پاکستان یا اسلامی جمہوریہ مذاقستان

پاکستان اللہ تعالیٰ کی عطا ہے۔ اسلام کی دین ہے۔ اسلامی تہذیب کا تحفہ ہے۔ اسلامی تاریخ کا حاصل ہے۔ اقبال کا خواب ہے۔ قائد اعظم کی تعبیر ہے۔ 22 کروڑ پاکستانیوں کا قلعہ ہے۔ برصغیر کے 60 کروڑ سے زیادہ مسلمانوں کا حصار ہے۔ لیکن پاکستان کی فوجی اور سیاسی اشرافیہ نے پاکستان کو اسلامی جمہوریہ مذاقستان بنادیا ہے۔ یہ ایسا بھیانک جرم ہے جس کا بیان بھی دشواری ہے۔
پاکستان اسلام کے نام پر وجود میں آیا تھا۔ پاکستان دو قومی نظریے کا ثمر ہے اور دو قومی نظریہ اسلام اور ہندوازم کے امتیازات کے سوا کچھ نہیں۔ اس لیے قائد اعظم نے فرمایا تھا پاکستان پریمیئر اسلامی اسٹیٹ ہوگا۔ پاکستان کا آئین قرآن ہوگا۔ پاکستان عہد جدید میں اسلام کی تجربہ گاہ ہوگا۔ لیکن پاکستان کی فوجی اور سیاسی اسٹیبلشمنٹ نے پاکستان کے اسلامی کردار ہی کو متنازع بنادیا۔ پاکستان کے فوجی اور سیاسی حکمرانوں نے سیکولر اور لبرل دانش وروں کے تعاون سے اس تاثر کو عام کیا کہ پاکستان سیکولر مقاصد کے حصول کے لیے قائم کیا گیا اور قائد اعظم خدانخواستہ سیکولر شخصیت تھے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اسلام کے نام پر تخلیق ہونے والے ملک میں علمااور مذہبی جماعتوں اور عوام کو پاکستان کے اسلامی تشخص کے سلسلے میں طویل جدوجہد کرنی پڑی۔ اس جدوجہد کے نتیجے میں قرار داد مقاصد آئین کا حصہ بن گئی اور 1973ء میں ملک کو ایک ایسا آئین بھی مہیا ہوگیا جسے اسلامی کہا جاسکتا ہے۔ لیکن پاکستان کی فوجی اور سیاسی اشرافیہ نے ملک کے اسلامی آئین کو اسلام کا قید خانہ بنادیا ہے۔ ملک کا آئین اسلامی ہے مگر اسلام اجتماعی زندگی میں کہیں ’’بالادست‘‘ نہیں۔ ہمارے سیاسی نظام، ہماری معیشت، ہمارے نظام عدل اور ہمارے نظام تعلیم کا اسلام سے کوئی تعلق ہی نہیں۔ اسلام کہتا ہے کہ سودی نظام اللہ اور اس کے رسولؐ کے خلاف جنگ ہے اور پاکستان کے حکمران سود کو سینے سے لگائے ہوئے ہیں۔ ملک کے سیاسی نظام پر اسٹیبلشمنٹ،جاگیرداروں،سرمایہ داروںاورنام نہاد Electablesکے مفادات، صوبائی اور لسانی تعصبات، ذاتوں، برادریوں، فرقے اور مسلک کی شرمناک نفسیات کا غلبہ ہے۔ جنرل ضیاء الحق نے اسلامی بینکاری متعارف کرائی مگر یہ بینکاری سود کی اسلام کاری کے سوا کچھ نہ تھی۔ جنرل ضیاء کے نظام صلوٰۃ نے اسلام کے نظام صلوٰۃ کو مذاق بنادیا۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں ملک کی اعلیٰ ترین عدالت نے سود کے خلاف فیصلہ دیا تو جنرل پرویز مشرف ناراض ہوگئے اور انہوں نے فرمایا کہ یہ فیصلہ میرے ہی دور میں آنا تھا۔یعنی معاذ اللہ اسلامی معیشت کا عذاب میرے ہی دور میں برپا ہونا تھا۔ یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کو نظری اور عملی دونوں سطحوں پر مذاقستان بنانے کی کوشش کے سوا کچھ نہ تھا۔
