معاشی نظام سرمایہ داری نظریے پر کھڑا ہو یا اشتراکی بنیادوں پر استوار کیا گیا ہو‘ انسانوں کے بنائے ہوئے اس معاشی نظام کو کبھی دوام حاصل نہیں رہا‘ دنیا میں اس وقت نافذ العمل معاشی نظام در اصل جدید ساہو کاروں نے ترتیب دیا ہوا ہے جس میں سارا کنٹرول سرمایہ دار کے پاس ہے دنیا بھر کی معیشت اسٹاک مارکیٹوں کی مرہون منت ہیں‘ چند ساہو کار عالمی معیشت کو کنٹرول کرتے ہیں اوراس میں سب سے زیادہ کردار انڈر ورلڈ سے وابستہ لوگ ادا کرتے ہیں عالمی ساہو کاروں کا یہی گروہ دنیا بھر میں حکومتیں بناتا ہے اور گراتا ہے جنوب ایشیا بھی ایک عرصے سے ان کا ہدف بنا ہوا ہے اور جنوب ایشیا میں رونما ہونے والی معاشی تبدیلیاں پاکستان پر بھی اثر انداز ہوتی ہیں اس خطہ میں سی پیک نے بلاشبہ ایک معاشی تحرک پیدا کیا اب اس کے مقابلے میں یورپ نے بھی زمینی راستے تعمیر کرکے دنیا بھر کی مارکیٹوں سے مربوط ہونے کا فیصلہ کیا ہے ابھی حال ہی میں صدر ٹرمپ اور یورپی یونین نے باہمی تجارت کے لیے زیرو سبسڈیز اور زیرو ٹیرف معاہدہ کیا ہے یہ معاہدہ چین کا معاشی گھیرائو کرنے کی منصوبہ بندی ہے اس کا معاشی اثر پاکستان پر بھی پڑا ہے عالمی سطح پر معاشی تبدیلیوں کا یہ عمل عین اس وقت شروع ہوا جب پاکستان میں انتخابات ہورہے تھے اور اب ملک میں نئی حکومت تشکیل پاچکی ہے لہذا ان عالمی تبدیلیوں کے باعث اسے بھی معاشی بحران ورثے میں ملا حکومت نے ان چیلنجز کے لیے ملکی معیشت استوار کرنے کے لیے بساط پر مہرے ترتیب دینے کی کوشش کی لیکن تمام تر دعوئوں کے باوجود آئی ایم ایف کی دہلیز پر اسے جاکھڑا ہونا پڑا ہے جس کے نتیجے میں ڈالر مہنگا ہوگیا اور ڈالر مہنگا ہونے سے ملک ایک دن میں دو سو نو ارب ڈالر قرض تلے دب گیا حکومت کے پاس اپنے اس فیصلے کے دفاع میں کچھ بھی نہیں ہے‘ وزیر اعظم عمران خان اپنی میڈیا ٹیم پر برہم ہورہے ہیں‘ اور فیصلہ کیا ہے کہ وہ خود پارلیمنٹ میں وضاحت کریں گے حکومت کے متعدد وزراء اس خیال سے اتفاق نہیں کر رہے کہ جانے والی حکومت نئی حکومت کیلئے معاشی بحران چھوڑ کر گئی لیکن یہ موقف صرف وزیر خزانہ کا ہے انہی کی تجویز پر تمام وسائل کا تفصیلی جائزہ لیا گیا اور معاشی بحران کے حل کیلئے دوست ممالک سے بھی بات کی لیکن حکومت کو یقین ہورہا ہے کہ معاشی بحالی آسان نہیں مشکل چیلنج ہے17 اگست کو عمران خان وزیراعظم منتخب ہوئے تو اسٹاک مارکیٹ کا انڈیکس 42 ہزار 4 سو 40 پوائنٹس پر تھا۔ پی ٹی آئی حکومت کے باون دنوں میں انڈیکس میں 11 فیصد کمی ہوئی اور 4 ہزار 5 سو 42 پوائنٹس کی کمی دیکھی گئی نوازشریف کی نااہلی سے اب تک کیپٹل مارکیٹ میں تقریبا 39 فیصد اور ن لیگی حکومت ختم ہونے سے اب تک 18 فیصد کمی ہوچکی ہے ایک ماہ میں ڈالر کے مقابلے میں روپے کی بے قدری بھی بڑھی اور اوپن مارکیٹ میں امریکی کرنسی نے ریکارڈ چھلانگ لگائی۔ ڈالر کی قدر 5 روپے بڑھی اور قیمت 134 روپے ہوگئی۔ 17 اگست کو وزیراعظم عمران خان کے انتخاب کے دن ڈالر اوپن مارکیٹ میں 122 روپے کا تھا جو اب 12 روپے بڑھ کر 134 روپے کا ہوچکا ہے پی ٹی آئی حکومت آتے ہی زرمبادلہ کے ذخائر میں بھی واضح کمی ہوئی، اگست 2018 کو زرمبادلہ کے ذخائر 16 ارب 72 کروڑ ڈالر تھے اور نئی حکومت کے باون دنوں میں زرمبادلہ ذخائر میں ایک ارب 83 کروڑ ڈالر کی کمی ہوئی، اس وقت مجموعی ذخائر 14 ارب 89 کروڑ ڈالر ہیں، جو بمشکل 6 ہفتے کی امپورٹ کیلئے ہی کافی ہیںماہرین اقتصادیات حکومت کے بروقت فیصلہ نہ کرنے کو معاشی بحران کی بڑی وجہ قرار دیتے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کی ٹیم اب تک کسی معجزے کے انتظار میں رہی لیکن کوئی معجزہ نہ ہوا اور خراب معاشی صورتحال بڑھتے بڑھتے سنگین صورتحال اختیار کرگئی اور اس خرابی کے بعد حکومت آئی ایم ایف کے پاس گئی ہے اسی کے سبب ڈالر کی قیمت بھی بڑھی ہے اب اس خرابی کے بعد آئی ایم ایف سے 3 سال کیلئے 7 سے 8 ارب ڈالر کے بیل آؤٹ پیکیج کی بات ہوگی۔ وزارت خزانہ نے باقاعدہ اعلامیہ جاری کیا کہ حکومت نے آئی ایم ایف پروگرام کا فیصلہ مالی صورتحال پر ماہرین معاشیات سے مشاورت کے بعد کیا ہے وزارت خزانہ کا یہ کوئی پہلا اعلامیہ نہیں ہے وہ ایسے اعلامیوں کی عادی ہے اور اس کےکمپیوٹر میں ایسے اعلامیوں کا ایک تیار شدہ ڈرافٹ ہمیشہموجود رہتا ہے بس تاریخ بدل کر اسے جاری کردیا جاتا ہے۔ ماضی قریب کی بات کی جائے تو پاکستان 1990 کے بعد 10 مرتبہ آئی ایم ایف پروگرام لے چکا،وزارت خزانہ کے جاری اعلامیے میں ایک دلچسپ بات یہ کہی گئی ہے کہ ہر حکومت نے گزشتہ حکومتوں کی پالیسوں سے معیشت کے نقصانات کے باعث آئی ایم ایف سے رجوع کیا،اس وقت پاکستان کا کرنٹ اکائونٹ خسارہ 2 ارب ڈالر ماہانہ ہے، توانائی کے شعبے کے نقصانات 1 ہزار ارب روپے سے زیادہ ہیں، ترامیمی فنانس ایکٹ بھی ان حالات کی وجہ سے لانا پڑا جبکہ سٹیٹ بینک نے پالیسی ریٹ میں اضافہ مائیکرو اکنامک استحکام کیلئے کیا،حکومت آئی یم ایف کا پروگرام لے کر بنیادی اصلاحات لائیگی جس کے بعد دوبارہ آئی ایم ایف کے پاس جانے کی ضرورت نہیں رہے گی یہ دعوے بہت کیے جاچکے ہیں بہر حال وزیر خزانہ اسد عمر اپنی ٹیم کے ساتھ آئی ایم ایف سے بات چیت کے لیے انڈونیشیا روانہ ہوچکے ہیں جہاں وہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے سالانہ اجلاس میں شرکت کریں گے اور آئی ایم ایف سے باضابطہ درخواست کریں گے۔