کتاب کے شائع ہونے کے ایک ہفتے کے اندر ہی اس کی 11لاکھ کاپیاں فروخت ہوئیں۔ رچرڈ نکسن کے دور میں ’’واٹر گیٹ‘‘ سکینڈل کو بے نقاب کرنے والے صحافی باب ووڈ ورڈ کا شمار امریکہ کے انتہائی قابل احترام اور مستند صحافیوں میں کیا جاتا ہے۔
باب ووڈ ورڈ نے اس سے پہلے بل کلنٹن، جارج ڈبلیو بش اور بارک اوبامہ کے ادوار کے بارے میں بھی انتہائی دلچسپ کتابیں لکھیں، جن کو پڑھ کر لگتا ہے کہ پڑھنے والا خود امریکی وائٹ ہاؤس میں موجود ہے اور امریکی سیاست کے رازوں کو اپنی آنکھوں سے بے نقاب ہوتے دیکھ رہا ہے: اب ٹرمپ کے حوالے سے بھی باب ووڈ ورڈ کی یہ کتاب بہت کچھ بتاتی ہے، جہاں تک اس کتاب کے عنوان کا تعلق ہے تو باب ووڈ ورڈ کے مطابق ٹرمپ نے ووڈ ورڈ کو 2016ء میں خود بتایا کہ ’’خوف ہی اصل طاقت ہوتی ہے‘‘۔
اس کتاب سے معلوم ہوتا ہے کہ کیسے ٹرمپ کے بعض عہدے دار ٹرمپ کی غیر موجودگی میں اس کے ڈیسک (میز) سے کئی اہم کاغذات اور دستاویزات کو غائب کر دیتے ہیں، تاکہ ٹرمپ ان پر دستخط نہ کر سکے۔ وائٹ ہاؤس کے ’’چیف آف سٹاف‘‘ جان ایف کیلی کے مطابق ٹرمپ ایک ’’احمق‘‘ اور ’’بد دماغ‘‘ شخص ہے، جبکہ سیکرٹری آف ڈیفنس جیمز میٹس کے مطابق ٹرمپ کی سمجھ بوجھ اتنی ہی ہے جتنی پانچویں یا چھٹی جماعت کے کسی طالب علم کی ہوتی ہے۔ ٹرمپ کے سابق وکیل جان ایم ڈاڈ کے مطابق ٹرمپ ایک جھوٹا انسان ہے۔ بعض دلچسپ بلکہ اندر کے بھی کئی واقعات سامنے آتے ہیں، جیسے 2016ء کی انتخابی مہم کے دوران ٹرمپ کی غیر اخلاقی گفتگو کی ٹیپ منظر عام پر آگئی تو ٹرمپ کی ٹیم نے مشورہ دیا کہ اپنی بیوی ملینا کے ساتھ ٹی وی کے سامنے قوم سے معافی مانگ لے، مگر اس موقع پر ٹرمپ کی بیوی ملینا کو ٹرمپ پر اتنا شدید غصہ تھا کہ وہ کسی بھی طور اس سے بات کے لئے راضی نہیں ہو رہی تھی۔ صدر بننے کے بعد جیسے ہی ٹرمپ کواطلاع ملی کہ شام میں صدر بشار الاسد نے کیمیائی ہتھیاروں سے حملہ کر دیا ہے تو ٹرمپ نے فورا سیکرٹری آف ڈیفنس جیمز میٹس کو کال کیا اور کہا کہ بشارالاسد کو فوراً ہلاک کر دو، بلکہ اس جیسے تمام لوگوں کو ہلاک کردو۔
