تقدیر کا مفہوم:
انسان کی تقدیر کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
(ترجمہ)”اللہ نے اسے پیدا کیا، پھر اس کی تقدیر مقرر کی۔“(عبس 80:19)
یعنی یہ ابھی ماں کے پیٹ ہی میں بن رہا تھا کہ اس کی تقدیر طے کردی گئی۔ اس کی جنس کیا ہوگی، اس کا رنگ کیا ہوگا، اس کا قد کتنا ہوگا، اس کی جسامت کیسی اور کس قدر ہوگی، اس کے اعضا کس حد تک صحیح و سالم اور کس حد تک ناقص ہوں گے، اس کی شکل و صورت اور آواز کیسی ہوگی، اس کے جسم کی طاقت کتنی ہوگی، اس کے ذہن کی صلاحيتیں کیا ہوں گی، کس سرزمین، کس خاندان، کن حالات اور کس ماحول میں یہ پیدا ہوگا، پرورش اور تربیت پائے گا اور کیا بن کر اٹھے گا، اس کی شخصیت کی تعمیر میں موروثی اثرات، ماحول کے اثرات اور اس کی اپنی خودی کا کیا اور کتنا اثر ہوگا، کیا کردار یہ دنیا کی زندگی میں ادا کرے گا اور کتنا وقت اسے زمین پر کام کرنے کے لیے دیا جائے گا۔۔۔۔اس تقدیر سے یہ بال برابر بھی ہٹ نہیں سکتا، نہ اس میں ذرّہ برابر ردّ و بدل کرسکتا ہے۔
(تفہیم القرآن،ششم،ص257-256،عبس،حاشیہ12)
]تقدیر کا یہ قانون صرف انسان تک محدود نہیں بلکہ پوری کائنات میں جاری و ساری ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے[:
(ترجمہ)”(اور) جس نے تقدیر بنائی پھر راہ دکھائی“۔
یعنی ہر چیز کے پیدا کرنے سے پہلے یہ طے کردیا کہ اسے دنیا میں کیا کام کرنا ہے اور اس کام کے لیے اس کی مقدار کیا ہو، اُس کی شکل کیا ہو، اس کی صفات کیا ہوں، اس کا مقام کس جگہ ہو، اس کے لیے بقا اور قیام اور فعل کے لیے کیا مواقع اور ذرائع فراہم کیے جائیں، کس وقت وہ وجود میں آئے، کب تک اپنے حصے کا کام کرے اور کب کس طرح ختم ہوجائے۔ اس پوری اسکیم کا مجموعی نام اُس کی ”تقدیر“ ہے، اور یہ تقدیر اللہ تعالیٰ نے کائنات کی ہر چیز کے لیے اور مجموعی طور پر پوری کائنات کے لیے بنائی ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ تخلیق کسی پیشگی منصوبے کے بغیر کچھ یوں ہی الل ٹپ نہیں ہوگئی ہے بلکہ اس کے لیے ایک پورا منصوبہ خالق کے پیش نظر تھا اور سب کچھ اس منصوبے کے مطابق ہورہا ہے۔
(تفہیم القرآن،ششم ص311،الاعلیٰ،حاشیہ3)
قضا و قدر
علم العقائد میں قضائیں دو طرح کی مانی جاتی ہیں۔ ایک قضائے مُبُرَم، دوسری قضائے معلق۔ قضائے معلق کی تعریف یہی ہے کہ وہ دعا اور توبہ سے بدل جاتی ہے اور اس کی دلیلیں قرآن اور حدیث دونوں میں موجود ہیں۔