پاکستان کی درخواست کے بعد جواب میں آئی ایم ایف وفد 10 روز میں پاکستان کا دورہ کرے گا اور اپنی شرائط سامنے رکھے گا، پاکستان کی رضا مندی کے بعد پروگرام کو حتمی شکل دی جائیگی۔ اس سارے عمل کیلئے 4 سے 6 ہفتوں کا وقت درکار ہوگا، آئی ایم ایف پروگرام کا دورانیہ 3 سال ہو گا آئی ایم ایف پاکستان کو 10 ارب ڈالر تک کا قرضہ دے سکتا ہے آئی ایم ایف نے پاکستان کو قرضہ دینے کیلئے 20شرائط رکھ دی ہیں جس میںروپے کی قدر میں مزید کمی اورڈالر کی قیمت میں اضافہ کرنا سرفہرست ہے،ڈالر کی قیمت میں 15فیصد اضافے سے 150روپے تک پہنچ جائے گی آئی ایم ایف نے بجلی اور گیس کی قیمتوں میں بھی اضافے کا بھی مطالبہ کیا ہے، عملدرآمد کے بعد بجلی کی قیمت میں4روپے فی یونٹ تک اضافہ کرنا ہوگا پاکستان اس صورت حال سے باہر نکلنے کے لیے سعودی عرب گیا تھا مگر وہاں ہونے والی بات چیت میں خاطر خواہ کامیابی نہیں ملی،اب آئی ایم ایف کی شرائط تسلیم کی جائیں گی اس معاہدے سے قبل ہی روپے کی قدر غیر مستحکم ہونے سے انٹربینک مارکیٹ میں ایک ہی روز میں 9 روپے 75 پیسے اضافے کے ساتھ ڈالر 134 روپے کا ہوگیاجس کہ وجہ معاشی ماہرین حکومت کے آئی ایم ایف سے قرض لینے کا فیصلہ قرار دے رہے ہیںحکومت کی جانب سے انٹرسٹ ریٹ میں اضافہ اور دیگر اقدامات آئی ایم ایف میں جانے سے پہلے کے اقدامات ہیں حکومت کو اچھی طرح علم ہے کہ ڈالر کہاں تک جاسکتا ہے وزیراعظم عمران خان نے اسد عمر کے فیصلوں کے نتائج نہ آنے پر مذاکرات کی منظوری دی اب حکومت آئی ایم ایف سے ایسا پروگرام لینا چاہتی ہے جس سے معاشی بحران پر قابو پایا جاسکے لیکن اس معاہدے سے قبل ہی ملک میں مہنگائی اپنے عروج پر پہنچ چکی ہے۔ حکومت کے داخلی بحران کی وجہ سے فیصلوں میں تاخیر ہوئی اور نتیجہ یہ نکلا کہ مارکیٹ میں ڈالر 9روپے 75 اضافے کے بعد 134 روپے کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیاہے جبکہ مختلف جگہ پر ڈالر 136 روپے میں فروخت ہوا جس کے بعد پاکستان کے بیرونی قرضوں میں 900 ارب روپے کا اضافہ ہو گیاہے دوسری جانب 100 انڈکس میں تیزی دیکھنے میں آئی ہے اور سٹاک مارکیٹ میں1100 پوائنٹس کا اضافہ ہواہے جس کے بعد 100 انڈکس 39000 کی سطح پر پہنچ گیاہے موجودہ معاشی و سیاسی حالات کے باعث سٹاک مارکیٹ میں سرمایہ کاری میں تیزی سے کمی آرہی ہے اور 100 انڈیکس 39 ہزار کی نفسیاتی حد بھی کھوچکا ہے پاکستان کو فوری طور پر 10 سے 12 ارب ڈالر کی ضرورت ہے، ملک کے موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے عالمی مالیاتی ادارے ہوں یا ریٹنگ ایجنسی اپنے خدشات کا اظہار کررہے ہیں۔ جنوری سے اب تک پاکستان سٹاک ایکسچینج سے بیرونی سرمایہ کار لگ بھگ 30 کروڑ ڈالر کا سرمایہ نکال چکے ہیں،ملک بھر میں 50 فیصد آئل ملز اضافی ٹیکسیشن کی وجہ سے بند ہوچکی ہیں اور اس وقت رحیم یار خان، راجن پور، ڈیرہ غازی خان سمیت جنوبی پنجاب کے مختلف علاقوں میں بنولہ کی 80 فیصد خریداری بند کر دی گئی ہے آئل ملزما ملکان ٹیکس باقاعدگی سے ادا کرتے ہیں اور کرتے رہی گے لیکن ناجائز ٹیکس ہرگزادا نہیں کریں گے۔ ناجائز ٹیکسیشن کے خلاف وہ پہلے ہی عدالت سے رجوع کر چکے ہیں اور عدلیہ نے فیڈرل بورڈ آف ریونیو کوحکم دیا ہے کہ وہ مذاکرات کر ے لیکن ایف بی آر نے تاحال ان سے رجوع نہیں کیا جبکہ 140 میں سے 70 آئل فیکٹریاں بند ہوچکی ہین آئل فیکٹریوںکا ٹیکس 2 ارب روپے بنتا ہے مگر ان پر 5 ارب روپے کا ٹیکس ڈال دیا گیا ہے یہ صورت حال حکومت کی نالائقی بھی ظاہر کر رہی ہے کہ اس نے کسی منصوبہ بندی کے بغیرتبدیلیاں لانا شروع کیں لیکن آئی ایم ایف پیکیج کے بعد ایک آدھ ماہ میں معاملات درست ہوجائیں گے، اس وقت معاشی مسائل بہت زیادہ ہیں مالیاتی خسارہ 60فیصد کے قریب جارہا ہے اور بہت بڑی ایڈ جسٹمنٹ کی ضرورت ہے حکومت نے کچھ ایسے فیصلے کئے ہیں جیسے ٹیکسٹائل انڈسٹری کے لئے گیس کی قیمتیں کم کی گئی ہیں اور ٹیکسز میں اضافہ کیا گیا ہے۔ یہ سارا کچھ ایمرجنسی میں ہواہے اور اب جب نتائج آئیں گے تو پتہ چلے گا کہ کیا اثرات ہوئے ہیں لیکن عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہوا تو حکومت مزید دبائو میں آجائے گی اور اگر تیل کی قیمتیں کم ہوئیں تو بونس ملے گا حکومت کا خیال ہے کہ اس وقت ریونیو میں اضافہ اوّلین ضرورت ہے۔اس لیے نجی شعبہ ہی اس کا ہدف بنا ہوا ہے، معاملات درست کرنے کیلئے سرمایہ کاری اور استحکام دونوں کی طرف توجہ دینا ہوگی کوشش تھی کہ حکومت منی بجٹ سے کچھ بہتری لائے گی لیکن اسے سمجھ ہی نہیں معاملات درست کرنے کے لیے سرا کہاں سے پکڑنا ہے گزشتہ حکومت نے بجٹ کے موقع پر مالی خسارہ قومی آمدنی کا 49 فیصد ایک ہزار نو سو ساٹھ ارب روپے ظاہر کیا تھا جو آمدنی و اخراجات کے غلط اندازوں پر مبنی تھا جب جائزہ لیا گیا تو مالی خسارہ 72 فیصد دو ہزار آٹھ سو ارب روپے نکلا ہے اب مالی خسارہ 51 فیصد دوہزار چالیس ارب روپے رکھا گیا ہے یوں حکومت کا دعوی ہے کہ آمدنی میں اضافہ اور اخراجات میں کمی کرنے کے آٹھ سو چالیس ارب روپے کے اقدامات کیے ہیں لیکن بجٹ کی درستگی کا یہ دعویٰ حقائق