۔443 سال قدیم شہر’الٰہ آباد‘ کا نام تبدیل کرنے کا ارادہ

Akhbar Nama اخبار نامہ
Akhbar Nama اخبار نامہ

بھارت نے مسلمانوں کی شناخت مٹانے کا ایک اور اقدام کرتے ہوئے تاریخی حیثیت کے حامل ریاست اترپردیش کے شہر ’الٰہ آباد‘ کا پرانا اور مسلم نام تبدیل کرنے کا ارادہ ظاہر کردیا ہے۔ موجودہ الٰہ آباد شہر مغل بادشاہ جلال الدین محمد اکبر نے 1574ء میں بسایا تھا۔ بھارتیہ جنتا پارٹی سے تعلق رکھنے والے ہندو انتہا پسند وزیراعلیٰ یوگی ادتیہ ناتھ کا کہنا ہے کہ الٰہ آباد کا نام تبدیل کرکے پرایاگ راج رکھیں گے۔ بھارتی میڈیا کے مطابق ریاستی وزیراعلیٰ کمبھ کے میلے سے پہلے الٰہ آباد کا نام تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔ ہندوؤں کے مقدس ترین دریاؤں کے سنگم پر واقع اس شہر میں ہر برس میلے لگتے ہیں۔ ہر بارہ برس پر مہاکمبھ کا انقعاد ہوتا ہے جسے دنیا میں کسی ایک مقام پر انسانوں کا سب سے بڑا اجتماع بتایا جاتا ہے۔ الٰہ آباد شہر گنگا جمنا کے سنگم پر واقع ہے، جس کی تاریخ 443 سال پرانی ہے۔ اس شہر نے برصغیر کی جنگوں اور بعد ازاں آزادی میں اہم کردار ادا کیا۔ وزیراعلیٰ یوگی ادتیہ ناتھ کے نام بدلنے کے اعلان پر اپوزیشن جماعت کانگریس نے شدید احتجاج کیا ہے۔ ریاستی کانگریس کے ترجمان اونکار ناتھ سنگھ کا کہنا ہے کہ یوگی ادتیہ ناتھ کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ پریاگ راج کا وجود تو پہلے سے ہی ہے۔ کمبھ کا انعقاد پریاگ کے علاقے میں ہی ہوتا ہے۔ یہ علاقہ تقریباً 20 سے 22 کلومیٹر میں پھیلا ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پریاگ ریلوے اسٹیشن پہلے سے ہی ہے۔ حکومت پریاگ راج کا اعلان کرنا چاہتی ہے تو پھر جس طرح سے الٰہ آباد کے کچھ حصوں کو الگ کرکے کوشامبی بنایا گیا ہے اسی طرح سے کچھ حصے کو الگ کرکے پریاگ کو ایک ضلع بنایا جا سکتا ہے، لیکن الٰہ آباد کے نام کو ختم کرنا تحریک آزادی کی تاریخ کے ساتھ کھلواڑ کرنے جیسا ہے جسے ریاست اور ملک کے عوام قبول نہیں کریں گے۔ سنگھ نے کہا کہ اگر الٰہ آباد کا نام پریاگ رکھا جاتا ہے تو الٰہ آباد یونیورسٹی کا نام بھی پریاگ یونیورسٹی ہوگا۔ ایسی صورت میں عالمی شہرت یافتہ یونیورسٹی اپنی شناخت کھو دے گی اور وہاں کے فارغین کو ویسا احترام نہیں مل پائے گا جو الٰہ آباد یونیورسٹی کے نام سے ملتا تھا۔ انہوں نے کہا کہ الٰہ آباد کا امرود مشہور ہے اور الٰہ آبادی امرود کے نام سے باہر کے بازاروں میں فروخت کیا جاتا ہے، ایسے میں جب الٰہ آباد ہی نہیں رہے گا تو اس کا برانڈ تو متاثر ہوگا ہی، اور وزیراعلیٰ کی ون انڈسٹرون پروڈکٹ کی اسکیم بھی اس سے متاثر ہوگی، اتنا ہی نہیں ایسی تمام چیزیں ہیں جن کے لیے خاصی دقتیں پیدا ہوں گی۔