اسلامی معاشرے اور اسلامی ریاست کا تصور انصاف کے بغیر کیا ہی نہیں جاسکتا۔ مگر پاکستان کی فوجی اور سیاسی اسٹیبلشمنٹ نے پاکستان کے نظام انصاف اور عدلیہ کے ادارے کو مذاق بنا کر رکھ دیا ہے۔ ملک میں جتنے جرنیل آئے سب نے عدلیہ کو موم کی ناک بنا کر رکھا اور اس سے اپنے ہر آمرانہ اقدام کی تائید کرائی۔ ذوالفقار علی بھٹو کو جس مقدمے میں موت کی سزا سنائی گئی وہ پہلے دن سے تنازعات کی زد میں ہے اور بھٹو کی سزائے موت کو عدالتی قتل کہنے والوں کی بڑی تعداد موجود ہے۔ ان میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جنہیں بھٹو صاحب کی شخصیت اور سیاست سے شدید اختلاف تھا اور جو ان کے سیاسی زوال کی دعائیں مانگتے تھے۔ بدقسمتی سے سیاسی رہنمائوں نے بھی عدالتوں کے ساتھ بدترین سلوک کیا۔ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کی حکومتیں ایک طرح کے الزامات کے تحت برطرف ہوئیں مگر بے نظیر کی حکومت بحال نہ ہوسکی البتہ میاں صاحب کی حکومت بحال ہوگئی۔ اس کے باوجود ایک وقت وہ آیا کہ میاں نواز شریف نے جسٹس سجاد علی شاہ کے دور میں سپریم کورٹ پر نواز لیگ کے غنڈوں سے حملہ کرایا اور جسٹس سجاد علی شاہ کو قانون نافذ کرنے والے اداروں کا تحفظ حاصل نہ ہوتا تو نواز لیگ کے غنڈے چیف جسٹس آف پاکستان کی تکریم پر حملہ کرتے۔ بدقسمتی سے میاں نواز شریف ایک بار پھر عدالتوں کی توہین کا ریکارڈ قائم کرچکے ہیں۔ میاں صاحب، ان کی دختر نیک اختر اور نواز لیگ کے رہنمائوں نے ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کے بارے میں جو کچھ کہا اگر کسی اور نے کہا ہوتا تو اس کا جن بچہ کولہو پلوا دیا گیا ہوتا۔ میاں نواز شریف کے خاندان کا تازہ ترین ریکارڈ یہ ہے کہ ایون فیلڈ کیس میں میاں صاحب کے ایک بیٹے نے ٹیلی ویژن انٹرویو میں صاف کہا کہ لندن میں موجود فلیٹس ہم نے کرائے پر لیے ہوئے ہیں۔ دوسرے بیٹے نے ٹی وی انٹرویو میں کوئی لفظ چبائے بغیر اعتراف کیا کہ فلیٹس ہماری ملکیت ہیں۔ مریم نواز نے ایک ٹیلی ویژن انٹرویو میں فرمایا کہ میری بیرون ملک کیا ملک کے اندر بھی پراپرٹی نہیں ہے۔ میاں نواز شریف نے قومی اسمبلی میں بیان دیتے ہوئے پوری دنیا کو بتایا کہ یہ ہیں وہ ذرائع جن سے لندن کی جائیداد خریدی گئی۔ اتنی کھلی شہادتوں اور ٹھوس تضادات کے باوجود پورا شریف خاندان نیک پروین بنا گھوم رہا ہے اور اس بات کا پروپیگنڈا کررہا ہے کہ اسے سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ ذرائع ابلاغ کی تمام اقسام پر میاں صاحب کا ایسا قبضہ بلکہ غلبہ ہے کہ اخبار ہو یا ٹیلی ویژن ہر جگہ میاں نواز شریف اور ان کے اہل خانہ کو ’’معصوم‘‘ ظاہر کرنے والے موجود ہیں۔ اس صورتِ حال نے ملک کی اعلیٰ ترین عدالتوں اور نظام انصاف کو مذاق بنادیا ہے۔ رہی سہی کسر میاں نواز شریف، ان کی بیٹی اور ان کے داماد کی رہائی نے پوری کردی۔ قوم کا ہر باشعور شخص سوال کررہا ہے کہ اگر شریفوں کو ڈیل اور ڈھیل میسر آسکتی ہے تو پاکستان کی جیلوں اور عدالتوں میں ذلت برداشت کرنے والے لاکھوں پاکستانیوں کا کیا قصور ہے؟ کیا ان کا قصور یہ ہے کہ وہ چھوٹے اور کمزور ملزم یا مجرم ہیں۔ ان کے ہاتھ لمبے نہیں۔ ان کے پاس شریفوں کی طرح سرمایہ اور سیاسی طاقت نہیں۔ اس سلسلے کی تازہ کڑی یہ ہے کہ ڈیل اور ڈھیل کے مرکزی کردار میاں شہباز شریف کو آشیانہ کیس میں گرفتار کرلیا گیا ہے۔ شہباز شریف کی گرفتاری کی کئی وجوہ ہوسکتی ہیں۔ ایک یہ کہ میاں نواز شریف کے مقابلے پر ان کی شخصیت کو اُبھارا جارہا ہے۔ ایک یہ کہ انہوں نے رانا مشہود کے ذریعے ڈیل اور ڈھیل کے راز کو افشا کرکے اسٹیبلشمنٹ کے اعتماد کو ٹھیس پہنچائی۔ ایک یہ کہ شہباز شریف کی گرفتاری اسٹیبلشمنٹ سے زیادہ عمران خان کی حکومت کا اقدام ہے مگر عمران خان کی طاقت سے یہ بعید ہے۔ بہرحال یہ باتیں اہم ہونے کے باوجود زیادہ اہم نہیں، زیادہ اہم بات یہ ہے کہ نواز لیگ شہباز شریف کی گرفتاری کو سیاسی انتقام کی ایک شکل قرار دے رہی ہے۔ دنیا میں آج تک کسی مجرم نے خود کو مجرم تسلیم نہیں کیا اور پاکستان کے جرنیلوں اور سیاست دانوں کا تو یہ عالم ہے کہ انہوں نے ملک توڑ ڈالا اور کوئی تسلیم نہیں کرتا کہ اس کا ذمے دار وہ ہے۔ لیکن بہرحال اصل بات یہ ہے کہ انصاف کو نواز شریف اور ان کے خاندان سمیت کسی کے لیے بھی انتقام کا مظہرنہیں ہونا چاہیے۔ اسلام کسی کو بھی کسی کے ساتھ ظلم اور زیادتی کی اجازت نہیں دیتا۔ چنانچہ میاں نواز شریف ہوں یا ان کے اہل خانہ یا نواز لیگ اور پیپلز پارٹی کا کوئی رہنما عدل کو اپنی منطق بہر صورت ثابت کرنی چاہیے۔ لیکن یہ حقیقت بھی روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ عدل آکسیجن کی طرح انسانوں کے لیے ناگزیر ہے۔ آکسیجن کے بغیر انسان کی جسمانی موت واقع ہوجاتی ہے اور عدل سے محروم ہو کر معاشرہ روحانی اور اخلاقی موت مرجاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حضور اکرمؐ نے فرمایا ہے کہ اگر میری بیٹی فاطمہؓ بھی چوری کرتیں تو ان کا ہاتھ کاٹا جاتا۔ اب اگر نبیؐ کی بیٹی کے لیے کوئی جائے پناہ نہیں ہے تو کسی شریف یا کسی زرداری کے لیے کوئی جائے پناہ کیسے ہوسکتی ہے؟۔ چنانچہ انصاف، انصاف ہو تو اسے ہر قیمت پر آگے بڑھ کر مجرمان کے گلے میں پھندا ڈالنا چاہیے خواہ وہ مجرم میاں نواز شریف اور ان کے اہل خانہ ہی کیوں نہ ہوں۔ لیکن یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ احتساب صرف نواز شریف اور شریف خاندان کا ہوگا؟ آخر دوسری جماعتوں، جرنیلوں، میڈیا ٹائی کونز اور طاقت ور صحافیوں کی باری کب آئے گی اور پاناما کے 436 دیگر مجرموں کے گلے میں پھندا کب پڑے گا؟ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ انصاف اتنا اہم ہے کہ اگر انصاف کا عمل مذاق بن جائے تو پورا معاشرہ، پوری ریاست اور معاشرے میں موجود تمام لوگوں کی زندگی مذاق بن کر رہ جاتی ہے۔ پھر کسی کے مرنے کا کوئی مفہوم باقی رہ جاتا ہے نہ زندہ رہنے کا۔ پھر معاشرے میں عزت اور ذلت کا فرق بھی مٹ جاتا ہے اور معاشرہ اور ریاست خود اپنی تخریب میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔
ہر معاشرے اور ہر ریاست کا ایک نظریہ ہوتا ہے مگر ہمارے یہاں حکمرانوں کے بدلنے سے معاشرے اور ریاست کا نظریہ بھی بدل جاتا ہے۔ جنرل ایوب سیکولر تھے اور انہوں نے ملک کو سیکولر بنانے کی ہر ممکن کوشش کی۔ بھٹو صاحب سوشلسٹ تھے اور انہوں نے اسلامی سوشلزم جیسی بے معنی اصطلاح ایجاد کرکے اسلام اور سوشلزم دونوں کو رسوا کیا۔ جنرل ضیاء اسلام پسند تھے اور انہوں نے معاشرے کو اسلامی بنانے کی کوشش کی۔ میاں نواز شریف کے کئی چہرے ہیں وہ کہیں لبرل اور سیکولر بن کر کھڑے ہوجاتے ہیں۔ کہیں وہ اسلام کے علمبردار دکھائی دیتے ہیں۔ جنرل پرویز مشرف کو ’’روشن خیال میانہ روی‘‘ کا مرض لاحق ہوا اور وہ مغرب میں ’’بش پرستی‘‘ کی وجہ سے ’’بشرف‘‘ اور بسنت نوازی کی وجہ سے ’’بشرف سنگھ بسنتی‘‘ کہلائے۔ عمران خان مذہبی لوگوں کو تاثر دیتے ہیں کہ وہ مذہبی ہیں۔ لبرلز کو وہ اس خوش فہمی میں مبتلا رکھے ہوئے ہیں کہ وہ لبرل ہیں۔ کہنے کو میاں نواز شریف اور عمران خان ایک دوسرے کی ضد ہیں مگر اپنے نظریاتی تشخص کے حوالے سے وہ جڑواں بچے یا Twins نظر آتے ہیں۔ ہماری قومی تاریخ یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے جہادی پیدا کیے اور افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف دس سال تک جہاد کیا۔ مگر امریکا جہاد اور جہادیوں کے خلاف ہوا تو ہماری اسٹیبلشمنٹ نے ایک دن میں اپنا قبلہ تبدیل کرلیا۔ جنرل نصیر اللہ بابر نے سعودی عرب اور امارات سے یہ کہہ کر طالبان کو تسلیم کرایا تھا کہ طالبان افغانی نہیں ’’ہمارے بچے‘‘ ہیں مگر نائن الیون کے بعد ہم نے ’’اپنے بچوں‘‘ کو پکڑ پکڑ کر امریکا کے حوالے کیا اور جنرل پرویز کے اعتراف کے مطابق کروڑوں ڈالر کمائے۔ تجزیہ کیا جائے تو حقائق کی یہ تمام صورتیں اسلامی جمہوریہ پاکستان کو اسلامی جمہوریہ مذاقستان بنانے کی سازش کے سوا کچھ نہیں۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان کے نام میں لفظ جمہوریہ بھی آتا ہے مگر پاکستان میں نہ اسلام آزاد ہے نہ حقیقی جمہوریت کا کوئی وجود ہے۔ ملک کی 71 سالہ تاریخ کا آدھا حصہ ملک پر جرنیلوں نے براہِ راست حکومت کی ہے اور باقی آدھے وقت میں انہوں نے پردے کے پیچھے بیٹھ کر ملک چلایا ہے۔ مگر یہ پاکستان کی ’’جمہوریت‘‘ کی مضحکہ خیزی کا صرف ایک پہلو ہے۔ پاکستانی جمہوریت کی مضحکہ خیزی کا دوسرا اہم پہلو یہ ہے کہ پاکستان میں جماعت اسلامی کے سوا جتنی جماعتیں ہیں وہ غیر جمہوری، شخصی، خاندانی، موروثی، فرقہ وارانہ اور مسلکی ہیں اور ان کے لیے نہ دین بنیادی مسئلہ ہے نہ جمہوریت۔ نواز لیگ، میاں نواز شریف اور شریف خاندان کی پالتو ہے۔ پیپلز پارٹی بھٹو خاندان کا ٹشو پیپر ہے۔ عمران خان کو آج خدانخواستہ کچھ ہوجائے تو تحریک انصاف ختم ہوجائے گی۔ اے این پی پر ولی خان کے خاندان کا قبضہ ہے۔ ان جماعتوں کے لیے جمہوریت کا مطلب ہے اقتدار۔ ان جماعتوں کے لیے جمہوریت کا مطلب ہے انتخابات۔ انتخابات بھی اس لیے کہ وہ انتخابات میں کامیاب ہوجاتی ہیں۔ یہ ایک شرمناک صورتِ حال ہے اور اس صورتِ حال میں اتنا گھنائونا پن ہے کہ اس کی وجہ سے انسان کو جمہوریت ہی سے نفرت ہوجائے۔ صحافت کو جمہوریت کا ستون کہا جاتا ہے مگر ہماری صحافت کے لیے نہ اسلام مسئلہ ہے نہ اسلامی تہذیب مسئلہ ہے، نہ اسلامی تاریخ مسئلہ ہے، نہ قومی وحدت مسئلہ ہے، نہ علم مسئلہ ہے، نہ اخلاقیات مسئلہ ہے، یہاں تک کہ اس کے لیے آزادی بھی مسئلہ نہیں۔ چنانچہ ذرائع ابلاغ کے ایک بڑے حصے پر اسٹیبلشمنٹ کی چھاپ ہے۔ ایک حصہ میاں نواز شریف کی سیاسی طاقت اور سرمائے کا مطیع اور فرمانبردار ہے، ایک حصہ عمران پرستی میں مبتلا ہے۔ ایک حصہ پیپلز پارٹی کے زیر اثر ہے۔ رہی سہی کسر سرمایہ داروں کے مفادات اور کارپوریٹ سیکٹر کی نفسیات نے پوری کردی ہے۔ یعنی ہمارے ذرائع ابلاغ کے مالکان، ان پر غالب قوتیں، اہم کالم نویس اور اہم اینکرز اور اہم صحافی بھی پاکستان کو مذاقستان بنانے میں لگے ہوئے ہیں۔ دنیا میں کوئی ملک ایسا نہیں جس کا ایک قومی ایجنڈا نہ ہو اور اس کا ایجنڈا اس کے بنیادی عقائد سے نمودار نہ ہو رہا ہو لیکن ہمارے حکمران طبقے اور ہمارے ذرائع ابلاغ کا کوئی متفقہ اور مشترکہ قومی ایجنڈا نہیں ہے اور اگر کوئی ایجنڈا ہے بھی تو اس کا ہمارے مذہب، ہماری اخلاقیات، ہماری تہذیب اور ہماری تاریخ سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ میر شکیل الرحمن کے انگریزی اخبار ’’دی نیوز‘‘ نے قندیل بلوچ پر ایک پورا صفحہ شائع کیا۔ اس صفحے پر شائع ہونے والے مضمون میں اس قندیل بلوچ کو قومی ہیرو کے طور پر پیش کیا گیا جو دانش ور، اسکالر یا سیاست دان کیا گلوکارہ، اداکارہ اور ماڈل گرل تک نہیں تھی۔ وہ بیچاری صرف اپنے جسم کی نمائش کرتی تھی۔ کیا جسم کی نمائش بھی کوئی ’’آرٹ‘‘ ہے؟ مغرب تک میں جسم کی نمائش کرنے والی عورتوں کو حقارت سے دیکھا جاتا ہے اور کوئی انہیں وہ مقام بھی نہیں دیتا جو گلوکاروں، اداکاروں اور کھلاڑیوں کو دیا جاتا ہے۔ مگر اسلامی جمہوریہ پاکستان میں قندیل بلوچ کو ’’ہیرو‘‘ بنا کر پیش کیا گیا بلکہ ’’دی نیوز‘‘ کے مضمون میں یہ تک کہا گیا کہ جسم کی نمائش قندیل بلوچ کی جرأت مندی اور اس کا ’’حق‘‘ تھا۔ ابھی چند روز پہلے روزنامہ ڈان کراچی میں ایک پورا صفحہ ہم جنس پرستی کی حمایت اور فروغ کے لیے شائع کیا گیا۔ اس صفحے پر شائع ہونے والے مضمون میں ریما عمر نے بھارت میں ہم جنس پرستی کی حمایت میں آنے والے سپریم کورٹ کے فیصلے کو سراہا اور دولت مشترکہ کے تمام ممالک کے لیے قابل تقلید قرار دیا۔ پاکستان اسلامی جمہوریہ ہے اور پارلیمنٹ کوئی خلاف اسلام قانون نہیں بناسکتی تو کوئی اخبار عورت کے جسم کی نمائش اور ہم جنس پرستی کی ’’تبلیغ‘‘ کیسے کرسکتا ہے؟ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ثاقب نثار معمولی معمولی باتوں کا ازخود نوٹس لیتے رہتے ہیں مگر اسلامی جمہوریہ پاکستان میں عورت کے جسم کی نمائش کی حوصلہ افزائی کی جارہی ہے اور ہم جنس پرستی کی کھلے عام تائید کی جارہی ہے مگر جسٹس ثاقب نثار کو اس کی اطلاع ہی نہیں ہوپاتی۔ یہاں تک کہ ملک کے لاکھوں علماء، مذہبی جماعتیں اور مذہبی رہنما بھی اس حوالے سے آنکھوں، کانوں اور منہ کو بند کیے بیٹھے ہیں۔ اس صورت حال نے اسلام، اسلامی تہذیب اور اسلامی تاریخ کو اسلامی جمہوریہ پاکستان میں بے یارومددگار بنادیا ہے۔ پاکستان میں سیاسی رہنمائوں اور جماعتوں کے والی وارث ہیں، تجارتی اور کاروباری مفادات کے والی وارث ہیں مگر پاکستان میں اسلام کا کوئی والی وارث نہیں۔ اس صورتِ حال نے بھی اسلامی جمہوریہ پاکستان کو اسلامی جمہوریہ مذاقستان بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