ڈاکیہ، ڈاک بابو ،ڈاک خانہ اور ڈاک بنگلہ جیسی اصطلاحات اب کم کم ہی سنائی دیتی ہیں۔یہ پرانے وقتوں کی بات ہے کہ ڈاکیا ،قاصد ، ڈاک کا ہرکارہ، چٹھی رساںکسی کے لیے خوش خبری اور کس کے لیے غم کی خبر لیے اپنے گلے میں ڈالے تھیلے میں پشاوری چپل پہنے، ناک پر عینک لگائے سردی ہو یا گرمی گلی گلی پھرتا دکھائی دیتا تھا۔بچوں کو توخاکی رنگ کی وردی والے ڈاکیے کے بارے میں سمجھانا مشکل ہے لیکن وہ کورئیروالے سے ضرور واقف ہیں۔ پرانے وقت میں گائوں دیہات کے کچے پکے راستے پرسائیکل سوار ڈاکیا نظر آیا نہیں کہ لوگ اس کی راہ میں کھڑے ہوجاتے تھے، یہ معلوم کرنے کہ کہیں ان کا کوئی خط تو نہیں آیا۔ کچھ کو منی آرڈر کا انتظار ہوتا تو صبح ہوتے ہی ڈاکیے کی سائیکل کے ہینڈل پر لگی گھنٹی کی آواز پر لوگ کان لگاکر بیٹھ جاتے تھے ۔اگر ڈاکیے کی طرف سے انکار ہوجائے تو مایوس ہوجاتے اور اگلے دن کی آس پر پھر اس کے انتظار میں بیٹھ جایا کرتے تھے ۔ہمارا ماضی کا ڈاکیا ہماری ستھری تہذیب کی علامت تھا اگر خط وصول کرنے والا ان پڑھ ہوتا تو ڈاکیا پڑھ کر سناتا تھا اور صرف یہی نہیں بلکہ اس میں بھی بڑی سمجھ داری کا ثبوت دیتا تھا خبر بری ہوتی تووہ سنجیدہ ہوکر اسے سناتا اور خاموشی سے واپسی چلا جاتا لیکن اگر خبر میں کوئی خوشخبری ہوتی تو وہ اپنا انعام یا ’’فیس ‘‘لیے بغیر نہ جاتا تھا ۔ماضی میں ان کو تنخواہ کے علاوہ 60روپے اور پشاوری چپل کے 40روپے سالانہ ملتے تھے ۔سال میں دو یونیفارم بھی محکمہ کے ذمے تھیں۔ عیدالفطر ، عیدالاضحی اوردوسرے تہواروں پر ڈاکیے کو خدمات کا خصوصی معاوضہ عیدی کے طور پر دیا جاتا تھا۔
اس پیامبر کی اہمیت صرف پیغامات کی ترسیل تک محدود نہیں ہوتی بلکہ یہ ہمارے ادب اور ثقافت کا اہم کردار تھا۔ کہتے ہیں ایک دور میں خط لکھنا خواندگی کا معیار تصوّر ہوتا تھا خواندگی کی شرح انتہائی کم تھی پوری پوری آبادی میں کوئی ایک خط لکھنے والا ہوتا تھا، ایک لطیفہ مشہور ہے کہ ایک خاتون کسی کے پاس خط لکھوانے گئیں، تو اس نے کہا میری ٹانگ میں درد ہے میں نہیں لکھ سکتا ،خاتون نے کہا خط تو ہاتھ سے لکھنا ہے پائوں سے کیا تعلق ؟تو اس نے کہا کہ جس کو خط لکھوارہی ہیں اس کا جواب لکھنے کے لیے بھی مجھے جانا پڑے گا‘‘۔پھر جیسے جیسے دنیا ترقی کرتی گئی فاصلے سمٹتے گئے تبدیلی آتی چلی گئی ،خط کی جگہ پہلے تار نے لی اور پھر ٹیلی گرام،فیکس کا دور آیا اور موبائل نے آکر تو بہت کچھ بدل دیا ڈاکیا کا کردار محدود ہوگیااور اب سوشل میڈیا اورانٹرینٹ نے خط یا چھٹی کے نظام کو کمزور اور ختم نہیں کردیا ہے بلکہ اس نے تو رشتوں کو کمزور اور متاثر کیا ہے۔اب شاذو نادر ہی کوئی کسی کو خط لکھتا ہوگا کیونکہ اب دنوں میں پہنچنے والا پیغام سیکنڈوں میں ایک ملک سے دوسرے ملک اور شہر پہنچ جاتا ہے لیکن شاید پیغام جاتا ہے۔ لیکن اب جدید پیغام رسانی کے نظام میں وہ جذبہ،درد اور خلوص نہیں پہنچ پاتا ہے ،جو خط لکھنے کے عمل سے اس کو ڈاک خانہ تک پہنچانے میں پیدا ہوتا تھا۔خیر یہ وقت وقت کی بات ہے اب جدید ٹیکنالوجی نے تو بہت کچھ تبدیل کردیا ہے ٹیکنالوجی نہ جانے ہمارے کتنے جذبے کھا گئی ہے اور اب ہم ایک مصنوعی دنیا میں جی رہے ہیں۔خط لکھنے کے رجحان کے حوالے سے آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ سن ستر اور اسی کی دہائیوں میں بی بی سی ارود سروس کے لندن آفس کو سالانہ ساٹھ سے پینسٹھ ہزار خطوط موصول ہوتے تھے جن کو چھانٹنے اور مرتب کرنے کے لیے پانچ افراد کا کُل وقتی عملہ تعینات تھا اور بُش ہاؤس سے کچھ فاصلے پر ایک الگ دفتر اسی کام کے لیے مخصوص تھا۔