قضا کے معنی فیصلے ہی کے ہیں، اور قضا کو ٹال دینے اور فیصلہ بدل دینے میں درحقیقت کوئی فرق نہیں ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد ”قضا کو کوئی چیز نہیں پھیرتی مگر دعا“ کا صاف مطلب یہ ہے کہ جو قضا دعا نہ کرنے کی صورت میں نافذ ہوجانے والی ہو وہ دعا کرنے سے پلٹ جاتی ہے یا نافذ ہونے سے رک جاتی ہے۔ اس کو اگر یوں بیان کیا جائے تو کیا قباحت ہے کہ دعا نہ کرنے کی صورت میں اللہ تعالیٰ کا جو فیصلہ رُوبہ عمل آنے والا ہوتا ہے اسے دعا کرنے کی صورت میں اللہ تعالیٰ خود اپنے فضل سے بدل دیتا ہے۔ یہی بات سورۂ نوح میں اس طرح بیان فرمائی گئی ہے: (ترجمہ) ”حضرت نوح علیہ السلام نے اپنی قوم سے فرمایا کہ تم لوگ اللہ کی بندگی اور تقویٰ اختیار کرو اور میری اطاعت قبول کرلو۔ اگر تم ایسا کروگے تو اللہ تمھارے گناہ معاف کردے گا اور ایک وقتِ خاص تک تمھیں مہلت دے دے گا“۔اس آیت میں”یوخرکم“ کا لفظ صاف اشارہ کررہا ہے کہ کفر و شرک پر جمے رہنے کی صورت میں فیصلہ یہ تھا کہ اس قوم کو ہلاک کردیا جائے۔ لیکن اگر وہ بندگی و تقویٰ اور اطاعتِ رسول اختیار کرلے تو وہ فیصلہ اس فیصلے سے بدل جائے گا کہ اسے مزید مہلتِ عمل دے دی جائے۔
(مکاتیب ِسید ابو الاعلیٰ مودودی،اوّل، جون 1977ء،ص 201۔202)
دین
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دین آسان ہے اور دین سے جب بھی کسی نے زورآزمائی کی اور اس میں شدت اختیار کی، دین نے اسے ہرا دیا۔ پس، میانہ روی اختیار کرو اور بہ سہولت دینی اُمور (اور اللہ) کے قریب آئو اور خوش خبری لو، اور صبح و شام اور کچھ رات کے حصے سے مدد حاصل کرو۔ (بخاری)
مطلب یہ ہے کہ دین انسان کے لیے مصیبت بن کر نہیں اُترا ہے۔ دین درحقیقت زندگی کے صحیح اور فطری طرزِعمل کا نام ہے۔ فطرت کی راہ پر چلنا ہی انسان کے لیے آسان ہے، اِلاّ یہ کہ کوئی اپنی فطرت ہی کا باغی ہوجائے۔ کم فہمی، عاقبت نااندیشی اور دوسرے غلط محرکات کی بنا پر اکثر ایسا ہوا ہے کہ آسان اور فطری دین کو لوگوں نے اپنے لیے مصیبت بنا لیا اور اپنی خودساختہ سختی اور مشقت کو مذہب کی طرف منسوب کردیا۔
اس حدیث سے جو بات ذہن نشین کرانی مقصود ہے، وہ یہ ہے کہ دین میں تمھارے لیے معتدل طرزِعمل پسند کیا گیا ہے، جس کو تم اختیار کرسکو۔ اس لیے دین میں غلو اور شدت پسندی سے ہرگز کام نہ لو۔ ایسا نہ ہو کہ تم اپنی طرف سے کوئی ایسا طرزِعمل اختیار کرو، جو اعتدال سے ہٹا ہوا ہو۔ زندگی کے توازن کو برقرار رکھو، ہر ذمے داری کو ملحوظ رکھو، صبح و شام اللہ کی عبادت کرو اور رات کے کچھ حصے میں بھی اس کے حضور میں کھڑے رہو۔ اس طرح اپنے لیے وہ قوت فراہم کرتے رہو جس سے تمھارے لیے سفرِحیات کی دشواریاں آسان ہوجائیں اور تم خوشی اور مسرت کے ساتھ کامیابی سے ہم کنار ہوسکو۔