قوم کتنی مقروض ہے یہ سب کو معلوم ہے، لیکن ہم پر قارئین کا قرض چڑھا ہوا ہے اور ہم تو کسی بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے پاس بھی نہیں جاسکتے کہ یہ مکڑی کا ایسا جالا ہے جس میں کمزور پھنس جاتا اور طاقت ور اسے توڑ ڈالتا ہے، چنانچہ اپنا قرض آپ ہی اتارتے ہیں۔
اسلام آباد سے عبدالخالق بٹ کی رگِ ظرافت ’’ہاتھوں سے پائمال‘‘ پڑھ کر پھڑک اٹھی، چنانچہ انہوں نے بھی ردا جمایا ہے، لکھتے ہیں کہ ’’ہاتھوں سے پائمال پڑھ کر صورتِ حال کو تصور میں لائے تو ایک پل کے لیے دل دہل گیا اور ٹرانسپلانٹ کے عمل سے گزرنے والے عجیب الخلقت (خ بالکسر) شاعر کا ہیولا نمودار ہوا، جس کے ہاتھ اس کے پائوں کی جگہ لگے تھے اور وہ ان ہاتھوں سے خواب پائمال کررہا تھا۔ پائمال کے اس مضحکہ خیز استعمال سے ذہن ’’پابند‘‘ کی طرف منتقل ہوگیا جس کے لفظی معنی پائوں باندھنا ہیں۔ اسی سے پابندی بھی ہے جو متعدد ایسے کاموں پر عاید کی جاتی ہے جن کا بظاہر پائوں سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ ’’بولنے‘‘ ہی کو لے لیں، بھلا کوئی پائوں سے بھی بولتا ہے کہ اسے پابند کیا جائے! ساحر لدھیانوی کا شعر ہے:
لب پہ پابندی تو ہے احساس پہ پہرا تو ہے
پھر بھی اہلِ دل کو احوالِ بشر کہنا تو ہے
پابستہ لب کا تصور کریں تو ایک ہی لمحے میں ذوقِ جمال اور صنفِ لطیف دونوں بری طرح مجروح ہوجائیں گے۔ تاہم پابند اور پابندی کا استعمال اب اصطلاحی معنوں میں ہوتا ہے۔ پائمال کی بہ نسبت ’پابند‘ اساتذہ سے سند پا کر فصیح ہوچکا ہے۔ پابند اور پابندی کے حوالے سے چند شعر ملاحظہ کریں۔ مشہور شاعر پنڈت دیاشنکر نسیم (مثوی گلزارِنسیم والے) کہتے ہیں:
پابند وفا وہ مبتلا تھا
کب اس کو خیال بند پا تھا
اس شعر میں پابند اور بند پا کا خوبصورت استعمال کیا گیا ہے۔ عبدالباری آسی کا شعر ہے:
عشق پابندِ وفا ہے نہ کہ پابندِ رسوم
سر جھکانے کو نہیں کہتے ہیں سجدہ کرنا
اور حبیب جالب یہ کہتے ہوئے چلے گئے:
بولنے پہ پابندی، سوچنے پہ تعزیریں
پائوں میں غلامی کی، آج بھی ہیں زنجیریں
ان اشعار میں وفا، عشق، رسوم، زبان سب کے پائوں بندھے ہوئے ہیں۔ چوں کہ معاملہ اصطلاحی ہے اس لیے اچنبھا نہیں ہوتا۔‘‘
’پابند‘ فارسی کا لفظ ہے اور اس کا ایک مطلب ہے وہ رسّی جس سے گھوڑے کے پچھلے پائوں باندھتے ہیں۔ پا مرکبات میں پائندہ کا مخفف ہے جیسے دیرپا۔ علامہ اقبالؒ نے بھی پابند استعمال کیا ہے:
نالہ پابندِ نَے نہیں ہے
فریاد کی کوئی لے نہیں ہے
نالہ کو کچھ لوگ نالا بھی لکھ دیتے ہیں جس کا مطلب ہے چھوٹی نہر، ازار بند (ناڑا بھی کہتے ہیں)۔
ابوجہل کا نام عمر بن ہشام لکھنے پر (28 ستمبر) عبدالخالق بٹ سمیت کئی لوگوں نے خبر لی ہے۔ مفتی منیب الرحمن صاحب نے تفصیل سے علمی گفتگو کی ہے۔ عبدالخالق بٹ نے عمرو بن ہشام کی کنیت ابوجہل پر بھی بات کی ہے کہ ابوالحکم کی طرح ابوجہل بھی اس کی کنیت تھی۔ بظاہر دونوں متضاد کیفیتیں ہیں، لیکن عرب اپنے مخصوص ماحول اور مزاج کے مطابق نام اور کنیت رکھتے اور اس پر فخر کرتے تھے۔ ابوجہل کبر، نخوت، انانیت اور احساسِ تفاخر میں اوروں سے بڑھا ہوا تھا اور خود کو ابوجہل کہلواتا تھا۔ مولانا ابوالجلال ندوی کے مطابق ابوجہل کا لقب اسلامی تصور کے مطابق برے معنی کا متحمل ہے، لیکن عربی تصور کے مطابق یہ قابلِ فخر لقب تھا کیونکہ جہل کے معنی تھے برے نتائج کی پروا کیے بغیر اپنے عزم پر قائم رہنا۔ قرآن عذابِ آخرت سے ڈراتا ہے، ابوجہل اس سے نہیں ڈرتا تھا۔ ایام جاہلیت میں اپنے آپ کو ظالم، جاہل، سارق، یہاں تک کہ دجال نام والے بھی ملیں گے۔ علامہ اقبالؒ نے ’جاوید نامہ‘ میں ’’نوحہ روح ابوجہل در حرم کعبہ‘‘ کے زیر عنوان اس کی نفسیاتی کیفیت کا اظہار خود اس کے الفاظ میں کیا ہے۔ یہ پوری نظم قابلِ مطالعہ ہے۔