تاہم کسی طور پر ڈاک کی اہمیت اب بھی برقرار ہے ۔ڈاک کا نظام ایک تاریخی اور عالمی نظام ہے اس نظام کی یہ خصوصیت ہے کہ اس کا تاریخی حوالہ آج سے سات ہزار سال پہلے فرعون مصر کے ابتدائی دور سے ملتا ہے۔عہد بابل میں تازہ دم اونٹوں اور گھوڑوں کے ذریعے سرکاری اور نجی ڈاک ایک شہر سے دوسرے شہر پہنچانے کا کام انجام دیا جاتاتھا ۔حضرت عمر رضی اللہ تعالی نے بھی ڈاک مربوط نظام دنیا کو دیا ۔برصغیر پاک و ہند میں علاالدین خلجی اور شیر شاہ سوری نے ڈاک کی بہتری کے لیے کام کیا ہے اورکئی اصلاحات و اقدامات کیے، مغل بادشاہ بھی ڈاک کی اہمیت سے بے خبر نہ تھے۔ڈاک ٹکٹ کا رواج جنگ آزادی سےچند سال پہلے شروع ہوا جب ایسٹ انڈیا کمپنی کے سر بارٹل فریری1851 میں سندھ کے چیف کمشنر تعینات ہوئے ۔ انہوں نے برطانیہ میں رولینڈہل کے مروجہ نظام ڈاک کو سندھ میں نافذ کیا۔برصغیر پاک و ہند میں پہلا ڈاک خانہ 1837 میں قیام پذیر ہوچکا تھا لیکن ایک طویل عرصے تک برطانوی ڈاک ٹکٹوں سے کام چلا یا جا تا رہا ہے اور بالآ خر1852 میںScinde Dawk نامی پہلا ڈاک ٹکٹ سر بارٹلے فریئر نے جاری کیا۔ یہ ڈاک ٹکٹ در اصل ’سندھ ڈاک‘ نامی لفظ کا برطانوی تلفظ تھا، انگریزوں نے جب سندھ فتح کیا تواس وقت کا ڈاک کا قدیم نظام ان کی فوجی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ناکافی تھا جس کے سبب انہوں نے ڈاک کا جدید نظام وضع کیا۔تقسیم ِ ہند کے بعد15 اگست 1947 سے پاکستان پوسٹ نے لاہور سے اپنا کام شروع کیا، اسی سال پاکستان یونیورسل پوسٹل یونین میں شامل ہوا۔ 1948 میں پاکستان پوسٹ نے ملک کے پہلے جشن ِ آزادی کے موقع پر اپنے پہلے یادگاری ٹکٹ شائع کیے۔
اقوام متحدہ کی خصوصی تنظیم یونیورسل پوسٹل یونین کے زیر اہتمام ہر سال 9 اکتوبر کے روزدنیا بھر میں ڈاک کا عالمی دن منایا جاتا ہے ۔اس دن کے منائے جانے کا مقصد ملکوں کے درمیان ڈاک کے ترسیلی نظام کے بارے میں قانون سازی کرنا ، اور دور جدید کی تبدیلیوںکے باوجود ڈاک کی اہمیت اور افادیت کو اجاگر کرنا اورنظام ڈاک کی ترقی کے لئے کاوشیں کرنا شامل ہے ۔اور ہر وہ ملک جو اقوام متحدہ کی خصوصی تنظیم یونیورسل پوسٹل یونین (UPU) کے ممبران میں شامل ہے اس موقع پر خصوصی ڈاک ٹکٹ کا اجرا ء کرتا ہے ۔ اقوام متحدہ کے اس خصوصی ادارے کا قیام 9 اکتوبر 1874میںسوئٹزر لینڈ کے دارالحکومت برن میں ہوا،اس دن کو منانے کا اعلان پہلی مرتبہ 1969 میں جاپان کے دارالحکومت ٹوکیو میں منعقدہ یونیورسل پوسٹل یونین کی کانگریس کے موقع پر کیا گیا۔ یونیورسل پوسٹل یونین کی سرگرمیوں میں پاکستان کا انتہائی مثبت کردار رہا ہے ۔
