وزیراعظم عمران خان کی قیادت میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف کے پاس قرض کے نئے پروگرام کے لیے جانے کا اعلان کردیا ہے۔ یہ تیسری سیاسی حکومت ہے جس نے قرضوں کی ادائیگی کے لیے آئی ایم ایف کی سخت شرائط پر قرضہ حاصل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ 1958ء کے فوجی انقلاب کے بعد حکومت پاکستان نے آئی ایم ایف سے پہلا قرضہ لیا تھا، ماہرین معاشیات اس بات سے واقف ہیں کہ دیگر عالمی مالیاتی اداروں اور سرمایہ دارانہ ملکوں کے سودی قرضوں کے مقابلے میں آئی ایم ایف کی شرائط سخت ہوتی ہیں اور اس ادارے کو امریکہ براہ راست کنٹرول کرتا ہے۔ اس لیے عالمی بنک کی شرائط امریکی مفادات کے تابع ہوتی ہیں۔ عالمی اداروں سے قرضوں کے باوجود اس بات کی کوشش کی جاتی ہے کہ تیسری دنیا کے ممالک اپنے آپ کو آئی ایم ایف کے شکنجے سے بچا کر رکھ سکیں ۔عمران خان کی قیادت میں قائم نئی حکومت آخر وقت تک آئی ایم ایف کے پاس جانے سے گریز کرنے کے اشارے دیتی رہی، وزیراعظم عمران خان بلند بانگ الفاظ مین بیرونی قرضوں کو غلامی کی شکل قرار دیتے رہے ہیں، اس لیے ہر قسم کے دباؤ کے باوجود اس بات کی توقع تھی کہ حکومت آئی ایم ایف سے قرضہ لینے سے احتراز کرے گی۔ ایسی بات نہیں ہے کہ حکومت پاکستان کے پاس آئی ایم ایف سے قرضہ لینے کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں تھا۔ اس لیے کہ آزاد ماہرین معاشیات کی ایک بڑی تعداد اس رائے کا اظہار کرتی رہی ہے کہ پاکستان کے پاس متبادل راستہ موجود ہے۔ یہ بات سب کے علم میں تھی کہ پاکستان کے پاس زرمبادلہ کے ذخائر انتہائی کم سطح پر پہنچ گئے ہیں اور تلخ اور فوری اقدامات کی ضرورت ہوگی۔ قرضوں کی معیشت سب سے بڑا چیلنج ہے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت پر جو سب سے بڑی تنقید کی جاتی تھی وہ بھی یہی تھی کہ اس حکومت کے دور میں بیرونی قرضوں میں غیر معمولی اضافہ ہوگیا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کی قیادت کا دعویٰ تھا کہ پاکستانی اشرافیہ اور سیاست دانوں کی بہت بری رقم بیرون ملک بنکوں میں جمع ہے جو انہوں نے قومی دولت لوٹ کر منتقل کی ہے۔ یورپ، امریکہ اور خلیجی ریاستوں میں قوم کے لوٹے ہوئے مال سے قیمتی جائیدادیں بنائی گئی ہیں۔ اس رقم کو واپس لے آیا جائے تو قومی قرضے ادا ہو سکتے ہیں۔ یہ تجزیہ جزوی حد تک درست ہے لیکن سابقہ حکومتوں پر فرد جرم عاید کرنے کے ساتھ ساتھ اس بات کی ضرورت بھی تھی کہ معیشت کی بحالی کے لیے فوری اور طویل المعیاد منصوبے بنائے جائیں۔ وہ اس بات سے اچھی طرح واقف تھے کہ حکومت میں آنے کے بعد فوری چیلنج زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی اور قرضوں کی ادائیگی ہے۔ سیاسی اور اقتصادی مبصرین کی اس بات پر نظر تھی کہ نئی حکومت آئی ایم ایف کے پاس قرضوں کے لیے جائے گی یا نہیں۔ کیا پاکستان کے وسائل پر قابض طاقتور طبقات جنہوں نے آزادی کو غلامی میں تبدیل کردیا ہے وہ اس حکومت کو آزادانہ فیصلہ کرنے کی اجازت دیں گی۔ اور ایسی قوتوں کا مقابلہ کرنے کے لیے عمران خان کے پاس کیا لائحہ عمل ہے، اس بات سے تو سب کو اتفاق ہے کہ کسی بھی حکومت کے پاس کوئی جادوئی چھڑی نہیں ہے جس سے برسوں کے بحران کو دنوں کے اندر ختم کردیا جائے، لیکن یہ سوال بھی موجود ہے کہ کیا کوئی لائحہ عمل کوئی وژن اور بصیرت موجود ہے۔ سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا ہماری ہئیت مقتدرہ میں ایسے آزاد لوگ موجود ہیں جو قوم کو امریکہ نما سیاسی اور عالمی سرمایہ داری کی اقتصادی اور تہذیب مغرب کی ثقافتی غلامی سے آزاد کرا سکیں گے۔ اس وقت کرپشن کا خاتمہ سب سے بڑا نعرہ ہے، لیکن ہمارے اہل دانش اس بات کو بھول گئے ہیں کہ کرپشن اور بدعنوانی امریکی سامراجیت اور عالمی سرمایہ داری کی غلامی کا تلخ پھل ہے، پاکستانی حکمراں اشرافیہ ایسے لوگوں سے محروم ہے جو آزادانہ ذہن و دماغ رکھتے ہوں جن کے مفادات عالمی سرمایہ دارانہ لوٹ مار سے متعلق نہ ہوں بلکہ ایسے لوگ بڑی تعداد میں موجود ہیں جو اپنی وفاداریاں فروخت کرچکے ہیں۔ عالمی سرمایہ دارانہ مافیا نے تیسری دنیا کے حکمرانوں کو منصوبے کے تحت کرپٹ کیا ہے جس کی وجہ سے تیسری دنیا کا کوئی ملک آزادانہ فیصلے کرنے کے قابل نہیں رہا ہے، اگر ہم پاکستان میں آئی ایم ایف کے سخت ترین قرضوں کی تاریخ کو اپنے سامنے رکھیں تو حقائق واضح ہو جائیں گے۔ آئی ایم ایف کے نئے قرضوں کے سلسلے کا آغاز آصف زرداری کی قیادت میں قائم ہونے والی حکومت نے کیا۔ نئی حکومت بنتے ہی ستمبر 2008ء میں تین برس کے لیے قرض کا معاہدہ ہوا، آصف زرداری کی حکومت این آر او کے تحت امریکی، برطانوی اور دیگر عالمی قوتوں کی مداخلت سے قائم ہوئی تھی۔ پاکستان کے اوپر فرینڈز آف پاکستان اور کیری لوگر بل کے نام سے زبردست سیاسی دباؤ تھا۔ این آر او کے معاہدے کے تحت قائم ہونے والی پاکستان کی حکومت نے آئی ایم ایف کے قرضے میں ملک کو جکڑا، اس کے بعد ستمبر 2013ء میں میاں نواز شریف کی قیادت میں قائم ہونے والی حکومت بھی تین برس کے لیے آئی ایم ایف قرض کا معاہدہ کرنے پر مجبور ہوئی اور یہی صورت اب عمران خان کی حکومت کو بھی درپیش ہے۔ ہر حکومت سخت شرائط کو تسلیم کرتی رہی ہے۔ حکومت کو ایف اے ٹی ایف کا چیلنج بھی درپیش ہے۔ انہی معاہدوں کے تحت مسلسل روپے کی قیمت کم ہوتی جا رہی ہے، ڈالر کی قیمت بڑھ رہی ہے۔ بنیادی اشیائے ضرورت کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے اس کے باوجود وزیراعظم کا دعویٰ ہے کہ وہ ملک کو معاشی دلدل سے نکالیں گے۔ کاش ایسا ہوسکے!