عَمروبن ہشام کے سہوکی گونج لندن تک سنائی دی ہے، چنانچہ ایک بڑے علمی خاندان سے تعلق رکھنے والے محترم رضوان احمد فلاحی نے بھی متوجہ کیا ہے کہ ابوجہل کا نام عمرو (ع پر زبر، میم اور را ساکن، آخر کا وائو لکھا جائے گا لیکن پڑھا نہیں جائے گا) تھا۔ بعض حضرات ناواقفیت کی بنا پر عمرو کو ابرو کے وزن پر پڑھتے ہیں۔ رضوان صاحب کا شکریہ کہ انہوں نے بھی سمندر پار سے نشاندہی کی ہے۔
ہمارے کرم فرما محفوظ احمد رحمانی کو شکوہ ہے کہ ان کے خطوط یا تو ہمیں ملے نہیں یا نظرانداز کردیے گئے۔ ان کے دونوں خدشات غلط ہیں۔ ان کو اس کالم کے عنوان کے بارے میں پریشانی ہے کہ اس میں ’لیجے‘ ہے یا ’لیجیے‘ (دو ’ی‘ کے ساتھ)۔ اب انہوں نے تازہ شمارے (12 تا 18 اکتوبر) کے حوالے سے دریافت کیا ہے کہ صفحہ 47 پر حضرت مفتی منیب الرحمن کے مضمون کے عنوان میں ’’خبر لیجیے زباں بگڑی‘‘ چھپا ہے، جب کہ آپ کے مضمون میں ’’خبر لیجے‘‘ ہے۔ دونوں میں سے کون سا صحیح ہے؟ حضرت! اتنا تردد کرنے کی کیا ضرورت تھی! مفتی صاحب کے مضمون کے آغاز میں خواجہ حیدر علی آتش کا شعر ہے جس کا مصرع ہے ’’زباں بگڑی تو بگڑی تھی، خبر لیجے دہن بگڑا‘‘۔ یہ مستقل عنوان ہے، اس سے ہمارا کچھ لینا دینا نہیں۔ جو صاحب بھی پیج میکنگ کرتے یا کرواتے ہیں یہ ان کی صوابدید ہے۔ دو طرح کی لوحیں بنوا رکھی ہیں اور تبدیلی لانے کے لیے کوئی سی لگادی جاتی ہے۔ آخر تبدیلی تو آنی چاہیے، یہی آج کل کا قومی نعرہ ہے۔ برسبیل تذکرہ دہن منہ چڑانے سے بگڑتا ہے، منہ چڑھانے سے نہیں۔ محفوظ احمد رحمانی نے پاکستان کے پرچم پر زوال پزیر چاند کی بات بھی اٹھائی ہے کہ فرائیڈے اسپیشل میں بھی ہر صفحے پر الٹا چاند نظر آیا حالانکہ جماعت کے جھنڈے پر اور جمعیت کے مونو گرام اور مجلسِ عمل کے پرچم، ہمارے سکوں اور اسٹامپ پیپر پر ہر جگہ درست بنے ہیں، پتہ (پتا) نہیں کیوں زوال پذیر ہونے کو جی چاہ رہا ہے۔ حضرت، جی چاہنے سے کیا ہوتا ہے، اسے سمجھائیں۔ خدا کرے کہ پاکستان زوال سے نکل آئے، ورنہ بڑا کٹھن وقت آلگا ہے۔ پاکستان کے پرچم پر الٹا چاند تو ٹھیک نہیں ہوسکتا، اسی کو غلط العام جان کر فصیح سمجھ لیجے۔ انہوں نے سنڈے میگزین میں شائع ہونے والے لفظ ’’ششکے‘‘ کے بارے میں پوچھا ہے کہ یہ کیا ہے؟ یہ اردو کا لفظ تو نہیں لیکن اب آگیا ہے تو آپ بھی ششکے لے لیں۔ آخر ’’لشکے‘‘ بھی تو ہے۔ لغت میں ایک لفظ ’’ششکار‘‘ اور ششکاری ملتا ہے۔ یعنی کتے کو شکار پر دوڑانے کی آواز۔ عوام کی زبان میں اسے ہُشکارنا کہتے ہیں۔ اسی طرح ایک لفظ ’’جگاڑ‘‘ بھی اردو میں آگیا ہے جو محض عوام کی زبان پر ہے اور بڑے وسیع معنی رکھتا ہے۔ پاکستانی قوم جگاڑ میں ماہر ہے۔ اس پر پھر کبھی مزید روشنی ڈالنے کی جگاڑ کریں گے۔ غزالی اکیڈمی میرپور خاص کے محترم امیر الدین مہر کے محبت نامے کا جواب ادھار رہا۔
چلتے چلتے ایک قاری کا ذکر، لکھتے ہیں کہ آپ نے اسٹریٹ کرمنل کا ترجمہ رہزن کیا ہے۔ لیکن اس کے لیے ایک اور لفظ ’’بٹ مار‘‘ بھی آتا ہے۔ ایک استاد کا شعر ہے:
مورکھ اور بٹ مار ہے دنیا
جھوٹوں کا بازار ہے دنیا
یاد رہے کہ بٹ مار کا کوئی تعلق بٹ برادری سے نہیں۔