وزیر اعظم عمران خاں کی اقتدار سنبھالنے سے پہلے کی تقاریر کا جائزہ لیا جائے تو وہ ایک بات تسلسل سے کہتے سنائی دیتے ہیں کہ وہ قوم کو عالمی مالیاتی اداروں کے شکنجے سے نجات دلائیں گے اور عالمی بنک اور بین الاقوامی مالیاتی ادارے، آئی ایم ایف کے سامنے کسی صورت جھولی نہیں پھیلائیں گے وہ یہاں تک کہتے رہے کہ ان اداروں سے بھیک مانگنے پر خودکشی کر لینے کو ترجیح دیں گے۔ وہ یہ دعوے بھی کرتے رہے کہ تحریک انصاف کے ’’تھنک ٹینک‘‘ اور ماہرین ہر شعبہ زندگی میں ’’تبدیلی‘‘ کے لیے زبردست منصوبہ بندی کر چکے ہیں مگر اقتدار سنبھالنے کے بعد اندازہ ہوا کہ کپتان کے تمام وعدے اور دعوے محض ہوائی باتیں تھیں ان کے اقتدار کے صرف پچاس دن کے اندر ہی صورت حال کچھ اس قدر ناگفتہ بہ ہو چکی ہے کہ ہر شعبہ میں ابتری نمایاں ہے اور اصلاح کی کوئی صورت نظر نہیں آتی اس وقت حکومت کی کیفیت کچھ ایسی ہے کہ : ۔
نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں…!!!
قومی معیشت کی زبوں حالی اور خزانے کے خالی ہونے کا رونا تو تحریک انصاف اقتدار سنبھالنے کے پہلے ہی روز سے روتی چلی آ رہی ہے تاہم پہلے قوم کو یہ لالی پاپ دیا گیا کہ تمام تر معاشی بدحالی کے باوجود کپتان آئی ایم ایف سے رجوع کرنے پر آمادہ نہیں اور معیشت کو سہارا دینے کے لیے سعودی عرب اور چین جیسے دوست ممالک سے رابطہ کر لیا گیا ہے جنہوں نے بھر پورتعاون کا وعدہ بھی کیا ہے تاہم گزشتہ اتوار کو وزیر اعظم عمران خاں لاہور آئے تو بطور وزیر اعظم اپنی پہلی باضابطہ پریس کانفرنس میں انہوں نے معاشی صورتحال کا جو نقشہ پیش کیا وہ انتہائی خوف ناک تھا اور وزیر اعظم کے بقول مہنگائی کرنا حکومت کی مجبوری بن چکی ہے جس سے بچنے کی واحد صورت یہ ہے کہ کرپشن کے ذریعے لوٹی گئی اربوں ڈالر کی رقم واپس لائی جائے۔ ظاہر ہے کہ یہ کام بھی تو حکومت ہی کو کرنا ہے عوام تو دعا ہی کر سکتے ہیں مگر حکومت کی یہاں بھی یہ مجبوری ہے کہ لوٹی گئی یہ بھاری رقوم بیرون ملک منتقل کی جا چکی ہیں، جہاں سے ان کی واپسی کی خواہش تو آسان ہے مگر اس خواہش کو حقیقت کا روپ دینا جوئے شیر لانے سے کم نہیں…!!!
