پاکستان اس وقت کئی طرح کی مشکلات میں گھرا نظر آتا ہے ۔ نئی حکومت جو بہت سے دعووں کے ساتھ آئی تھی اس کو بھی داخلی محاذ پر مسائل اور رکاوٹوں کا سامنا ہے ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارا جو فرسودہ نظام ہے جو عملی کرپٹ ہوچکا ہے اس میں بڑی تبدیلی کے لیے حالات سازگار نظر نہیں آتے اور جو طاقت کے مراکز ہیں وہ خود بھی کسی بڑی تبدیلی کے لیے تیار نظر نہیں آتے ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ تبدیلی کا نعرہ تو موجود ہے مگر عملا تبدیلی کے لیے جو مجموعی کردار سماج یا معاشرے کے تمام طبقات کا ہونا چاہیے اس کا واضح فقدان نظر آتا ہے ۔ہمارے لوگ تبدیلی کو کوئی جادوئی عمل سمجھتے ہیں حالانکہ تبدیلی کے لیے پہلے خود کو تبدیل کرنا ہوتا ہے ،مگر ہم سب کچھ بدلنا چاہتے ہیں مگر خود کو بدلنا نہیں چاہتے ۔
کیونکہ جو بحران پاکستان کو درپیش ہے اس کا مقابلہ سنجیدگی اور بہتر حکمت عملی کے ساتھ ہی کیاجاسکتا ہے ۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہماری ریاست، حکومت ، اداروں اور دیگر اہم سیاسی ، انتظامی اور قانونی فریقین کے درمیان ایک غیر سنجید ہ سیاست کو غلبہ حاصل ہے ۔ ہماری زیادہ تر توجہ کا مرکز قومی معاملات سے نمٹنا کم اور ایک دوسرے پر الزام تراشی یا سیاسی سکورنگ کا معاملہ زیادہ بالا دست ہوگیا ہے ۔اس طرز کی سیاست میں اگر کوئی سنجیدہ سیاست کا امکان بھی پیدا ہو توو ہ اسی سیاسی محاز آرائی یا ایک دوسرے کے سیاسی وجود کو قبول نہ کرنے کی سیاست کا شکار ہوجاتا ہے ۔
پاکستان میں موجود تمام عناصر اور طبقات جن کا براہ راست تعلق سماج کی تشکیل سے جڑ ا ہے وہ سب غیر سنجیدہ سیاست میں الجھے ہوئے نظر آتے ہیں ۔ ہم بنیادی طور پر نظام کی تبدیلی کے خواہش مند ہیں ۔لیکن ہمارے مباحث او رفکری مجالس ادارہ جاتی یا نظام کے مقابلے میں شخصیات کی حمایت اور مخالفت میں تقسیم ہیں ۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ ہماری ترجیحات میں نظام کم اور شخصیات زیادہ ہیں۔ شخصیات کے گرد اپنا دائرہ بنانا کوئی بری بات نہیں ۔لیکن بعض اوقات اس طرز کا طرز عمل انسانوں کو شخصیت پرستی میں گرفتار کردیتا ہے اور اس سوچ وفکر میں انسان کا سچ پیچھے اور شخصیت کی بالادستی اوپر آجاتی ہے ۔
ہماری پارلیمنٹ، فکری مجالس، ٹی وی ٹاک شوز، تعلیمی اداروں کے مباحث کا مجموعی کردار سیاسی بنیادوں پر تقسیم نظر آتا ہے اور یہ گہرائی کافی بڑھ گئی ہے ۔اس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ ہم دوسروں کی باتوں کو بہت زیادہ اہمیت دینے ، سننے ، سمجھنے یا اس پر مباحث کرنے کی بجائے محض اپنے خول میں بند رہنا زیادہ پسند کرتے ہیں ۔وہ لوگ جنہیں فکری طور پر معاشرے میں ذہن سازی کرنی تھی یا رائے عامہ تشکیل دینی تھی جب وہ خود ہی لعن طعن، عدم برداشت، تعصب اور غیر ضروری بحثوں میںالجھیں گے تو اہم معاملات کا پس پشت جانا فطری امر بن جاتا ہے ۔قوموں کی تشکیل میں اصل کردار اس کے اہل دانش او ران کی دانش کا ہوتا ہے کیونکہ وہ ایک متبادل راستہ دیتا ہے ۔