میٹس، امریکی صدر کی یہ بات سن کر شدید حیران ہوا اور اس کو بتانا پڑا کہ کسی ملک کے سربراہ کو یوں ہلاک نہیں کیا جاسکتا۔ ٹرمپ کے شمالی کوریا کے ساتھ تعلقات کے بارے میں بھی اہم معلومات کو پیش کیا گیا ہے، جیسے 2018ء کے آغاز میں ٹرمپ اس بات کی حمایت کر رہا تھا کہ شمالی کوریا کو سبق سکھانے کے لئے اس کے خلاف کوئی کارروائی کی جائے، مگر اس کے عہدے دار اس کو باز رکھ رہے تھے۔ باب ووڈ ورڈکے مطابق اس وقت ٹرمپ ایک ٹویٹ کے ذریعے یہ حکم جاری کرنے والے تھے کہ جنوبی کوریا سے امریکی افواج نکل جائیں۔ یہ اس بات کا واضح عندیہ تھا کہ امریکہ، شمالی کوریا کے خلاف جنگ کرنا چاہتا ہے اور اس سے جنوبی کوریا میں بھی جنگ چھڑنے کے پیش نظر اپنی فوج کو وہاں سے نکلنے کے لئے کہہ رہا ہے۔
باب ووڈورڈ کی یہ کتاب مائیکل وولف کی ٹرمپ کے حوالے سے اسی سال شائع ہونے والی کتاب Fire and Fury کی طرح ہلکی پھلکی اور طنز پر مبنی نہیں ہے، بلکہ ایک سنجیدہ کتاب ہے۔ اس کتاب کو پڑھ کر محسوس ہوتا ہے کہ باب ووڈ ورڈ نے ترتیب کا خیال نہیں رکھا۔ جیسے ہم پڑھ رہے ہیں کہ کیسے ٹرمپ کے سابق چیف اسٹریٹجسٹ سٹیو بینن نے ٹرمپ کی بیٹی ایوانکا ٹرمپ کو جھاڑ پلا تے ہو ئے کہا کہ ’’تم وائٹ ہاؤس میں صرف ایک عہدے دار (ٹرمپ کی مشیر) ہو اور کچھ بھی نہیں‘‘۔ اس پر ایوانکا نے غصے سے کہا کہ میں ’’صدر کی بیٹی ہوں اور سٹاف کی عہدے دار نہیں‘‘۔ ووڈ ورڈ اس بات کے ساتھ ہی ٹرمپ کی معاشی پالیسی پر تبصرہ شروع کر دیتا ہے یا ایسی ہلکی پھلکی باتوں کے فوراً بعد ٹرمپ کی مشرق وسطیٰ کی پالیسی پر بات کرنا شروع کر دیتا ہے۔
تاہم اس کے باوجود اس کتاب کے مطالعے سے واضح طور پر ایک ایسے شخص کی تصویر ابھر کر سامنے آتی ہے، جو کسی بھی صورت میں امریکہ جیسے ملک کا صدر بننے کے قابل نہیں ہے۔کتاب سے واضح ہوتا ہے، امریکہ پر ایک ایسے شخص کی حکومت ہے، جو نہ امریکی معیشت کو جانتا ہے اور نہ ہی اسے خارجہ پالیسی کے بارے میں کچھ پتہ ہے۔ ٹرمپ ایک ایسا شخص ہے جو دماغ سے نہیں سوچتا، جھوٹ بولتا ہے، مختلف ایشوز پر ہر روز اپنا ذہن بدلتا ہے اور اپنے سٹاف سے بھی انتہائی بدتمیزی کرتا ہے۔امریکی صحافی باب ووڈ ورڈ کے قلم میں اتنی طاقت ہے کہ انہوں نے 1974ء میں ’’ واٹر گیٹ‘‘ اسکینڈل کو بے نقاب کیا، اسی اسکینڈل کے باعث امریکی صدر رچرڈنکسن کو استعفیٰ دینا پڑا تھا۔ ٹرمپ کی پالیسیاں تو نہ صرف امریکہ بلکہ پوری دنیا کے لئے نکسن کی پالیسیوں سے بھی زیادہ خطرناک ہیں۔ کیا ہم یہ تصور کرسکتے ہیں کہ باب ووڈ ورڈکے قلم کا جادو پھر اپنا کام دکھائے گا اور امریکہ کے ساتھ ساتھ دنیا کو بھی ٹرمپ جیسے شخص سے نجات ملے گی۔