آپریشن کے ذریعے زچگی سے ماں کی زندگی کو خطرات لاحق ہوسکتے ہیں، عالمی ادارہ صحت

اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق آپریشن کے ذریعے زچگی میں دگنا اضافہ ہوا ہے ، 30 فیصد سے زائد نوزائیدہ بچے آپریشن کے ذریعے جنم لے رہے ہیں، حالانکہ نارمل ڈیلیوری ایک قدرتی عمل ہے جس میں نقصان کا احتمال بھی نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔عالمی ادارۂ صحت کا کہنا ہے کہ حمل کے دوران کسی قسم کی پیچیدگی پیدا ہونے کی صورت میں ہی ’سی سیکشن (زچگی کا آپریشن) کی اجازت دی جاسکتی ہے جس میں بچہ جننے کے دوران خون کا زیادہ بہنا، بچے کا اکڑ جانا اور بچے کا درست جگہ پر نہ ہونا جیسے عوامل شامل ہیں۔ ڈبلیو ایچ او کے مطابق نارمل ڈیلیوری میں وقت زیاہ صرف ہونے اور ’درد زہ‘ کے باعث بغیر کسی طبی وجہ کے آپریشن کو معمول بنالیا گیا ہے حالانکہ اس سے اخراجات بھی بڑھ جاتے ہیں اور آپریشن کی وجہ سے ماں اور بچے کی صحت کو بھی شدید خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔ ماہر صحت پروفیسر مارلین تیمرمین نے اپنے تحقیقی مقالے میں کہا ہے کہ آپریشن کے ذریعے بچوں کی پیدائش کے عمل ’سی سیکشن‘ میں ماں کی زندگی کو شدید خطرات لاحق رہتے ہیں اور 70 فیصد تک امکان رہتا کہ آپریشن کے دوران خاتون کسی قسم کی پیچیدگی میں مبتلا ہوجائے، اور 60 فیصد خواتین جان سے بھی چلی جاتی ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ زچگی کے لیے سی سیکشن کے بڑھتے ہوئے اضافے میں کمی لائی جائے اور گائناکالوجسٹ کی پہلی ترجیح نارمل ڈیلیوری ہونی چاہیے اور اس حوالے سے عوام میں آگاہی پھیلانے کی ضرورت ہے۔

