سی پیک اور گوادر میں سعودی سرمایہ کاری

بلوچستان اپنی طویل ساحلی پٹی، زیر زمین بیش بہا معدنی دولت اور جغرافیہ کے لحاظ سے انتہائی اہمیت کا حامل صوبہ ہے۔ اس کی تزویراتی اہمیت ماضی اور قریب کی تاریخ میں دنیا کی نظروں میں رہی ہے۔ اور اس بناء پر یہ خطہ آج بھی مرکز نگاہ ہے۔ زار شاہی اور کمیونسٹ روس کاگرم پانیوں تک رسائی کا خواب پورا نہ ہوسکا۔چونکہ وہ استعماری ارادوں کے ساتھ بڑھنا چاہتے تھے خاص کر کمیونسٹ روس اپنے اشتراکی و الحادی نظریات اور فوجی و استبدادی قوت کے ساتھ حرکت پذیر تھا جو افغانستان میں بالآخر الجھ گیا اور اپنے استعماری و سامراجی ارادوںو نظریات کے ساتھ فنا کے گھاٹ اُتر گیا۔قرعہ چین کے حق میں نکلا جسے گوادر تک رسائی مل گئی ۔ یہی نہیں ون بیلٹ ون روڈ منصوبے کے ساتھ دنیا کے کئی ممالک تک اپنی تجارتی و معاشی سرگرمیاں پھیلانے میں ہمہ تن مصروف ہے۔ پاکستان کے اندر برسوں سے چین پاکستان اقتصادی راہداری کا غلغلہ بلند ہے۔ اس حوالے سے مغربی اور مشرقی روٹ کا تنازع بھی کھڑا ہوا ۔ اب صوبے کی سیاسی جماعتوں کا نوک پر سی پیک سے متعلق مطالبہ ہے کہ اس تناظرمیں بلوچستان کے مفادات کو بہر حال مقدم رکھا جائے۔ چونکہ ماضی کے معاہدوں جن میں سیندک اور ریکوڈک کے ذخائر پر چین اور ٹیتھان کمپنی کے ساتھ معاہدے شامل ہیں کا فائدہ وفاق پاکستان، چین یا ٹیتھان کمپنی کو ملا ہوگا مگر بلوچستان اللہ کی دی ہوئی اپنی ان نعمتوں سے محروم رہا ہے۔ نواب اسلم رئیسانی وزیراعلیٰ تھے، انہوں نے ٹیتھان کمپنی کے ساتھ معاہدہ ختم کردیا۔ نیت یہ تھی کہ ریکوڈک کے سونے اور تانبے کے ذخائر کو ہم خود بروئے کار لائیں گے ۔تاہم اس کے برعکس اللوں تللوں کا دور دوراہ ہوا۔کام ٹھپ ہوکر رہ گیا۔ کمپنی نے عالمی عدالت میں دعویٰ داخل کرادیا۔ عالمی عدالت میں کیس لڑنے پر تین ارب روپے سے زائد خرچ کرنے کے باوجود اب حکومت بلوچستان کو بھاری جرمانے کا خوف لاحق ہے۔ پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں اٹھارہویں آئینی ترمیم لائی گئی جس کے تحت صوبے کئی امور میں با اختیار ہوگئے مگر مسئلہ آئین پر عملدرآمد اور اہلیت کا پیش آیا۔ چناں چہ صوبے کے اندر اٹھارہویں آئینی ترمیم پر عمل کرنے کی صدائیں ایوانوں، سڑکوں اور چوراہوں پر سنائی دے رہی ہیں۔جب چین کے ساتھ سیندک معاہدے کی تجدید ہوئی تب بھی صوبے کی بجائے مرکز میں فیصلے ہوئے۔ اسی طرح سی پیک کا تو شاید آج تک پوری طرح معلوم بھی نہ ہو کہ آخر اس اقتصادی راہداری کے ضمن میں یہاں کی بیوروکریسی اور حکومت کا فرض و کردار کیا ہوگا؟۔وفاق نے سعودی عرب کو سی پیک میں شمولیت کی دعوت دی۔ چھ رکنی سعودی وفد سعودی مشیر برائے توانائی اور معدنیات احمد حامد الغامدی کی قیادت میں پاکستان آیا۔ گوادر کا دورہ کیا جہاں انہیں بریفنگ دی گئی۔ سعودی عرب کے تعاون سے گوادر میں دنیا کی تیسری سب سے بڑی آئل ریفائنری لگانے پر اتفاق ہوا۔ اس آئل ریفائنری کے ذریعے پاکستان، چین اور وسط ایشیائی ممالک کی تیل کی ضروریات کو پورا کیا جائیگا اور سعودی کمپنیوں بلوچستان میں موٹرویز اور ریلوے نیٹ ورک کی نئی تعمیرات کیلئے بھی کام کریں گی۔ یہ اصطلاح بھی سننے اور پڑھنے کو ملی کہ سعودی عرب سی پیک میں تیسرا ’’اسٹریٹیجک‘‘ پارٹنر ہوگا۔جس کے بعد میں وضاحت اور تردید کر دی گئی اچھا ہوا کہ ایران کے سفیر مہدی ہنر دوست نے دور ہ کوئٹہ میں واضح کردیا کہ اس کے ملک کو سی پیک میں سعودی شراکت داری پر کوئی اعتراض نہیں ہے ۔ دیکھنا یہ ہے کہ کیا ٹرمپ انتظامیہ سعودی حکومت کے اس اقدام پر خوش ہوگی ۔جبکہ ٹرمپ قرار دے چکے ہیں کہ سعودی شاہی حکومت ان کے بغیر دو ہفتے بھی نہیں چل سکتی۔ یہ معاملہ ایسا ہی ہے جیسے پاکستان اور ایران کے درمیان گیس پائپ لائن معاہدہ ہوا ۔ ایران نے معاہدے کے تحت اپنی سرزمین پر پاکستان کی سرحد تک پائپ لائن بچھانے کا عمل مکمل کرلیا مگر پاکستان کے اندر صفر کام بھی نہ ہوا۔ ظاہر ہے کہ وہ ایران کے خلاف امریکی پابندیوں کو دیکھ رہے ہیں ۔دیکھا جائے تو پائپ لائن سے پاکستان کا فائدہ ہے۔ ایران، پاکستان کو بجلی کی فراہمی کی بھی بار ہادعوت دے چکا ہے، مگر حکمرانوں کے کانوں پرجوں تک نہیں رینگتی۔ الغرض بلوچستان میں صوبائی خود مختاری یا اٹھارہویں آئینی ترمیم کی روح پر عملدرآمد کی آدازیں بلند ہوئی یہ کہ سعودی حکومت کے ساتھ شراکت کے موضوع پر صوبے کو اعتماد میں نہ لیا گیا۔ یقینی طور پر اس طرز عمل پر وفاق مخالف سیاست کو فروغ ملے گی۔ حالت یہ ہے کہ صوبے کے پاس ترقیاتی اخراجات کی مد میں محض 80کروڑ روپے رہ گئے ہیں۔ بلوچستان اسمبلی میں این ایف سی ایوارڈ میں آبادی کے ساتھ رقبے کی بنیاد پر حصہ دینے کا مطالبہ ہوا۔ خود وزیراعلیٰ جام کمال کہتے ہیں کہ اٹھارہویں آئینی ترمیم کے بعد معدنی وسائل صوبوں کے دائرہ اختیار میں آتے ہیں اور بلوچستان کے وسائل کے بارے میں فیصلے کرنا بھی صوبے کے منتخب نمائندوں اور عوام کا حق ہے۔4 اکتوبر کو بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں سیندک منصوبے سے متعلق قرارداد منظور کی گئی ،کہ سیندک معاہدوں سے متعلق شواہد کو اسمبلی میں پیش کیا جائے اور بتایا جائے کہ اس معاہدے کے حقائق کیا ہیں ۔ صوبہ اس منصوبے اسکینڈل کہہ کر پکارتا ہے۔ گویا اسمبلی اس منصوبے کے انتظامی امور کا کنٹرول چاہتی ہے اور حکومت ارادہ رکھتی ہے کہ سیندک اور ریکوڈک معاہدوں کا از سرنو جائزہ لے ۔ وزیراعظم پاکستان عمران خان نے کوئٹہ آکر صوبے کو جائز حق دینے کا وعدہ کیا۔ سی پیک منصوبے کا از سرنو جائزہ لینے اوربلوچستان کے سی پیک منصوبوں سے متعلق تحفظات دور کرنے کی بات بھی کی اور یہ کہ وفاق بلوچستان کے ساتھ بطور پارٹنر کام کرے گا۔ یقینا ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ صوبے میں گیس اور تیل کی تلاش کا کام شروع ہو اور صوبے کو اس کی کان پڑی خبر نہ ہو۔ عمران خان کہتے ہیں کہ بلوچستان میں ساڑھے چار سو ارب ڈالر کے سونے، تانبے ، کوئلہ اور کرومائٹ کے ذخائر موجود ہیں ۔ تیل اور گیس کے ذخائر اس کے علاوہ ہیں۔ لہٰذا اگر صوبہ اپنی اس دولت سے محروم رہے گا تو یقینا مرکز گریز سیاست و رجحانات ذہنوں میں راسخ ہوں گے۔