اگر ہم حکومت کے سرکاری اعداو وشمار کو دیکھیں تو نتیجہ سامنے آجائے گا کہ ہم سیاسی ، سماجی او رمعاشی درجہ بندی میں کیا حیثیت رکھتے ہیں ۔ سماجی شعبہ کی مفلوج حالت ایک سنگین بحران کی نشاندہی کرتی ہے ۔امیر اور غریب میں بڑھتی ہوئی خلیج او ر طبقاتی بنیادوں پر معاشرے کی جکڑ بندی ظاہرکرتی ہے کہ قوم میں اجتماعیت کا پہلو کمزور اور انفرادی ترقی یا سوچ کو کیسے بالادستی حاصل ہوگئی ہے ۔تعلیم، صحت جیسے بنیادی نوعیت کے شعبوں سے ریاست او رحکومت کی دست برداری او راس پر نجی شعبہ کا مافیا پر مبنی قبضہ نے عا م ، کمزور او رمحروم طبقات کو بنیادی سہولیات سے بھی محروم کردیا ہے ۔
نوجوان طبقہ جو عددی تعداد میں بہت بڑھ گیا ہے ۔ اس میں پڑھے لکھے اور ان پڑھ دونوں فریق شامل ہیں ان کے لیے ہمارے پاس کام کے مواقع بہت کم ہیں ۔ نوجوانوں کے ہاتھوں میں ڈگریاں ہیں ، لیکن روزگار نہیں ۔ نوجوانوں کے چہروں پر پھیلی مایوسی ، غیر یقینی اورہیجان کی کیفیت سے واقعی ڈر لگتا ہے اور خطرہ ہے کہ یہ لوگ اپنا حق نہ ملنے کی صورت میںانتہا پسندی سمیت ایسے مسائل کا شکار ہوجائیں گے جو قوم کے لیے تباہ کن ہو سکتا ہے۔
سیاسی ، معاشی پالیسیاں مراعات یافتہ طبقات کے اندر گھری نظر آتی ہیں ۔ ایسی پالیسیاں جو عام انسانوں کو کھڑا کرسکے اس کا بڑا واضح فقدان ہے ۔مثال کے طور پر ہم پڑھے لکھے بے روزگاروں کا تو ماتم کررہے ہیں لیکن کیا حکومتی سطح پر ایسی پالیسی بھی ہے جو لوگ پڑھ نہیں سکے ان کے بارے میں بھی غور وفکر کرتی ہے کہ ان کا کیا کرنا ہے ۔قرضوں اور سود میں ڈوبی معیشت، بری طرز حکمرانی او رسیاسی اقرباپروری پر چلنے والا نظام ان ہی لوگوں کو فائدہ دے سکتا ہے جو کسی نہ کسی شکل میں اختیار یا طاقت رکھتے ہونگے ۔ کمزور لوگ کدھر جائیں او رکون ان کا ہاتھ پکڑے یہ وہ بنیادی سوال ہے جو آج ہمارے اہل دانش اور حکمران طبقا ت سے کہیں گم ہوکر رہ گیا ہے ۔
ہم جتنے مرضی ترقی او رخوشحالی کے دعوے کرلیں لیکن اس بنیادی فہم سے غافل نہ ہوں کہ بہت تیزی سے ملک میںحکومت ، ریاست اور عوام میں نہ صرف خلیج بڑھ رہی ہے بلکہ اعتماد سازی کے بحران نے بھی ایک دوسرے کو لاتعلق کردیا ہے ۔کیونکہ ہماری ساری پالیسی انفرادی سطح کی عکاسی کرتی ہے ۔جس تیزی سے ہمارے میڈیا میں عام آدمی کے مسائل کی بجائے ریٹنگ کی سیاست کے تناظر میں نان ایشوز کی سیاست ہورہی ہے وہ واقعی توجہ طلب مسئلہ ہے ۔جن مسائل پر سنجیدگی سے مباحث ہونے چاہیے اس پر خاموشی اور ریٹنگ نہ ہونے کا طعنہ دے کر بحث کے دروازے بندکرنا مسائل میں اور زیادہ اضافہ کا سبب بن رہا ہے ۔ یہ جو نئی نسل میں عدم برداشت بڑہ رہا ہے اس کی جہاں سیاسی او رمعاشی محرکات ہیں وہیں میڈیا بھی اس کا ذمے دار ہے، جس نے اصل اور حقیقی مسائل کو نظرانداز کر دیا۔
