“اسلاموفوبیا”۔۔۔ کھیل کے میدان میں بھی۔۔۔!۔

روس کے علاقے داغستان سے تعلق رکھنے والے ناقابل شکست یو ایف سی کے مسلمان اسٹار فری اسٹائل باکسر خبیب نرماگونیودف کا کہنا ہے کہ ان کے حریف کونر میک گریگر کی ٹیم نے ان کے مذہب، ملک اور والد کے بارے میں اشتعال انگیز باتیں کہیں تو وہ اپنے غصے پر قابو نہیں رکھ سکے اور مقابلہ جیتنے کے بعد حریف ٹیم پر چڑھ دوڑے۔ گزشتہ روز لاس ویگاس میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے خبیب کا کہنا تھا کہ لوگ میرے بارے میں بات کر رہے ہیں کہ میں نے رِنگ کے جنگلے سے چھلانگ لگائی اور حریف ٹیم کے ساتھ مار پیٹ کی، لیکن کوئی یہ نہیں دیکھ رہا کہ انہوں نے میرے مذہب، میرے ملک اور میرے والد کے بارے میں اشتعال انگیزی کی۔انہوں نے کہا کہ ان کے والد نے ہمیشہ اچھا برتاو کرنے کی تلقین کی ہے اورمجھ سے جو بھی یہ سب ہوا وہ میری شخصیت کاحصہ نہیں۔روسی فائٹر نے اپنے برتاوپر اپنے حامیوں اور امریکی ریاست نیواڈا کے ایتھلیٹک کمیشن سے معذرت بھی کی۔ لاس ویگاس میں ہونے والی مکس مارشل آرٹس کے سب سے بڑے مقابلے میں خبیب نرماگونیودف نے آئرلینڈ کے کونر میگریگر کو شکست دے کر یو ایف سی لائٹ ویٹ چیمپیئن شپ جیت لی تھی۔ فائٹ کے اختتام کے بعد کانر میگریگر کی ٹیم کی جانب سے کوئی جملہ کسا گیا تو خبیب نے رنگ کے جنگلے سے چھلانگ لگاکر حریف ٹیم کے عہدیداروں پر مکے برسادئیے۔یو ایف سی انتظامیہ اور اسٹیڈیم میں موجود سیکیورٹی دونوں نے ایم ایم اے فائٹرز کی ٹیموں کے درمیان لڑائی رکوانے کی کوشش کی۔اس دوران خبیب کی ٹیم کے ارکان نے بھی موقع کا بھرپور فائدہ اٹھایا اور رنگ میں کھڑے میگریگر پر مکوں کی بارش کردی۔فائٹ کے اختتام پر پیدا ہونے والی کشیدہ صورتحال کی وجہ سے یو ایف سی کے سربراہ چیف ڈونا وائٹ نے روسی فائٹر کو اس وقت بیلٹ دینے سے انکار کر دیا تھا تاہم بعد میں انہیں بیلٹ دے دی گئی۔ میگریگر ایک معروف اور میدان فتح کرلینے والا خطرناک فائٹر تھا، مگر اسی قدر وہ ایک بد تمیز ،شریر اور مذہب اسلام کو حقیر سمجھنے والا نامعقول شخص بھی تھا۔ اگر مقابلے کی ویڈیو، جو نیٹ پر دستیاب ہے، دیکھی جائے تو یقین ہو جائے گا کہ اسے مسلمان سے کتنی نفرت تھی اور وہ کس طرح خبیب کے ساتھ بدسلوکی سے پیش آتا تھا اور اسے اس کے مذہب کو لے کر پریشان کرتا تھا اور اسے شراب پینے کے لیے پیش کرتا، خبیب اسے حرام کہہ کر نکار کر دیتا تھا۔ وہ طاقت کے نشے میں چورخبیب کو حقارت آمیز انداز میں کہتا تھا کہ تم مجھ سے کسی صورت میں مقابلہ جیت نہیں سکتے۔ اگر تم میرے سامنے میدان میں آئے تو میں تمہیں کیڑے مکوڑوں کی طرح مسل کر رکھ دوں گا۔ تمہارا جان بچانا مشکل ہو جائے گا،جس پر خبیب صرف یہی کہتا تھا کہ ’’میرے ساتھ میرا اللہ ہے۔ میرے لیے یہی کافی ہے۔‘‘ ایسے میں یہ مقابلہ دنیا کا انوکھا مقابلہ بن گیا، جس پر عالم اسلام کی نگاہیں جمی ہوئی تھی۔ مقابلے کے وقت سب کے دل کی دھڑکنیں تیز ہو رہی تھیں کیوں کہ وہ اپنے فائٹر خبیب کو بہر صورت اس مقابلے کا فاتح دیکھنا چاہتے تھے اور اس کے لیے دعائیں کر رہے تھے۔مقابلہ شروع ہوتے ہی خبیب نے اسے پیٹا ، اس پر خوب پنچ برسائے اور چوتھے راؤنڈ میں اس کی گردن اس قدر دبوچی کہ اس خونخوار اور کبھی نہ ہارنے والے میگریگرنے فوراً ہار تسلیم کرلی۔

معین علی کا آسٹریلوی کھلاڑیوں پر نسلی تعصب کا الزام

انگلینڈ کے پاکستانی نژاد ٹیسٹ آل راونڈر معین علی نے آسٹریلوی کھلاڑیوں پر تعصبانہ رویے کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ 2015 میں کارڈف ٹیسٹ کے دوران ایک آسٹریلوی کھلاڑی انہیں اسامہ کہہ کر پکارتا رہا۔میڈیا رپورٹ کے مطابق معین علی نے کہا کہ2015 کی ایشز سیریز میں جب وہ آسٹریلوی کے خلاف کھیلنے کے لیے میدان میں اترے تو انہیں ایک کھلاڑی نے اسامہ کہہ کر پکارا،لیکن انہوں نے اس کھلاڑی کا نام بتانے سے گریز کیا ہے۔
معین علی نے یہ سنسنی خیز انکشاف اپنی سوانح حیات میں کیا ہے جو آئندہ ماہ ایک برطانوی اخبار میں منظر عام پر آئے گی۔عالمی شہرت یافتہ معین علی کے مطابق کارڈف ٹیسٹ میں جب وہ پہلی بار میدان میں اترے تو آسٹریلوی کھلاڑی نے ان کو اسامہ کہہ کر جملہ کسا۔معین علی نے ٹیسٹ میں77رنز بنائے اور پانچ وکٹ حاصل کئے۔انگلینڈ نے آسٹریلیا کو169رنز سے شکست دی۔
معین علی نے کہا کہ آسٹریلیا کے خلاف یہ میری پہلی میچ وننگ کارکردگی تھی لیکن اس میچ میں ایک کھلاڑی کی جانب سے کسے جانے والے اس جملے نے مجھے سخت دھچکا پہنچایا ،وہ کھلاڑی کہہ رہا تھا کہ اس اسامہ کو قابو کرنا ہے۔معین علی نے تحریر کیا ہے کہ میں نے جو سنا اس سے مجھے اپنے کانوں پر یقین نہیں آیا ،یہ سن کر میرا چہرہ لال ہوگیا کیوں کہ کرکٹ کے میدان میں پہلی بار اس قدر غصے میں دکھائی دیا تھا، یہ جملہ میری برداشت سے باہر تھا۔دوسری جانب کرکٹ آسٹریلیا نے معین علی کے الزامات پر تحقیقات کا اعلان کردیا، جب کہ آئی سی سی ترجمان کا کہنا ہے کہ ان الزامات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ہر ملک کی اپنی نسلی تعصب کی پالیسی ہے۔