وزیر اعظم نے اس مشکل معاشی صورتحال سے نجات کا دوسرا راستہ آئی ایم ایف سے رجوع یعنی ’’ خود کشی‘‘ بتایا۔ حکومت کے اقدام خودکشی کے اس اعلان کے فوری اور بھیانک نتائج سانے آئے ہیں اور اس اعلان کے صرف ایک دن کے بعد یعنی کام کے پہلے ہی روز پیر کو ملک کی سٹاک مارکیٹ کریش کر گئی اور شدید مندی کی اس کیفیت میں صرف چند گھنٹوں میں سرمایہ کاروں کے 238 ارب روپے ڈوب گئے۔ اس روز وزیر اعظم نے آئی ایم ایف کے سامنے کشکول پھیلانے کی باقاعدہ اور باضابطہ منظوری دے دی۔ نتیجہ جس کا یہ برآمد ہوا کہ منگل کے روز روپے کی قدر میں ملکی تاریخ کی ریکارڈ کمی دیکھنے میں آئی اور ڈالر کی قیمت نو روپے سے زائد اضافہ ہو گیا۔ جب کہ انٹر بنک ریٹ بارہ روپے پچھتر پیسے بڑھ گیا … روپے کی قیمت میں اس ہوش ربا گراوٹ کے باعث ڈالر 138 روپے تک پہنچ گیا ہے اور آئی ایم ایف سے طے پانے والی متوقع شرائط کے باعث ماہرین معاشیات روپے کی قیمت میں مزید کمی یعنی ڈالر کے مزید مہنگا ہونے کی پیش گوئیاں کر رہے ہیں اور جتنے منہ اتنی باتیں… ڈالر کے 140 روپے سے 150 روپے تک پہنچ جانے کی باتیں عام ہیں اور سب سے اہم بات کہ بے یقینی کی کیفیت ہے جس نے معاملات کو مزید بگاڑ دیا ہے۔ صرف ایک دن میں ملکی قرضوں میں 902 ارب روپے کے اضافے کا اندازہ لگایا گیا ہے۔ مہنگائی کی شرح میں بھی دس فیصد تک اضافہ کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے…!!!
ڈالر کی اس بے لگام مہنگائی نے ہر طبقہ کو بری طرح متاثر کیا ہے اور معمولی سے معمولی چیز سے لے کر سونے تک کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ نان اور روٹی جیسی بنیادی اور لازمی ضرورت کی قیمت میں پچاس فیصد سے زائد اضافہ کر دیا گیا ہے۔ بازار میں چھ روپے والی روٹی دس روپے، دس روپے والا نان پندرہ روپے میں فروخت ہو رہا ہے اسی طرح سونا بھی صرف ایک دن میں 1950 روپے تولہ مہنگا ہو گیا ہے۔ عالمی مارکیٹ میں سونے کی قیمتوں میں کمی کے باوجود ڈالر کی شرح تبادلہ میں اضافہ کے باعث پاکستانی مارکیٹ میں 24 قیراط سونے کی قیمت 1950 روپے اضافہ کے بعد 62000 روپے اور 22 قیراط سونے کی قیمت 1800 روپے اضافہ کے بعد 56900 تک پہنچ گئی ہے۔
ضروریات زندگی کی دوسری تمام اشیاء بھی فوری مہنگی ہو چکی ہیں کاپیاں، کتابیں، سریا، سیمنٹ، روز مرہ استعمال کی کم و بیش تمام اشیاء کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگی ہیں جب کہ ماہرین کے مطابق ڈالر کی قیمت میں ہوشربا اضافہ کے لازمی اثرات اگلے مرحلہ میں پٹرولیم مصنوعات ، زرعی درآمدات موٹر سائیکلوں، گاڑیوں، ادویات، کاسمیٹکس اور دیگر تمام درآمدی اشیاء پر مرتب ہوں گے… آسمان سے باتیں کرتی اس مہنگائی کے باعث مارکیٹوں میں کاروباری سرگرمیاں بھی ماند پڑ گئی ہیں کیونکہ عام آدمی کی قوت خرید پہلے ہی خاصی کم تھی جو مہنگائی کے تازہ سونامی سے مزید کم ہو کر ختم ہونے کے قریب پہنچ گئی ہے… وزیر اعظم کی جانب سے ’’خودکشی‘‘ کے اس اقدام کے اعلان کے بعد مہنگائی اور بے روز گاری کے ہاتھوں ستائے غریب، بے بس اور مجبور شہریوں میں خود کشی کی شرح میں اضافے کا امکان بھی بڑھ گیا ہے…!!!
