خیبرپختونخوا کے ضمنی انتخابات2018 ۔

ملک بھر کی طرح خیبر پختونخوا میں بھی 14اکتوبر کو ضمنی انتخابات منعقد ہو رہے ہیں۔خیبر پختونخوا میں یہ انتخابات صوبائی اسمبلی کی نو اور قومی اسمبلی کی ایک نشست پرمنعقد ہوں گے جن میں پی کے 3اور پی کے7سوات ،پی کے44صوابی،پی کے 53مردان،پی کے 61اور پی کے64نوشہرہ،پی کے78پشاور،پی کے97اور پی کے99ڈیرہ اسماعیل خان اور این اے35بنوں کی نشستیں شامل ہیں۔پی کے3کی نشست ممبر قومی ا سمبلی ڈاکٹر حیدر علی نے خالی کی ہے جنہوں نے2018کے عام انتخابات میں قومی ا ور صوبائی ا سمبلی کی دو الگ الگ نشستوں پر الیکشن لڑا تھا جس میں وہ دونوں نشستوں پر کامیاب ہوگئے تھے ۔وفاق میں حکومت سازی کے لیئے ممبران قومی اسمبلی کی مطلوبہ تعداد پوری کرنے کی خاطر پی ٹی آئی نے چونکہ ان تمام ممبران کو قومی اسمبلی کی نشست رکھتے ہوئے صوبائی نشستیں خالی کرنے کی ہدایت کی تھی جوقومی اسمبلی کے ساتھ ساتھ صوبائی اسمبلی کی نشستوں پربھی کامیاب ٹھرے تھے اس لیئے پارٹی ڈسپلن کا پا س رکھتے ہوئے ڈاکٹر حیدر علی نے شایدنہ چاہتے ہوئے بھی قومی اسمبلی کی نشست برقرار رکھنے اور پی کے3کی نشست خالی کرنے پر مجبور ہو گئے تھے اب اس نشست پر ضمنی الیکشن میں اصل مقابلہ پی ٹی آئی کے امیدواراور ڈاکٹر حیدر علی کے بھتیجے ساجد علی اور مشترکہ اپوزیشن کے مسلم لیگ(ن) سے تعلق رکھنے والے سردار خان کے درمیان ہوگا جنہیں ہر لحاظ سے ا یک مضبوط اور موثر امیدوار قراردیا جا رہا ہے۔پی کے 7 سوات کی نشست جس پر صوبائی وزیر معدنیات ڈاکٹر امجد علی خان نے کامیابی حاصل کی تھی پر ضمنی الیکشن میں پی ٹی آئی کے فضل مولا اور عوامی نیشنل پارٹی کے وقار احمد خان کے درمیان کانٹے دار مقابلے کی توقع ظاہر کی جا رہی ہے۔ صوابی جہاں پی کے44پر ضمنی الیکشن کا ڈول ڈالا جانے والا ہے وہاں قومی اسمبلی کے سپیکر اسد قیصر کے بھائی سابق ممبر قومی اسمبلی عاقب اللہ خان اور اے این پی کے غلام حسن کے درمیان مقابلہ ہے۔اس نشست پر عام انتخابات میں اسد قیصر نے اس امید پر حصہ لیاتھا کہ کامیابی کی صورت میں وہ وزارت اعلیٰ کی دوڑ میں ایک ہاٹ فیورٹ امیدوار کے طور پر شامل ہو سکیں گے لیکن ان کی اس امید پر عمران خان نے وفاق میں حکومت بنانے کی غرض سے اس وقت پانی پھیر دیا تھا جب انہوں نے قومی اسمبلی میں اپنے نمبر پورے کرنے کے لیئے اپنے ان تمام کامیاب امیدواران کو صوبائی ا سمبلی کی نشستیں چھوڑنے کا حکم دیا تھاجو قومی اسمبلی کی نشستوں پر بھی کامیاب ہوگئے تھے لہٰذا خیبر پختونخوا سے سابق وزیر اعلیٰ پرویز خٹک ،سوات سے ڈاکٹر حیدر علی اور ڈیرہ اسماعیل خان سے علی امین گنڈاپورکے علاوہ صوابی سے اسد قیصر ا یک ایسے منتخب ممبر تھے جنہوں نے قومی اسمبلی کے ساتھ ساتھ صوبائی اسمبلی کی نشست پربھی کامیابی حاصل کی تھی البتہ ان تمام کامیاب امیدواران میں پرویز خٹک کو یہ استثناء حاصل تھاکہ انہوں نے قومی اسمبلی کی ایک نشست کے ساتھ ساتھ صوبائی اسمبلی کی دو نشستوں پرالیکشن لڑ کر اپنی وزرات اعلیٰ پکی کرنے کا پورا بندوبست کر رکھا تھا جن میں پی کے61اور پی کے64نوشہرہ کی ان دونوں متذکرہ نشستوں کو بھی چونکہ پرویز خٹک کو خالی کرنا پڑا ہے اس لیئے ان دونوں نشستوں پر بھی14اکتوبر کو ضمنی الیکشن کا رن پڑنے والا ہے جہاں پی کے61سے پی ٹی آئی نے پرویز خٹک کے بیٹے ابراہیم خٹک اور پی کے64سے ان کے بھائی لیاقت خٹک کو میدان میں اتارا ہے۔