جمہوری نظام میںپارلیمنٹ کی حیثیت سپریم ادارہ کی ہے ،حکومت ایسی پالیسیاں سامنے لاتی ہے جو کسی ایک طبقہ سے ہٹ ایسی پالیسیاں سامنے لاتی ہے جوسب کے قابل قبول ہو۔ لیکن لگتا ہے کہ پارلیمنٹ سمیت سارا حکمرانی کا نظام مفلوج ہے ۔ بیوروکریسی میں ایک بڑی انتظامی سرجری کے بغیر کچھ بھی ٹھیک نہیں ہوسکے گا۔ ایک طاقت ور طبقہ ہے جو ہر شعبہ میں موجود ہے اور وہ موجودہ روایتی حکمرانی کے نظام کو اپنے مفاد کے لیے طاقت سمجھتا ہے ۔اس لیے یہ طبقات خودتبدیلی میں ایک بڑی رکاوٹ ہیں ،تبدیلی آئے گی تو ان کے مفادات پر زد پڑے گی۔
سیاسی جماعتوں، میڈیا ، سول سوسائٹی ، علمی و فکری دانش گاہیں ، حکمرانی کے نظام میں شامل اداروںکو یہ سمجھنا ہوگا کہ اگر واقعی کچھ تبدیل کرنا ہے تو موجودہ طرزِ عمل سے کچھ نہیں ہوسکے گا۔ملک میں تبدیلی کے لیے ایک بڑی سیاسی اور معاشی حکمت عملی سمیت مزاحمت کی ضرورت ہے ، مزاحمت سے مراد بندوق اٹھانا نہیںبلکہ ریاستی وحکومتی نظام پر دبائو پیدا کرنا یا بیدار کرنا ہوگا ۔ اہل دانش کو اپنے موجودہ کردار پر نظر ثانی کرنا ہوگی اور طاقت ور طبقات کا ترجمان بننے کی بجائے عام آدمی کی سیاست کو ترجیح دینی ہوگی ۔ اپنی دانش کو حکمران طبقات کی خوشنودی یا اپنے مفاد تک محدود کرنے کی بجائے اسے معاشرے کی موثراور شفاف تشکیل کی طرف بڑھانا ہوگی ۔یاد رکھیں سماج کو تبدیل کرنا او راسے عوامی امنگوں میںلانا بغیر کسی سیاسی تبدیلی او رجدوجہد کے ممکن نہیں۔ہمیں ایک ایسے نظام کی ضرورت ہے جو انسانوں پر سرمایہ کاری کو اولین فوقیت دیتا ہو۔ انسانوں پر سرمایہ کاری سے مراد انسانوں او ربالخصوص کمزور طبقات کو اس شکل میں کھڑا کرنا ہے کہ وہ اپنی ترقی کا راستہ خود تلاش کرسکیں ۔
کڑا احتساب کا نظام ہی کرپشن، بدعنوانی او رمعاشرے میں پھیلی ہوئی گندگی کو صاف کرنے میں کلیدی کردا ر ادا کرسکتا ہے ،لیکن یہ بلاتفریق ہونا چاہیے۔اس کے لیے ہمیں مجموعی طور پر اپنے پورے سیاسی ،سماجی ، قانونی اور معاشی نظام کا پوسٹ مارٹم کرکے اس میں بنیادی نوعیت کی ترجیحات لانی ہوگی ۔ یہ کام اسی صورت میں ممکن ہوگا جب ہم پورے نظام کو نئے سرے سے Re-Structure and Re-defineکریں ۔لیکن اس کے لیے ایک مضبوط سیاسی نظام ، سیاسی قیادت اور ایک فعال میڈیا و سول سوسائٹی درکا رہے جو موثر حکمرانی کے نظام کو تشکیل دینے میں عوام کو ساتھ ملاکر کلیدی کردار ادا کرسکے۔کیونکہ پاکستان کی سیاسی نظام ایک بڑی تبدیلی چاہتا ہے او ریہ تبدیلی معمولی حالات میں ممکن نہیں بلکہ اس کے لیے حکومتی سطح پر پر غیر معمولی اور روایتی سیاست سے ہٹ کر بڑ ے فیصلے کرنے ہونگے ، کیونکہ سیاسی اور انتظامی وجود گل سڑ گیاہے اس کا علاج ایک بڑی سیاسی سرجری کے بغیر ممکن نہیں ۔ لیکن اس کے لیے پہلے ضروری ہے کہ حکومت خود بھی اپنا قبلہ درست کرے کیونکہ اس کا بھی موجودہ طرز عمل کسی بڑی تبدیلی کی عکاسی نہیں کرتا او رحکومت میں ایسے لوگ موجود ہیں جو بڑی تبدیلی کی بجائے” سٹیٹس کو”چاہتے ہیں او ریہ ہی حکومت کے لیے چیلنج بھی او ریہ ہی عمل آگے جاکر اس کی ناکامی کی وجہ ہو گا ۔