۔12 اکتوبر کی یادیں

کراچی کے ٹی وی اسٹیشن پر اس کی میزبانی کے لیے پہنچا، تو اسکرین پر یہ خبر چلتی نظر آئی کہ وزیراعظم نوازشریف نے جنرل پرویزمشرف کو برطرف کرکے جنرل ضیاء الدین کو نیا آرمی چیف مقرر کردیا ہے۔ ہم نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا، بات سمجھ میں نہیں آرہی تھی، اگرچہ جنرل مشرف جگہ جگہ تندو تیز باتوں سے اشارے کررہے تھے۔ وہ کراچی بھی آئے تھے اور ہم لوگوں سے ایسی باتیں کی تھیں کہ یقین نہیں آتا تھا ایک حاضر سروس آرمی چیف اس طرح کی سیاسی باتیں کرسکتا ہے۔ اسلام آباد سے بھی اطلاعات آرہی تھیں کہ کچھ ہونے والا ہے۔ دارالحکومت بڑی پُرتیقن اور پُراعتماد افواہوں سے گرم تھا۔ ریکارڈنگ تو بہرحال ہونا تھی اور وہ ملک کی معاشی صورت حال کے بارے میں تھی۔ ریکارڈنگ ختم ہوئی تو اس سے پہلے کہ مائیک اتارتا، اطہر وقار عظیم پینل سے سیدھے میری طرف آئے اور آہستہ سے کہا ’’اسلام آباد ٹی وی پر فوج آچکی ہے اور فوج نے سینٹر پر پوری طرح قبضہ کرلیا ہے، میں جارہا ہوں‘‘۔ یہ کہہ کر وہ جنرل منیجر کے کمرے کی طرف چلے گئے۔ اس پروگرام کے دو کردار مجھے یاد ہیں، ایک اعجاز شفیع جو یہاں سے واپسی پر گرفتار کرلیے گئے، اور دوسرے صبیح الدین غوثی۔ نظریاتی اختلاف کے باوجود غوثی سے میرا بڑا تعلق تھا۔ وہ اقتصادی امور کے ایک منجھے ہوئے صحافی تھے اور ٹریڈ یونین سرگرمیوں میں بڑے سرگرم تھے۔ میں نے یہ خبر اُن کو بتائی اور سیدھے اوپر کرنٹ افیئر کے کمرے میں جا بیٹھا۔ وہیں سے دفتر فون کیا۔ میں اُن دنوں نوائے وقت کراچی کا ایڈیٹر تھا۔ اپنے چیف رپورٹر کے بارے میں پوچھا۔ معلوم ہوا وہ ایئرپورٹ جا چکا ہے، کیونکہ وہاں جنرل مشرف کا طیارہ کسی وقت لینڈ کرسکتا ہے۔ خبر کی کڑیاں ملتی جا رہی تھیں اور ہمارا صحافتی اشتیاق بڑھتا جا رہا تھا۔ غوثی بھی اپنے دفتر سے رابطے میں مصروف تھا۔ اتنے میں خبر آئی کہ فوج کراچی سینٹر پر بھی آچکی ہے اور اب ہم سب فوج کی ’’تحویل‘‘ میں ہیں۔ نیچے اترے تو ایک فوجی کرنل کو جنرل منیجر کے آفس کے باہر مستعد پایا۔ ظہیر خاں نے ہمارا تعارف کرایا اور بتایا کہ یہ پروگرام میں شرکت کے لیے آئے تھے، انہیں تو جانے دیا جائے۔ کرنل صاحب جن کا نام غالباً محمد خان تھا، بڑے بھلے آدمی تھے۔ کہنے لگے: مجھے پانچ منٹ دیجیے۔ ظاہر ہے نئی صورت حال تھی۔ اتنے میں وہ ہماری موجودگی میں ٹی وی کے افسران کو یہ ہدایت جاری کرتے رہے کہ اسٹوڈیو تیار کیجیے۔ شاید یہاں سے ایک وی آئی پی تقریر نشر کرنا پڑے۔ صاف ظاہر تھا کہ جنرل مشرف وطن واپسی پر یہاں سے ’’میرے عزیز ہم وطنو‘‘ والی تقریر کریں گے۔ پانچ منٹ بعد ہمیں جانے کی اجازت دے دی گئی، مگر اس ہدایت کے ساتھ کہ ہم فوج کی نقل و حرکت کا تذکرہ کسی سے نہیں کریں گے۔ باہر نکل کر دیکھا تو میری گاڑی فوجی ٹرکوں کے درمیان کھڑی تھی۔ کیسے نکلی، یہ الگ کہانی ہے۔ جب گیٹ پر پہنچے تو وہاں موجود محافظوں نے باہر جانے کی اجازت دینے سے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ ہمیں ہدایت نہیں۔ اتنے میں میری اہلیہ کا فون آیا، پوچھا: کہاں ہو؟ بتایا: ٹی وی اسٹیشن پر۔ کہنے لگیں: وہاں تو فوج آگئی ہے۔ پوچھا: آپ کو کیسے معلوم ہوا؟ کیونکہ ہمیں تو فوج کی نقل و حرکت خفیہ رکھنے کی ہدایت دی گئی تھی۔ کہنے لگیں: بی بی سی پر آرہا ہے۔ یہ کہانی میں نے اس لیے بیان کی ہے کہ ان دنوں کہیں میں نے 12اکتوبر کے حوالے سے ’’چشم دید احوال‘‘ پڑھا ہے۔ ہم تاریخ کو جن آنکھوں سے دیکھتے ہیں، ان کا تاثر کبھی زائل نہیں ہوتا۔ میں ان دو چار گھنٹوں میں جس کیفیت سے گزرا، اس سے کچھ ایسا احساس پیدا ہوا کہ نوازشریف نے سیاسی خودکشی کی ہے۔ یہ بھی کوئی بات ہے کہ ملک کا سربراہ اپنے سپہ سالار کو برطرف کرے اور یہ اندازہ نہ کرسکے کہ جواب میں بغاوت بھی ہوسکتی ہے۔
(سجاد میر۔ روزنامہ 92 نیوز۔ 17اکتوبر2018ء)