آج بھی پاکستان میں جہاں شہروں میں بڑا نیٹ ورک موجود ہے وہاں گاؤں میں پوسٹ ماسٹر اور پوسٹ مین کا اہم کردار ہے۔ماضی میں تو حکومت وسائل کی کمی کے باعث چھوٹے علاقوںاور گاؤں میں اپنی مدد آپ کے تحت کسی استاد یا کم تعلیم یافتہ کو ڈاک کی ذمہ داری بھی سونپ دیا کرتی تھی۔
یو این او کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں تیرہ ہزار ڈاک خانے اب بھی کام کررہے ہیں۔اب ہمارے ڈاک کے نظام سے صرف خط و رجسٹری تک محدود نہیں بلکہ ایک ہمہ جہتی آرگنائزیشن ہے۔مثلاً عام خطوط، ارجنٹ میل، رجسٹرڈ و بیمہ شدہ ڈاک، پارسل سروس، عام منی آرڈر، ارجنٹ اور فیکس منی آرڈر، سیونگ بینک وانشورنس سروسز حتیٰ کہ ڈاک خانے کے کاؤنٹر سے عوام کو موٹر وے گائیڈ اور زرعی پاس بک بھی مہیاکی جاتی ہیں۔ نئی حکومت نے ملک بھر کے تمام سرکاری محکموں کو ہدایت جاری کی ہے کہ وہ آئندہ اپنے محکمہ کی سرکاری ڈاک کی ترسیل پاکستان پوسٹ کے ذریعے کریں۔ملک بھر میں زیادہ تر سرکاری محکمے پرائیویٹ کورئیرر سروسز کے ذریعے ڈاک کی ترسیل کرتی ہیں جس کی وجہ سے محکمہ ڈاک کو مالی خسارے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔اس سے قبل حکومت نے بینظیر انکم سپورٹ اسکیم کا پورا پروجیکٹ پاکستان پوسٹ کے حوالے کیا ہوا ہے۔ملک کے طول و عرض میں علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے ڈاک اور کتب کی ترسیل کا سارا کام بھی پاکستان پوسٹ کے ذمے ہی ہے۔اس کے علاوہ صوبائی حکومت نے سستاآٹااسکیم،گورنمنٹ گرلز اسکول کے وظائف،منی آرڈر،ایم این سی ایچ، ہیلتھ منی آرڈرز،ڈومیسائل کے پراجیکٹ پاکستان پوسٹ کے حوالے کردیے ہیں۔ڈاک خانے کا نظام بے شک بہت پیچھے چلا گیا مگر آج بھی اس کی افادیت سے انکار نہیں۔ وہ گاؤں اور دیہات جہاں ابھی تک بجلی نہیں پہنچی وہ آج بھی ان ڈاک خانوں کے ذریعے اپنوں سے رابطے کاانحصار کرتے ہیں۔ شہروں میں تو کچھ حد تک ڈاک بابو کو سہولت اور کہیں موٹر سائکلیں بھی ملی ہیں ،لیکن دیہات کے ڈاک خانے کا ڈاک بابوآج بھی پیدل یا سائیکل پر گھر گھر ڈاک پہنچاتا نظر آئے گا ۔ہمارا محکمہ ڈاک ملک کے طول و عرض میں موجود اپنے وسیع نیٹ ورک کے سبب عوام تک موثر ترین رسائی رکھتا ہے۔اور یہ نیٹ ورک کسی بھی نجی کورئیر کمپنی کے پاس نہیں ہے ۔ کئی مواقع پر یہ کورئیر کمپنیاں بھی محکمہ ڈاک کی ہی سروس کو استعمال کرتی ہیں ۔آج برے حالات میں بھی محکمہ ڈاک بھی دیگر سرکاری اداروں اور محکموں کی طرح انحطاط کا شکار ہے، لیکن اس کے باوجود اس کی ارجنٹ سروس بہتر ہے اکثر اوقات خط یا کوئی اور چیز اسی دن بھی ڈیلیور ہوجاتی ہے۔
پاکستان کا تاریخی محکمہ ڈاک ہمارا اثاثہ اور ضرورت ہے اس کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا بھی حکومت کی ذمہ داری ہے۔ لیکن اس موئژاور سستے نظام کو مہنگا بنادیا گیا ہے ایک عام آدمی کے لیے آسان ترسیل کے نظام کواستعمال کرنا اب مشکل ہوگیا ہے اس کو معیاری کے ساتھ کم قیمت نظام بھی بنانا ہوگا یہی وجہ ہے کہ نجی ملکی اور بین الوقوامی کور یئر کمپنیوں کو کامیاب ہونے کا موقع ملا ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ تبدیلی سرکار کا اس شعبے میں کیا کردار ہوتا ہے ۔