پی کے53مردان وہ واحد نشست ہے جو اے این پی نے خالی کی ہے جہاں سے عام انتخابات میں اے این پی کے سابق وزیر اعلیٰ امیر حیدر خان ہوتی نے کامیابی حاصل کی تھی لیکن چونکہ وہ قومی اسمبلی کی نشست پر بھی کامیاب ٹہرے تھے اس لیئے انہوں نے اے این پی کی اکلوتے ممبر قومی اسمبلی کی حیثیت سے قومی اسمبلی کی نشست برقرار رکھتے ہوئے صوبائی ا سمبلی کی نشست چھوڑ دی تھی جس پر اب14کتوبر کو ضمنی الیکشن ہوگا جہاں سے اے این پی کے امیدوار احمد خان اور پی ٹی آئی کے امیدوار محمد عبد الاسلام کے درمیان مقابلہ ہوگا۔پی کے97ڈیرہ اسماعیل خان میں ہونے والے ضمنی الیکشن میں پی ٹی آئی کے حال ہی میں وفاقی وزیر بنائے جانے والے علی امین گنڈاپور جنہوں نے پی ٹی آئی کے اسلام آباد کے لاک دائون کے موقعے پر” شہد کے بوتلوں” کی برآمدگی پر ملک گیر شہرت حاصل کی تھی کے بھائی فیصل امین گنڈاپور ایم ایم اے کے مولانا عبید الرحمٰن اور پیپلز پارٹی کے فرحان افضل ملک کے ساتھ پنجہ آزمائی کریں گے۔ خیبر پختونخوا میں متذکرہ نشستوں کے علاوہ دو نشستوں پی کے78پشاور اور پی کے99ڈیرہ اسماعیل خان وہ نشستیں ہیں جن پردو امیدواران ہارون بلور اور اکرام اللہ گنڈاپور کے دو الگ الگ خود کش حملوں میں شہادتوں کے بعد انتخابات ملتوی کر دیئے گئے تھے اور اب ان پربھی خالی ہونے والی دیگر نشستوں کے ہمراہ ضمنی الیکشن ہورہے ہیں۔واضح رہے کہ پی کے78پشاور ایک نیا حلقہ ہے جسے سابقہ دو صوبائی حلقوں پی کے2 اورپی کے3کو توڑ کرجنم دیا گیا ہے ،یہاں سے ماضیٰ میں ذیادہ تر اے این پی کے بشیر احمد بلور کامیاب ہوتے رہے ہیں البتہ2013میں یہاں سے پی ٹی آئی کے امیدوار جاوید نسیم کامیاب ہوئے تھے جو بعد ازاں پارٹی کو داغ مفارقت دیتے ہوئے پاکستان مسلم لیگ کے ٹکٹ پر حالیہ الیکشن میں قسمت آزمائی کر رہے ہیں۔جب کہ پی ٹی آئی نے اس نشست پر ایک نسبتاً گمنام امیدوار محمد عرفان کومیدان میں اتارا ہے جن کا مقابلہ اے این پی کے مقتول راہنما ہارون بلور کی بیوہ ثمر ہارون بلور سے ہوگا۔ثمر ہارون بلور ماضی میں اپنے سسر بشیر بلور اور شوہر اہارون بلور کے انتخابی مہمات میں خواتین ووٹرز تک رسائی کی حد تک سرگرم رہی ہیں لیکن بلور خاندان حتیٰ کی پشاور کے دوچار نامی گرامی سیاسی خانوادوں میں ثمر ہارون وہ پہلی خاتون ہیں جوکسی جنرل نشست پرپہلی دفعہ قسمت آزمائی کر رہی ہیں۔