کوہالہ کے مقام پر تعمیر ہونے والا بجلی گھر آزادکشمیر کے دو تاریخی دریائوں نیلم وجہلم کا مزار ہی ثابت نہیں ہورہا بلکہ علاقے کے ماحول اور انسانی اور جنگلی حیات پر تباہ کن اثرات کا حامل منصوبہ بھی بن رہا ہے۔ ان دو دریائوں کو میلوں طویل سرنگوں سے کچھ اس انداز سے گزارا جانے لگا ہے کہ اپنی ایک اہم گزرگاہ اور پڑائو دارالحکومت مظفرآباد سے پہلو بچا کر ان کا گزر جانا یقینی ہے۔ یوں مظفرآباد اور اس کے گرد حصار سا بناتے ہوئے دو دریائوں کا صدیوں سے چلا آنے والا ساتھ چھوٹ رہا ہے۔ دریائے نیلم کا نیلگوں اور یخ بستہ پانی اس شہر کے ماحول اور انسانی حیات کے لیے کسی نعمت سے کم نہ تھا۔ یہ تو اس دریا کا قدرتی فائدہ تھا۔ آب نوشی کے لیے استعمال سمیت اس کے دوسرے فوائد خود انسانوں کے تراشیدہ تھے۔ دریائے نیلم کا پانی نوسہری کے مقام پر روکنے اور موڑ کر سرنگ میں ڈالنے کا عمل شروع ہوچکا ہے، جبکہ سری نگر سے آنے والے دریائے جہلم کا دھارا موڑنے کی تیاریاں جاری ہیں۔ ان دونوں دریائوں کے مزار کا نام ’’کوہالہ ہائیڈرو پاور پروجیکٹ‘‘ ہے۔
دریائے نیلم خشک ہوا تو رواں موسم گرما میں اس کی قدر و اہمیت کا اندازہ بھی ہوا۔ گرمیوں کے موسم میں پہاڑوں پر برفانی گلیشیر پگھل کر اس کے معاون ندی نالوں کے پانی میں اضافے کا باعث بنتے تھے، اور یوں دریائے نیلم کی موجیں گرما میں ٹھاٹھیں مارتی ہوئی گزرتی تھیں۔ نوسہری سے اس دریا کا رخ موڑ کر اسے جوہڑ اور گندے نالے میں بدل دیا گیا، جس سے ماحول میں تعفن پھیلنے لگا، درجۂ حرارت میں غیر معمولی اضافہ ریکارڈ کیا جانے لگا، اور ماحول میں کئی ضرررساں تبدیلیاں ریکارڈ ہونے لگیں، ماہرین کے مطابق جس کے انسانی زندگی پر مضر اثرات مرتب ہونا یقینی ہے۔ سردیوں میں تو دریائوں کی جگہ نالوں اور جوہڑوں کی موجودگی شاید گوارا ہو، مگر شدید گرم ماحول میں یہ عمل درجۂ حرارت میں غیر معمولی اضافے کا باعث بن جائے گا۔ بعض ماہرین کے مطابق موسمیاتی تبدیلی کے باعث خشک دریا کے کنارے پر آباد بستیوں میں انسانوں کا رہنا دشوار سے دشوار تر ہوجائے گا۔ ایک رپورٹ کے مطابق ہر سال گرمیوں میں درجۂ حرارت میں دو ڈگری کا اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔ اس خوفناک آمدہ صورتِ حال نے جہاں عوام کے اندر اضطراب پیدا کردیا ہے اور آزادکشمیر کے نوجوانوں نے احتجاج کا سلسلہ برطانوی دارالحکومت لندن تک دراز کر رکھا ہے جہاں کشمیری تارکین وطن لاکھوں کی تعداد میں آباد ہیں اور انہیں اپنے آبائی علاقے میں پیش آمدہ خوفناک صورت حال نے فکرمند کر رکھا ہے، وہیں دوسری طرف سیاسی جماعتوں اور حکومت کے درمیان یہ اہم ترین مسئلہ الزام در الزام کی بنیاد بن کر رہ گیا ہے۔مسلم لیگ(ن) کی حکومت اس کا سارا ملبہ ماضی کی مسلم کانفرنس اور پیپلزپارٹی کی حکومتوں پر ڈال رہی ہے، اور ماضی کے حکمران اس کا الزام مسلم لیگ (ن) کی موجودہ حکومت اور راجا فاروق حیدر پر دھر رہے ہیں۔دریائوں کے رخ موڑے جانے کے نتیجے میں ماحول کو متعدل اور متوازن رکھنے کے لیے جواقدامات ناگزیر قرار دئیے گئے تھے، دونوں طرف یعنی آزادکشمیر کے حکمرانوں اور واپڈا حکام کے تساہل اور تغافل کی نذر ہوگئے۔ایک روز جب لوگوں نے دریائے نیلم کی جگہ ایک گندے نالے کے خدوخال اُبھرتے دیکھے تو وہ دم بخود رہ گئے۔اس کے بعد لوگوں کو احساس ہوا کہ ان کے ساتھ بری طرح ہاتھ ہو گیا ہے اور حکمران طبقات اور طاقتور اداروں نے ان کو بے خبر رکھ کر جو فیصلے کیے ہیںوہ صرف انہی کے لیے نہیں بلکہ آنے والی نسلوں کے لیے تباہ کن اثرات کے حامل ہیں۔اس خوف نے سول سوسائٹی کو مقامی احتجاج پر مجبور کیا۔ اب حکومتِ آزادکشمیر بھی بہتے پانی پر بند بنانے کی تجاویز پیش کررہی ہے اور سرنگوں کی ٹیکنالوجی کے مضر اثرات گنوا رہی ہے، اور واپڈا اور چینی حکام کے ساتھ معاہدات نہ ہونے کا گلہ بھی کررہی ہے۔ مگر سانپ گزرنے کے بعد یہ لکیر پیٹنے کے مترادف ہے۔ کوہالہ پروجیکٹ پر کام روکنے کے مطالبات کے دوران ہی اس کا افتتاح بھی ہوگیا جس پر فقط یہی کہا جا سکتا ہے کہ
لوگوں نے احتجاج کی خاطر اُٹھائے ہاتھ
اس نے کہا کہ فیصلہ منظور ہو گیا
عوام کے تحفظات اور احتجاج کے باعث جس عمل کو روکنا چاہیے تھا، احتجاج کو خاطر میںلائے بغیر عجلت میں اس کا آغاز کردیا گیا۔ اب بھی اگر وزیراعظم عمران خان اور چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار مظفرآباد کے عوام کے جائز خدشات اور مطالبات کو سن کر اس معاملے میں کوئی مثبت کردار ادا کریں تو کوئی درمیانی راستہ نکل سکتا ہے، بصورتِ دیگر عوامی رائے کو بلڈوزکرنے کی روش ایک نفع بخش منصوبے کو مستقل ناسور بھی بنا سکتی ہے۔