نہایت محترم اور جیّد عالم حضرت مفتی منیب الرحمن نے تو ہمیں دنیا میں مشہور کردیا، بہت شکریہ۔ انہوں نے ہمیں مخاطب کرکے روزنامہ دنیا میں (6 اور 7 اکتوبر) بہت جامع مضمون تحریر کیا ہے۔ یہ پورا مضمون فرائیڈے اسپیشل کے اسی شمارے میں ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔ ہمیں تو خوشی اس بات کی ہے کہ اتنے بڑے عالم نے ہمیں درخور اعتنا جانا۔ ہم چپکے چپکے ان سے کسب علم کرتے رہتے ہیں اس طرح وہ بالواسطہ ہمارے استاد ہوئے۔ یہ ان کا انکسار ہے کہ وہ زبان و بیان کی اصلاح کے شعبے میں مبتدی ہیں اور ہمیں ’’متخصص‘‘ سمجھتے ہیں۔ اس مشکل سے لفظ ہی کی وجہ سے کچھ قارئین نے ہماری توجہ اس مضمون کی طرف دلائی کہ متخصص کا مطلب کیا ہے۔ تخصص ذرا آسان سا لفظ ہے جو اردو میں بھی استعمال ہوتا ہے اور انگریزی میں اسپیشلائزیشن کہلاتا ہے۔ مدارس میں ’’تخصص فی الشریعہ‘‘ کی سند دی جاتی ہے۔ دل تو چاہتا ہے کہ مفتی صاحب کی اس غلط فہمی کو دور نہ کیا جائے بلکہ ان الفاظ کو سند بنا کر فریم کرالیا جائے کہ دیکھیے صاحب! اتنے بڑے عالم کی ہمارے بارے میں کیا رائے ہے لیکن من آنم کہ من دانم۔ یعنی ہم کہاں کے دانا ہیں، کس ہنر میں یکتا ہیں۔ ہمارا سارا علم، اگر ہے تو، محض لغات کا مرہون ہے۔
یہ مفتی صاحب کی بڑائی ہے کہ انہوں نے کہیں کہیں ہماری حوصلہ افزائی بھی کی ہے۔ ابوجہل بن ہشام کے حوالے سے ہمیں اپنی غلطی تسلیم ہے۔ معذرت خواہ ہیں، لیکن مفتی صاحب کو یہ وضاحت کرنے کی ضرورت نہیں تھی کہ ’’فقیر گوگیا پاشا قسم کا پروفیسر نہیں ہے‘‘۔ کیا ہمارے کسی جملے سے انہیں یہ خیال آیا کہ ہم انہیں گوگیا پاشا سمجھتے ہیں جس کا چرچا چند برس پہلے تک کراچی کی دیواروں پر تھا، گویا نوشتہ دیوار۔
عمرونام میں وساکن ہونے کی وجہ سے اردو اخبارات میں یہ لطیفہ عام رہا ہے کہ جب مصر کے عمروموسیٰ کا نام انگریزی کے توسط سے آیا تو اس میں AMR لکھا گیا چنانچہ اخبارات میں یہ نام ’’امر‘‘ شائع ہوا۔ کسی کو معلوم ہوگا تو یہ نام ٹھیک کردیا ہوگا ورنہ عمرو، امر ہوگیا۔ حضرت، عربی میں ہماری مہارت! کئی برس سعودی عرب میں رہنے کے باوجود یمین ویسار اور شویاگدام، سے آگے نہیں بڑھے۔ یہ بھی ٹیکسی والوں کو سمجھانے کے لیے سیکھ لیے تھے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ عربی میں ’’گ‘‘ نہیں ہے لیکن مصر میں ج کا تلفظ گ سے ادا کیا جاتا ہے جیسے گمال عبدالناصر۔ مگر اب یہ گ سعودی عرب میں بھی داخل ہوگیا ہے۔ یہ گدام دراصل قدام ہے یعنی چند قدم آگے۔ اقل لک کی جگہ اگل لک اور حرم شریف کے باہر ٹیکسی والے گدہ، گدہ یعنی جدہ کی آواز لگارہے ہوتے ہیں۔ ہماری عربی مالش اور آسف تک ہے یعنی سوری۔ مفتی صاحب بلاشبہ عربی کے بہت بڑے عالم ہیں ہم تو ان کی خاک پا بھی نہیں۔
دراصل یہ سلسلہ تو اپنے صحافی بھائیوں کی اصلاح کے لیے شروع کیا تھا، جید علماء بلکہ علم کے شہتیروں سے پنگا لینے کے لیے نہیں۔ مفتی صاحب نے لکھا ہے ’’نقارخانے میں توتی کی آواز کون سنتا ہے۔ میں نےط کے بجائے ت استعمال کرکے توتی لکھا ہے کیونکہ اشفاق احمد کے پی ٹی وی ڈرامے توتا کہانی کے عنوان سے ہمیں اس پر آگاہی ہوئی تھی‘‘ ۔ یعنی مفتی صاحب کے خیال میں ’’توتی‘‘ توتے کی مونث ہے۔ لیکن توتی کا کوئی تعلق توتا سے نہیں۔ توتی کے پہلے ت پر پیش ہے یعنی تُوتی۔ جہاں تک توتا ط کے بجائے ت سے لکھنے کی بات ہے تو اشفاق احمد مرحوم سے بہت پہلے بابائے اردو مولوی عبدالحق یہ اصلاح کرچکے ہیں اور مزاح نگارو شاعر ابن انشا مرحوم نے لکھا تھا کہ جب تک طوطے کو ط سے نہ لکھا جائے اس کی چونچ کا تصور واضح نہیں ہوتا۔ بہر حال، یہ ہندی کا لفظ ہے اور ہندی میں ط نہیں ہے۔ لیکن توتی تو بالکل الگ چیز ہے جس کی آواز نقار خانے میں نہیں سنائی پڑتی۔ یہ فارسی سے اڑکر آئی ہے اور ایک خوش آواز چڑیا کا نام ہے جو توت (شہتوت) کے موسم میں اکثر دکھائی دیتی ہے اور شہتوت رغبت سے کھاتی ہے۔ اسی وجہ سے اس کا نام توتی رکھا گیا۔ لغت کے اعتبار سے یہ مذکر ہے۔ توتی بولنا محاورہ ہے یعنی شہرہ آفاق ہونا، کسی ہنر، کمال، مرتبہ یا حسن و جمال وغیرہ میں دھاک ہونا۔ ذوق کا شعر ہے:
مرے نالوں سے چپ ہیں مرغ خوش الحاں زمانے میں
صدا توتی کی سنتا کون ہے نقار خانے میں
اور محسن کا شعر ہے:
توتی بولا مرے خامہ کا میان شعرا
کیوں نہ ہو آج میں لکھتا ہوں سراپا کس کا
اس شعر میں خامہ کی جگہ خامے بہتر تھا، اس ’’امالہ‘‘ کی طرف مفتی صاحب نے بھی توجہ دلائی ہے۔ ہاتھوں کے توتے اڑ جاتے ہیں، توتی نہیں۔ انواراللغات کے مطابق اہل عرب نے توتی کا املا طوطی کرلیا ہے۔
محترم مفتی منیب الرحمن نے اپنے مضمون کا آغاز حیدر علی آتش کے اس شعر سے کیا ہے:
لگے منہ بھی چڑھانے دیتے دیتے گالیاں صاحب
زباں بگڑی تو بگڑی تھی، خبر لیجیے دہن بگڑا
پہلے مصرع میں منہ چڑھانا استعمال ہوا ہے۔ یہ چڑھانا صرف ریختہ ڈاٹ کام میں ملتا ہے ورنہ صحیح چڑانا ہے۔ منہ چڑھانا نہیں۔ خواجہ صاحب کا دیوان تو ہمارے سامنے نہیں ہے لیکن محاورہ منہ چڑانا ہے۔ لغات کے مطابق چڑھانا کا مطلب نفرت دلانا، دق کرنا، منہ چڑھانا کسی بات پر ناراض ہونا، نفرت ہونا جیسے میں فلاں کے نام سے چڑھتا ہوں۔ وہ کریلوں سے چڑھتا ہے، ویسے یہ بھی متروک ہے اور اس کی جگہ چڑنے نے لے لی ہے یعنی چڑتا ہوں یا چڑتا ہے۔
خواجہ حیدر علی کی یہ غزل 22 اشعار کی ہے اور مذکورہ شعر 21 واں ہے، ابوجہل کے حوالے سے اسلام آباد کے ایک صاحب علم عبدالخالق بٹ نے بھی مفتی صاحب کی تائید میں تحریر بھیجی ہے لیکن اس کے بیشتر نکات مفتی صاحب نے سمیٹ لیے ہیں۔
چلتے چلتے نہایت ادب و احترام سے ایک حوالہ۔
ابن سعد نے ’طبقات کبریٰ‘ میں حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے قبول اسلام کا واقعہ ذکر کرتے ہوئے حضرت انس بن مالک سے طویل روایت میں نقل کیا ہے کہ حضرت خبابؓ نے کہا: اے عمر! خوش ہوجاؤ! کیوں کہ مجھے امید ہے کہ تم ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا ثابت ہوگے۔ آپؐ نے جمعرات کی شب دعا کی تھی کہ ’اے اللہ! عمر بن خطاب یا عمرو بن ہشام کے ذریعے اسلام کو قوت عطا فرما!‘ اسی طرح ابن سعد نے داود بن حصین اور زہری سے مرسلاً نقل کیا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دارارقم منتقل ہونے اور اپنے سے قبل 40 یا اس سے کچھ زائد مردوں اور عورتوں کے ایمان لانے کے بعد اسلام قبول کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک روز قبل ہی دعا فرمائی تھی کہ ’اے اللہ! ان دو میں سے اپنے پسندیدہ ترین بندے کے ذریعے اسلام کو قوت عطا فرما، عمر بن خطاب یا عمرو بن ہشام‘۔ (طبقات ابن سعد، 249-248/3، اشاعت اول، مکتبہ خانجی قاہرہ)