پر مبنی نہیں ہے قومی اسمبلی کو یہ تفصیل نہیں بتائی گئی گزشتہ حکومت کے بجٹ میں آمدنی اور اخراجات کے کون سے اندازے غلط تھے اور ان کی غلطی کا تعین کیسے کیا گیا ہے اور کون سے اصلاحی اقدامات اٹھائے گئے ہیں اصل میں مالی خسارہ 49 فیصد شاہد خاقان حکومت نے ظاہر کیا تھا اور 51 فیصد عمران خان حکومت نے ظاہر کیا ہے اعدادو شمار کی جادوگری سے مالی خسارے کو 72 فیصد سے 51 فیصد تک کم کیا گیا ہے نئے ٹیکس لگانے اور اخراجات کم کرنے کی تفصیلات بھی چھپائی گئی ہیں،منی بجٹ میں نئے ٹیکس 183 ارب روپے کے ہیں اور ترقیاتی اخراجات میں کٹوتی 225 ارب روپے کی ہے یہ مجموعی طور پر 408 ارب روپے بنتے ہیں۔ لیکن حکومت کا دعوی تھا کہ وہ نو ارب روپے کا بندوبست کرے گی۔ اہم ترین نکتہ یہ بھی ہے کہ جن چار سو آٹھ ارب روپے کا دعوی کیا جارہا ہے وہ بھی درست نہیں ہے 183 ارب روپے کے ٹیکس اقدامات کی وضاحت وزیر خزانہ نے یوں کی کہ اس میں سے 92 ارب روپے نئے ٹیکس نہیں ہیں ترقیاتی بجٹ میں کمی 75 ارب روپے سے زیادہ نہیں ہے ان اندازوں کے تحت اقدامات کا مجموعی اثر 166 ارب روپے ہوتا ہے، اور یہ مطلوبہ 840 ارب روپے کے مقابلے میں بہت کم ہے ۔ اب حکومت پھر آئی ایم ایف کا پروگرام کی طرف جارہی ہے کہ سعودی عرب سے حوصلہ افزا جواب نہیں ملا اور سی پیک پر نظر ثانی کی جارہی ہے لہذا چین کے دورے کا فی الحال کوئی امکان نہیں ہے۔ آئی ایم ایف کا ایک مشن گزشتہ دنوں اسلام آباد آیا تھا مشن نے اپنے کام کے اختتام پر ایک بیان جاری کیا ہے اس کے مطابق معیشت کو مالی اور بیرونی خساروں کا سامنا ہے، شرح تبادلہ اور پالیسی ریٹ دونوں متوازن سطح سے نیچے ہیں، زرمبادلہ کے ذخائر خطرناک حد تک کم ہوگئے ہیںاگر فوراً اقدامات نہیں اٹھائے جاتے تو معاشی صورتحال تیزی سے بگڑ سکتی ہے، وزات خزانہ نے مشن کی رپورٹ سے اتفاق کیا ہے اور آئی ایم ایف سے بات چیت شروع کی جارہی ہے اس معاملے پر حکومت میں وسیع اختلافات ہیں ایک جانب کابینہ ہے اور دوسری جانب تنہا وزیر خزانہ‘ انہیں وزیراعظم کی حمایت بھی میسر نہیں اس کے باوجودآئی ایم ایف سے مذاکرات کئے جا رہے ہیں۔مالی خسارہ 125ارب ہے جو بڑھ کر3 ارب ہوجائے گا آئی ایم ایف چاہتا ہے کہ حکومت بین الاقوامی سطح پر پیڑول کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کو نظر میں رکھے صوبوں کو جو 286ارب دینے ہیں ان کا نئے بجٹ میں ذکر نہیں اور 45ارب ڈالر کے آئندہ پانچ سالوں میں نئے منصوبے بنانے کی تیاری کررہی ہے۔ ابھی اسے اپنے 100دن میں بہت کچھ تیاری مستقبل کے لئے کرنا ہے تاکہ معیشت اپنے پیروں پر کھڑی ہوسکے۔