روپے کی اس بے قدری اور حکومت کے معاملات پر کنٹرول نہ ہونے کا سماج دشمن عناصر بھی بھر پور فائدہ اٹھا رہے ہیں اور اطلاعات کے مطابق ڈالر اور پونڈ سمیت دیگر غیر ملکی کرنسیوں کی ایران کی سرحد تافتان کے راستے بیرون ملک سمگلنگ کا سلسلہ بھی کافی عرصے سے جاری ہے مگر حکومت تاحال اس کی روک تھام کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے میں ناکام رہی ہے۔ اور معاملات تاحال گزشتہ چار ماہ میں زمینی راستے سے ایران کے سینکڑوں چکر لگانے والے افراد کا ریکارڈ حاصل کرنے سے آگے نہیں بڑھ سکے حکومت کی تحقیقاتی ادارے کرنسی کی بیرون ملک سمگلنگ میں ملوث ان افراد کے کوائف کی چھان بین ابھی تک مکمل نہیں کر سکے…!!!
حکومت خود بھی مہنگائی کی اس آگ کو ہوا دینے میں مصروف ہے اور اس طوفان کے آگے بند باندھنے کے لیے موثر اقدامات کرنے کی بجائے ایسے اقدامات کئے جا رہے ہیں جس سے صورت حال مزید ابتری کی طرف جا رہی ہے ۔ گیس اور بجلی کی قیمتوں میں حکومت نے خود اضافہ کر کے مہنگائی کو ہوا دی ہے۔ اب پنجاب حکومت نے پراپرٹی ٹیکس میں دس سے تیس فیصد تک اضافے کی نوید شہریوں کو سنا دی ہے جب کہ پانچ مرلہ تک جو مکان پہلے ٹیکس سے مستثنیٰ تھے اب ان پر بھی پراپرٹی ٹیکس لاگو کیا جا رہا ہے جس کے نتائج کسی سے ڈھکے چھپے نہیں…!!!
حکومت اگر معاملات پر قابو پانے میں سنجیدہ ہوتی تو محض نمائشی اعلانات کی بجائے عملی اقدامات سامنے لاتی اور عالمی بنک اور آئی ایم ایف جیسے اداروں کے سامنے گھٹنے ٹیکنے سے بچنے کے لیے ایسے اقدامات کرتی جن سے ملکی معیشت کو سہارا ملتا اور معاشی بحران کو سنگین ہونے سے بچایا جا سکتا ہے مثال کے طور پر درآمدات اور برآمدات کے درمیان موجود زمین آسمان کے فرق کو ختم نہیں تو کم سے کم کرنے کی خاطر غیر ملکی درآمدات خصوصاً اشیائے تعیش کی درآمد پر سخت پابندیوں کے ذریعے تجارتی خسارہ کم کر کے معیشت کو سہارا دیا جا سکتا ہے اسی طرح ملکی برآمدات میں اضافہ بھی ناگزیر ہے اس کے لیے بھی جاندار اقدامات کیے جانا ضروری ہیں مگر حکومت کی طرف سے اس ضمن میں موثر اقدامات اور قانون سازی تو بعد کی بات ہے، سوچ بچار تک نہیں کی گئی…!!!
وزیر اعظم عمران خاں نے اپنے 50 لاکھ مکانات کی تعمیر کے انتخابی وعدہ کی روشنی میں اعلان تو کر دیا ہے اسی طرح انہوں نے ایک کروڑ ملازمتیں پیدا کرنے کا وعدہ بھی کر رکھا ہے یہ ارادے اور وعدے یقینا بہت خوش آئند اور خوش کن ہیں مگر ملکی معیشت جس تیزی سے رو بہ زوال ہے، اس کو دیکھتے ہوئے یہ بنیادی سوال بہت زیادہ اہمیت اختیار کر جاتا ہے کہ ان وعدوں کی تکمیل کے لیے درکار سرمایہ اور وسائل کہاں سے فراہم ہوں گے…؟؟؟
ملک بھر میں اسی ہفتے ضمنی انتخابات بھی ہونے جا رہے ہیں، حکمرانوں کو شاید احساس ہو یا نہ ہو کہ مہنگائی کا موجودہ طوفان ان انتخابات میں تحریک انصاف کی مقبولیت کے گراف کو بھی بری طرح متاثر کر سکتا ہے اور اس کی شدید نوعیت کے منفی اثرات ضمنی انتخابات پر مرتب ہو سکتے ہیں۔ عمران خان حکومت نے خود اپنے لیے کارکردگی جانچنے کا پہلے سو روز کا جو ہدف اور چیلنج عوام اور خصوصاً سیاسی مخالفین کے سامنے رکھا ہے ان سو دنوں کے پہلے نصف میں تحریک انصاف اور عمران خاں کی کارکردگی کو کسی بھی طرح اطمینان بخش قرار نہیں دیا جا سکتا اور جس طرح کے حالات سے قوم آج گزر رہی ہے آئندہ پچاس دنوں میں بھی کسی بہتری کی امید کرنا آسان اور قابل عمل دکھائی نہیں دیتیں۔ تحریک انصاف جو اپنے مخالفین کو تمام برائیوں اور خرابیوں کی جڑ قرار دے کر اپنے اقتدار میں عوام کو زبردست ریلیف دینے کے وعدوں پر اقتدار میں آئی ہے،اس کی اب تک کی کارکردگی لوگوں کے لیے ریلیف کی بجائے تکلیف میں اضافہ کا سبب بنی ہے ۔ حکمرانوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ جس طرح عوام کے جذبات سے کھیل کر اقتدار کے ایوانوں تک پہنچے ہیں آگ آئندہ پچاس دنوں میں بھی صورت حال یہی رہی تو عوام کا رد عمل حکمرانوں کی توقعات کے برعکس بھی ہو سکتا ہے…!!!
