امریکہ نے بالآخر افغان طالبان سے براہِ راست مذاکرات کے عمل کو آگے بڑھانا شروع کردیا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے افغان نژاد امریکی شہری زلمے خلیل زاد کو افغان امور کے لیے اپنا نمائندۂ خصوصی مقرر کیا ہے۔ زلمے خلیل زاد اس سے قبل بھی افغانستان کے لیے امریکی حکومت کے خصوصی ایلچی رہ چکے ہیں۔ زلمے خلیل زاد کی سربراہی میں سات رکنی امریکی وفد نے طالبان کے نمائندوں سے عمومی اور غیر رسمی مذاکرات کیے ہیں۔ یہ مذاکرات قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ہوئے ہیں جہاں طالبان کا سیاسی دفتر قائم ہے۔ اب تک امریکی حکومت کا مؤقف یہ تھا کہ طالبان کابل حکومت سے مذاکرات کریں، جبکہ طالبان افغانستان میں جنگ کے خاتمے کے لیے کٹھ پتلی حکومت سے مذاکرات کے بجائے براہِ راست مذاکرات کی بات کررہے تھے اور اسی مقصد کے لیے سفارت کاری کے میدان میں کام کرنے کے لیے قطر میں طالبان کا سیاسی دفتر قائم کیا گیا تھا۔ امریکی حکومت کا پاکستان کے اوپر بھی یہی دباؤ تھا کہ پاکستان طالبان کو مذاکرات کی میز پر بیٹھنے پر مجبور کرے، جس کا صرف ایک مطلب ہے اور وہ یہ کہ طالبان بالآخر ہتھیار ڈالنے پر آمادہ ہوجائیں۔ افغان طالبان اس امر پر تیار نہیں ہوتے۔
امریکی قبضے کے خلاف طویل ترین جنگ کے دوران امارتِ اسلامیہ افغانستان کے امیر مُلاّ محمد عمر ایک اسپتال میں انتقال کرگئے۔ افغان طالبان کی مزاحمت اپنے امیر کی موت کے باوجود جاری رہی اور وہ ایک طویل عرصے تک اپنے قائد کی موت سے دنیا کو بے خبر رکھنے میں کامیاب رہے۔ دنیا کی سب سے بڑی جنگی قوت و طاقت کے خلاف افغان طالبان کی مزاحمت جاری رہی۔ امریکہ نے مُلاّ عمر کے جانشین امیر کو بھی ڈرون حملے میں شہید کردیا، اس کے باوجود بھی افغان مجاہدین کی مزاحمت میں کسی قسم کا فرق نہیں پڑا۔
یہ پورا دور اس خطے میں عالمی کش مکش کا دور ہے جس کا تعلق افغانستان پر امریکی قبضے اور اس کے عالمی عزائم سے ہے۔ افغان مجاہدین نے جس طرح امریکہ اور اس کے چالیس ملکی اتحاد نیٹو کی فوجوں کی مزاحمت کی ہے وہ انسانی تاریخ کا غیر معمولی باب ہے۔ عالمی ذرائع ابلاغ کیونکہ امریکی قیادت میں تہذیبِ مغرب اور سرمایہ دارانہ استحصالی نظام کی غارت گر فوج کا ایک حصہ ہیں، اس لیے افغانستان کے مجاہدین کی غیر معمولی مزاحمت کی وقائع نگاری نہیں کی گئی۔ ذرائع ابلاغ کی چکاچوند روشنی کے باوجود اصل حقائق پر پردہ پڑا ہوا ہے۔ اس کے باوجود تیز رفتار واقعات اصل حقیقت کو عیاں کردیتے ہیں۔ قطر مشرقِ وسطیٰ میں امریکی فوجی مرکز کے ساتھ ساتھ عالمی سیاست اور اقتصادی سرگرمیوں کا مرکز بھی ہے۔ اسی پس منظر میں قطر کے دارالحکومت دوحہ میں افغان طالبان کے سیاسی دفتر کو قائم کرنے کی اجازت کا صاف مطلب یہ تھا کہ افغانستان امریکہ کی جنگی قوت و طاقت کی ناکامی کا مرکز بن چکا ہے۔ اس حقیقت پر امریکہ اپنی اقتصادی، ٹیکنالوجیکل اور جنگی طاقت کے بل پر اب تک پردہ ڈالے ہوئے ہے۔ افغانستان میں امریکہ کو شکست ہوچکی ہے لیکن وہ سفارت کاری کے پروپیگنڈے اور دیگر اقدامات کے ذریعے اس کو عیاں ہونے سے روکنے کی پوری کوشش کررہا ہے۔ اس کوشش میں بھی وہ ناکام ہے۔ امریکی وفد اور طالبان کے درمیان مذاکرات کی جو خبر عالمی ذرائع ابلاغ نے جاری کی ہے اُس نے اس حقیقت کو بے نقاب کردیاہے کہ افغانستان میں امریکہ شکست کھا چکا ہے اور وہ صرف اس بات کی کوشش کررہا ہے کہ فوجی انخلا کا باعزت راستہ تلاش کرلے۔ یہ کام آسان نہیں ہے۔ قطر میں قائم بین الاقوامی ذریعہ ابلاغ ’الجزیرہ‘ کے مطابق امریکہ طالبان سے مذاکرات کے دوران افغانستان سے اپنی فوج کے انخلا پر آمادہ ہوگیا ہے۔ الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق زلمے خلیل زاد کی سربراہی میں آنے والے امریکی وفد سے مذاکرات کرنے والے طالبان کے ایک نمائندے نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ مذاکرات کے دوران امریکی فوج کی افغانستان سے واپسی سمیت تمام مسائل کے حل پر اتفاق کیا گیا ہے۔ ان مذاکرات کو آئندہ جاری رکھنے پر بھی اتفاق کیا گیا ہے۔ اس خبر کے ظاہر ہونے کے بعد پاکستان میں قائم امریکی سفارت خانے سے رابطہ کیا گیا تو جواب میں نہ تصدیق کی گئی اور نہ تردید کی گئی بلکہ لاعلمی کا اظہار کیا گیا ہے۔ ابھی تک افغان طالبان اس مؤقف پر قائم ہیں کہ وہ افغانستان کی ایک انچ سرزمین پر بھی غیر ملکی فوجی قبضے کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ امریکہ بالآخر اپنی شرائط سے دست بردار ہوکر طالبان کے ساتھ مذاکرات کے لیے تیار ہوگیا ہے۔ اس سے پہلے اس کا مؤقف یہ تھا کہ طالبان کابل حکومت سے مذاکرات کریں۔ حالانکہ دنیا اس بات سے واقف ہے کہ کابل حکومت امریکی فوج کے بغیر ایک دن بھی قائم نہیں رہ سکتی۔ امریکی فوجی قبضے کے باوجود 70 فیصد افغانستان پر طالبان کا کنٹرول ہے اور اس کی تصدیق امریکی رپورٹوں نے کی ہے۔ افغانستان پر قبضے کی امریکی جنگ 17 برس پر محیط ہوچکی ہے اور امریکہ اس جنگ میں اپنی کامیابی کا اعلان نہیں کرسکا۔ ایک صدی میں امریکہ تیسری سپر پاور ہے جسے افغانوں کی قوتِ مزاحمت نے شکست دی ہے۔ اس جنگ نے عالمی سیاست کا نقشہ تبدیل کردیا ہے۔ دنیا کے امن اور آزادی کو امریکی بالادستی سے خطرہ لاحق ہوچکا ہے۔ سوویت یونین کا انہدام جو افغان جنگ کی وجہ سے ہوا تھا، امریکہ نے اسے اپنی فتح قرار دیا۔ اس نے ’’نیوورلڈ آرڈر‘‘ کے نام سے یک قطبی سامراجیت کا اعلان کیا۔ اسی تکبر کی وجہ سے عراق اور افغانستان پر قبضہ کیا، دہشت گردی کے خاتمے کے نام پر اسلام اور عالم اسلام کے خلاف جنگ چھیڑی، نائن الیون کے حقائق اور اس کے اصل ذمے داروں پر پردہ ڈالا، عراق میں وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی جھوٹی رپورٹ جاری کی جس کا اعتراف سابق برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر نے کرلیا ہے۔ عراق پر قبضے کے نتیجے میں عراق تو تباہ ہوا، ساتھ ہی یہ تباہی شام تک پھیل گئی اور کئی مسلمان ممالک امریکہ اور سرمایہ دارانہ ممالک کی ہوسِ ملک گیری اور وسائلِ دولت پر قبضے کی حرص کا شکار ہوگئے۔ لیکن اس دوران تمام مظلوم قوموں کی جانب سے افغان مجاہدین نے مزاحمت کی ہے اور امریکہ اور تہذیبِ مغرب کو شکست دی ہے، اور یہ پیغام دیا ہے کہ