بچے ماضی کے مقابلے جلد بالغ ہونے لگے

یورپی ملک ڈنمارک کے سائنس دانوں کی جانب سے کی جانے والی ایک حالیہ تحقیق سے پتا چلا ہے کہ اب بچے ماضی کے مقابلے جلد ہی بالغ ہورہے ہیں۔
علاوہ ازیں تحقیق سے یہ بات بھی سامنے آئی کہ بچوں کے بالغ ہونے کی عمر میں ہر سال کمی واقع ہورہی ہے۔ آکسفورڈ اکیڈمک کے سائنس جرنل ’ہیومن ری پروڈکشن‘ میں شائع تحقیق کے مطابق بچے اب انتہائی کم عمری میں بالغ ہونے لگے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق ڈنمارک کی یونیورسٹی آف آرہس کے ماہرین کی جانب سے لیے گئے جائزے سے یہ بات بھی سامنے آئی کہ وہ بچے جلد ہی بالغ ہوجاتے ہیں، جن کی مائیں جلد بالغ ہوئی تھیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بیٹوں کے بالغ ہونے کا تعلق اپنی والدہ کے بالغ ہونے سے جا ملتا ہے۔ ڈیٹا سے یہ بات سامنے آئی کہ جن خواتین کے ہاں ایامِ خصوصی جلد ہوئے، ان کے بیٹے بھی جلد ہی بالغ ہوئے۔ رپورٹ کے ماہرین نے تحقیقات کے دوران ڈنمارک کی 16 ہزار خواتین اور ان کے بچوں کے ڈیٹا اور بالغ ہونے کے اوقات کا جائزہ لیا۔ جائزے سے پتا چلا کہ جن بچوں کی مائیں جلد بالغ ہوئی تھیں، ان کے بیٹے بھی جلد بالغ ہوئے۔ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ کم عمری اور جلد بالغ ہونے سے بچوں اور خصوصی طور پر بچیوں میں بعد ازاں ذہنی مسائل اور بیماریاں بھی پائی جاتی ہیں۔ خیال رہے کہ اس وقت دنیا کے مختلف ممالک میں بچوں کے بالغ ہونے کی درست عمر کا تعین جدید تحقیقات کے باعث الگ الگ کیا جاتا ہے۔ برطانیہ میں لڑکیوں کے بالغ ہونے کی درست عمر 11، جب کہ لڑکوں کی عمر 12 برس ہے۔ امریکہ میں بچوں کے بالغ ہونے کی درست عمر کا تعین نہیں کیا گیا، تاہم بتایا گیا ہے کہ ہر بچے کے بالغ ہونے کی عمر مختلف ہوسکتی ہے۔ امریکہ میں بچوں میں بلوغت کے حوالے سے مختلف مراحل کی الگ الگ عمروں کا تعین کیا گیا ہے، جس کے تحت بعض بچوں میں محض 7 سال کی عمر سے ہی بلوغت کے آثار رونما ہونے لگتے ہیں۔ ہیلتھ جرنل ’میڈیسن نیٹ‘ کے مطابق عام طور پر لڑکیاں 10 سے 14 سال، جب کہ لڑکے 12 سے 16 سال کی عمر کے درمیان بالغ ہوجاتے ہیں۔
متعدد تحقیقات میں یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ بچوں کے بالغ ہونے کا تعلق ماحولیات، ان کی غذا، ان کی جسمانی و ذہنی صحت سمیت ان کے خاندان سے ہوتا ہے۔

کسان کے بغیر پنپنے والا روبوٹک کھیت تیار

سائنس دان ایسا روبوٹک کھیت تیار کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں جو پودوں کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے دھوپ اور پانی کی فراہمی کا مؤثر اور خودکار نظام رکھتا ہے۔
روبوٹک سائنس میں حیران کن ایجادات کرنے والی کمپنی آئرونکس نے روبوٹک کھیت تیار کرلیا ہے۔ اس روبوٹک کھیت میں بیج سے فصل پکنے کے تمام مراحل خودکار نظام کے تحت طے پائیں گے۔
پودوں کی دیکھ بھال اور حفاظت کے لیے افرادی قوت کی ضرورت نہیں ہوگی، اسی طرح پودوں تک سورج کی روشنی کی رسائی اور پانی دینے کے لیے بھی کسان کی ضرورت نہیں ہوگی۔
بیچ بونا ہو یا پتوں کی تراش خراش کرنی ہو، یا پھر قلم لگانی ہو، یہ تمام امور انتہائی خوش دلی کے ساتھ خودکار نظام کے تحت انجام پائیں گے۔ اس نظام میں کامیابی کا تناسب حیران کن طور پر انتہائی زیادہ ہے۔
روایتی طور پر ایک ایکڑ زمین پر جتنی فصل اگائی جا سکتی ہے اتنے ہی رقبے پر اس روبوٹک کھیت میں 30 گنا زیادہ فصل تیار کی جاسکتی ہے، جب کہ 90 فیصد پانی کی بچت بھی ہوگی۔ روبوٹک کھیت کھلی فضا میں ہونے کے بجائے ’اِن ڈور‘ رکھا جاسکتا ہے جس میں نصب خودکار نظام کے تحت سورج کی معمولی کرنوں سے پوری فصل کو سیراب کیا جاسکتا ہے۔ آئرونکس کے مطابق اس ایجاد سے کم افرادی قوت اور کم وسائل سے زیادہ فصلیں حاصل کی جاسکیں گی۔ زرعی صنعت میں انقلاب برپا کردینے والی یہ ٹیکنالوجی جلد دستیاب ہوگی۔