گو کہ ثمر ہارون بلور کو اپوزیشن کی تمام جماعتوں کی سیاسی اورا خلاقی سپورٹ اور ہمدردی حاصل ہے لیکن صوبے اور بالخصوص پشاور میں25جولائی کوعام انتخابات میں پی ٹی آئی کے حق میں پڑنے والے ووٹوں کی بھاری شرح کو دیکھتے ہوئے صوبے مٰیں ہونے والے ضمنی انتخابات میں یہ شایدواحد نشست ہے جس پر پی ٹی آئی اور اے این پی کے امیدواران کے درمیان گھمسان کا رن پڑنے کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔اسی طرح پی کے99ڈیرہ اسماعیل خان کی نشست جس پرسابق صوبائی وزیر سردار اکرام اللہ خان گنڈاپور کی شہادت کی وجہ سے عام انتخابات منعقد نہیں ہو سکے تھے پر ضمنی الیکشن میں پی ٹی آئی کے امیدوار اکرام اللہ گنڈاپور کے فرزند آغا اکرام اللہ گنڈاپور اور ایم ایم اے کے مولانا عبیدالرحمٰن کے درمیان مقابلہ ہوگا البتہ یہاں سے آذاد حیثیت میں حصہ لینے والے فتح اللہ میانخیل بھی چونکہ یہاں سے ماضی میں کامیابی حاصل کرتے رہے ہیں اس لیئے سیاسی مبصرین کے لیئے انہیں بھی نظر انداز کرنا ممکن نہیں ہے۔خیبر پختونخو امیں ہونے والے ضمنی الیکشن میں این اے35بنوں قومی ا سمبلی کی و ہ واحد نشست ہے جس پر14اکتوبر کو ضمنی الیکشن ہو رہا ہے۔یا درہے کہ یہ نشست عمران خان نے خالی کی ہے جس پرعام انتخابات میں انہوں نے ایم ایم اے کے سابق وزیر اعلیٰ اور سابق وفاقی وزیراکرم خان درانی کو اپ سیٹ شکست دی تھی۔اکرم خان درانی چونکہ صوبائی اسمبلی کی نشست جیتنے میں کامیاب ہو گئے تھے اس لیئے انہوں نے صوبائی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر ی پر اکتفا کرتے ہوئے 14اکتوبرکو ضمنی الیکشن میں اس حلقے سے اپنے فرزند ارجمند ذاہد اکرم درانی کومیدان میں اتارا ہے جن کا مقابلہ پی ٹی آئی کے امیدوار جمعیت(ف)کے منحرف سابق ممبر قومی ا سمبلی مولانا نصیب علی شاہ کے بھائی مولانا نسیم علی شاہ سے ہوگا جبکہ یہاں سے عمران خان کی فتح میں نمایاں کردار ادا کرنے والے اکرم درانی کے روایتی سیاسی حریف ناصر خان پی ٹی آئی کاٹکٹ نہ ملنے پر بطور احتجاج آذادانہ حیثیت میں قسمت آزمائی کر رہے ہیں۔نو صوبائی ا ور ایک قومی اسمبلی کے حلقوں پر ہونے والے ضمنی الیکشن فتح اور شکست کی بحث سے قطع نظر اگر ایک طرف ان نتائج کا صوبائی حکومت کے وجود پر کسی قسم کا اثر پڑنے کا کوئی امکان نہیں ہے کیونکہ خیبر پختونخوا اسمبلی میں پی ٹی آئی کو ان نشستوں کے بغیربھی چونکہ دو تہائی اکثریت حاصل ہے اس لیئے خلاف توقع نتائج آنے کی صورت میں بھی پی ٹی آئی حکومت پر چونکہ کوئی اثر نہیں پڑے گا اس لیے عوامی سطح پر ان انتخابات میں وہ دلچسپی نظر نہیں آرہی ہے جو عموماً ضمنی انتخابات کا خاصہ ہوتی ہے۔البتہ کسی بھی بڑے اپ سیٹ کی صورت میں پی ٹی آئی کو سخت نفسیاتی دبائو کا سامناضرور کرناپڑ سکتا ہے جس کے لیئے اس کی قیادت یقیناً تیار نہیں ہوگی۔اسی طرح ان ضمنی انتخابات نے پی ٹی آئی اور اپوزیشن جماعتوں کی تفریق اور مخاصمت سے قطع نظر کم از کم یہ بات ایک بار پھر ثابت کردی ہے کہ موروثیت اور خاندانی اجارہ داری کے تناظر میں تمام جماعتوں میں کوئی خاص فرق نہیں ہے مسلہ صرف ظاہری اپرووچ اورخالی خولی نعروںکا ہے جس کا بین ثبوت ضمنی الیکشن میں تقریباً تمام نشستوں پر پارٹی کے وفادارا ور متحرک کارکنان اور عہدیداران کی بجائے سابقہ کامیاب امیدواران کے قریبی رشتہ ادروں کا میدان میں خلاف میرٹ اتارا جانا ہے جس پرسوائے افسوس کے اور کیا کہاجا سکتاہے۔#