آئی ایم ایف کے پاس جانا مجبوری ہے، وزیرِاعظم عمران خان
وزیرِاعظم عمران خان نے 50 لاکھ گھروں کے وعدے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ’وزیرِ اعظم ہاؤسنگ اتھارٹی‘ کے قیام کا اعلان کردیا۔نیا پاکستان ہاؤسنگ منصوبے کے قیام کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیرِاعظم عمران خان نے ’وزیرِ اعظم ہاؤسنگ اتھارٹی‘ کے قیام کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ وہ خود اس اتھارٹی کی نگرانی کریں گے۔پاکستان میں گھروں کی تعمیر سے متعلق عمران خان کا کہنا تھا کہ ان کی حکومت آئندہ 5 سالوں میں 50 لاکھ گھروں کی تعمیر کرے گی۔وزیرِ اعظم کا کہنا تھا کہ یہ
گھر کم آمدنی والے افراد کو دیئے جائیں گے اور ان کے انتخاب کے لیے نادرا سے مدد لی جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ جب ان گھروں کی تعمیر کا آغاز ہوگا تو اس سے منسلک تقریباً 40 صنعتیں فعال ہوجائیں گی جن سے نوجوانوں کو روزگار ملے گا۔وزیرِ اعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ پاکستان کو 10 سے 12 ارب ڈالر کی ضرورت ہے جس کے لیے دوست ممالک اور انٹر نیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) سے بات چیت کی جائے گی۔نیا پاکستان ہاؤسنگ منصوبے کے قیام کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیرِ اعظم کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس مستقبل میں اتنے پیسے نہیں ہوں گے کہ ہم اپنے قرضے واپس کر سکیں۔انہوں نے کہا کہ آج پاکستان کو 10 سے 12 ارب ڈالر کی ضرورت ہے، اور اس وقت آئی ایم ایف کے پاس جانا مجبوری ہے۔وزیرِ اعظم کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کی حکومت نے آکر جو اقدامات کیے ہیں ان کے اثرات 6 ماہ بعد نظر آنا شروع ہوجائیں گے۔ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی برآمدات 25 ارب ڈالر سے کم ہوکر 15 ارب ڈالر تک پہنچ گئی تاہم اس کے لیے حکومت کی جانب سے رعایات دی گئی ہیں۔اپنی حکومتی کارکردگی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’یہ قلیل مدتی پریشانی ہے جس میں گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے، اور میں ملک کو بحران سے نکالوں گا‘۔اپنے خطاب کے اختتام پر وزیرِ اعظم کا کہنا تھا کہ قوموں کے اوپر اس سے بھی بڑے بڑے مسائل آئے ہیں، آج یہ جو اتنا بڑا مسئلہ بنایا ہوا ہے وہ 6 ماہ بعد لگے گا کہ کوئی مسئلہ تھا ہی نہیں، یہ مسئلہ صرف 10 سے 12 ارب ڈالر کا ہے۔