’’واہ عمران خان! تمہارا نیا پاکستان‘‘

سندھی تحریر: ڈاکٹر عزیز تالپور
ترجمہ: اسامہ تنولی
معروف طنز و مزاح نگار ڈاکٹر عزیز تالپور کثیر الاشاعت سندھی روزنامہ ’’کاوش‘‘ حیدر آباد میں فکاہیہ و طنزیہ کالم لکھا کرتے ہیں۔ ان کا مقصد اور بیشتر موضوع تحریر حالات حاضرہ اور دیہی سندھ کے سماجی، سیاسی اور معاشرتی تناظر میں اپنے چند فرضی دلچسپ کرداروں کے توسط سے مقامی عوام کے مسائل و مصائب اور ان کو در پیش تکالیف کو اجاگر کرنا ہوتا ہے۔ اندازِ تحریر دلچسپ، شگفتہ مگر کٹیلا ہے۔ ڈاکٹر صاحب موصوف کے کالم بہ ظاہر تبسم امیر ہوتے ہیں لیکن جب قاری تحریر کے اختتام پر پہنچتا ہے تو اسے تب پتا پڑتا ہے کہ اس نے تو در حقیقت اس قہقہہ بار اور تبسم ریز تحریر سے غم والم اور درد کشید کیا ہے اور یہی صاحب تحریر کا اصل کمال ہے۔ کالم کا صحیح لطف اور مزہ اسے سندھی میں پڑھنے سے ہی حاصل ہو سکتا ہے۔ تاہم ترجمہ میں اس کی روح کو برقرار رکھنے کی پوری سعی کی گئی ہے۔ڈاکٹر عزیز تالپور کا زیر نظر کالم روزنامہ ’’کاوش‘‘ حیدرآباد کے ادارتی صفحہ پر بروز بدھ 03 اکتوبر 2018ء کو شائع ہوا ہے۔
’’مرکز میں پی ٹی آئی کی حکومت آنے کے ساتھ ہی اس کی جانب سے اچانک ٹیکس لگانے کے سبب مہنگائی اس قدر بڑھ گئی ہے کہ اس نے ہمیں (عوام) کو گویا نوچنا شروع کر دیا ہے۔ بجلی، گیس، پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں بڑھ گئیں سرکار نے 10 روپیہ اضافہ کیا تو آگے سے تاجروں نے 20 روپیہ قیمت بڑھا دی میرا غریبانہ سگریٹ کا پیکٹ جو پہلے 50 روپیہ میں ملا کرتا تھا وہ بھی اب 70 روپے میں ملنے لگا ہے۔ جو سپاری کی پڑیا ایک روپیہ میں دستیاب ہوا کرتی تھی وہ بھی اب 5 روپیہ میں ملنے لگی۔ اس میں بھی سپاری کے دانے اکا دکا ہی تھے زیادہ تر کھجور کی کتیر (کترن) تھی۔ پہلے 20 روپے کے پکوڑے اتنے ملا کرتے تھے کہ ان سے پلیٹ بھر جایا کرتی تھی طوطن، طوطن کی اماں اور میں انہیں کھا کر شکم سیر ہو جایا کرتے تھے۔ کل جب پکوڑے منگوائے تو وہ تعداد میں کل سات تھے انہی پر ہم تینوں آپس میں باہم دست و گریباں ہو گئے، گویا پکوڑے نہ ہوئے ابا جان کے فوتی کھاتہ رکی کوئی ملکیت ہو۔ چنگ چی والے نے بھی شہر جانے کے لیے کرایہ 20 سے بڑھا کر 30 روپے کر ڈالا اسی طرح سے بس اورویگن والوں نے بھی کرایوں میں من مانا اضافہ کر دیا، میں حیدر آباد گیا تو مجھ سے بھی اب کی مرتبہ کنڈیکٹر 60 کے بجائے 100 روپے مانگے اور جب میں اس پر معترض ہوا تو کنڈیکٹر اپنے بازو چڑھا کرلڑنے کے لیے تیار ہو گیا اور اس وقت اس پر یوں گمان ہوتا تھا کہ میرے سامنے گویا پنجابی فلموں کا ہیرو سلطان راہی اپنے کاندھے پر گنڈاسا لیے ہوئے مجھے للکار رہا ہو۔ اس نے مجھے بس سے اتارنے کے لیے جب میرے کالر سے پکڑا تو جواباً میں نے بھی اپنی ٹرٹر بند کر ڈالی کہ مبادا کہیں بس ہی سے راستہ میں اتار دیا جائوں!! قریب براجمان کاسٹر مرچو لال سے استفسار کیا کہ ادا! یہ اچانک ہی کیا ماجرا ہو گیا ہے؟ ہر چیز کی قیمت میں دوگنا تگنا اضافہ ہو گیا ہے!! ٹھنڈا سانس بھر کر گویا ہوئے ادا! تبدیلی آ گئی ہے! میں نے جواباً کہا ادا! ہمارے ہاں سندھ میں تو کوئی بھی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ وہی بھوتار (میر، پیر، وڈیرے) دوبارہ سے آن اپنی انہی کرسیوں پر متمکن ہو گئے ہیں۔ وہ بھلا سندھ میں اس تبدیلی کو کیوں نہیں روکتے؟ فرمانے لگے کہ ادا! نگران سرکار اور الیکشن کی وجہ سے انہوں نے دو تین ماں جو چھٹیاں کیں تو اب پھر سے آن اپنے سابقہ دھندہ میں جت گئے ہیں۔ ان بھوتاروں نے الیکشن میں جو کروڑوں روپے خرچ کیے تھے آخر وہ بھی تو انہیں اب ہم سے نکالنا ہیں خیر گھر واپس آیا۔ پہلے جو گھر کا خرچ روز 150 ہوا کرتا تھا وہ اب 500 روپیہ میں بھی نہیں ہو پاتا۔ طوطن کی اماں جان بھی اپنی اصلیت پر اتر آئی اور صبح، شام دوپہر مجھ سے منہ ماری کرنے لگی۔ شام کو اپنے دوست مٹھن موالی کے ہاں گیا تو وہاں تھوڑی دیر کے بعد کجھو کھنیٹرائی بھی آن دھمکا۔ اس نے بلو یونیفارم پہن رکھا تھا۔ لانگ شوز اور سر پر عجب نئی نویلی ٹوپی بھی پہن رکھی تھی۔ میں نے اسے چاروں اطراف گھوم پھر کر دیکھا اور دنگ رہ گیا۔ کیا کجھوکھنیٹرائی اور کیا اس کا یہ خلابازوں جیسا لباس؟ سب موجود دوستوں نے اسے اس ہیئت میں دیکھ کر آڑے ہاتھوں لیا۔ عرس موالی کہنے لگا دور سے جب ہم نے دیکھا تو یوں لگا گویا کہ کوئی بینگن ہو لیکن جب تم قریب پہنچے تو سیل پیک دکھائی دینے لگے! مولو موالی بھی بول پڑا کہ جلدی کرو! اس عجوبہ کو کہیں چھپا دو کہیں بچے دیکھ کر نہ ڈر جائیں! ہنس ہنس کر سب کے پیٹ میں بل پڑ گئے۔ یہ تو پھر ہمیں کہیں بعد میں اس سے پتا پڑا کہ موصوف آج کل کسی نجی سکیورٹی کمپنی میں گارڈ کی نوکری کر رہے ہیں۔ میں اسے ذرا سائیڈ پر لے گیا اور کہا کہ مجھے بھی مہربانی کرکے اپنی اس کمپنی میں گارڈ کی نوکری دلا دے کہ بیروزگاری کی وجہ سے طوطن کی اماں جان نے گھر جلا کر بالکل اوجھڑی کیمپ بنا ڈالا ہے۔ دوسرے دن وہ مجھے اپنے ساتھ کمپنی کے دفتر لے گیا۔ مجھے بھی ملازمت مل گئی۔ نیلی پینٹ شرٹ ٹوپی گن اور لانگ بوٹ ملے۔ ایک پیٹرول پمپ پر مجھے نائٹ ڈیوٹی ملی۔ کپڑے پہنے اور ٹوپی سر پر سجانے کے بعد پائوں میں لانگ بوٹ پہنے اور کاندھے پر بندوق رکھی تو اس وقت میں نے خود پر یوں گمان کیا گویا میں ڈی آئی جی بن چکا ہوں۔ طوطن کی اماں جان بھی مجھے دیکھ کر واری صدقہ ہونے لگی۔ گرو گنجانے بھی سلام کیا۔ میرا ازلی دشمن قادو کوراڑ بھی مجھ سے جھپی ڈال کر ملا۔ میری جنونی ساس صاحبہ ماسی اور نانی ناگن بھی مجھے یونیفارم میں دیکھ کر مجھ سے چکنی چپڑی باتیں کرنے لگیں۔ یا الٰہی یہ ماجرا کیا ہے غور کرنے پر تب میں جانا کہ یہ قصہ کچھ اور ہے۔ دراصل سب لوگ اپنے تئیں یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ مجھے پولیس کے کسی اسپیشل کھاتہ میں ملازمت مل گئی ہے اور کمانڈر بن گیا ہوں۔ بہر حال میں نے جا کر ڈیوٹی کی۔ میرے لانگ بوٹ تنگ تھے اس لیے مجھے پیروں میں درد ہونے لگا اور انگلیاں بوٹ تنگ ہونے کی وجہ سے اندر کو مڑ گئیں درد اور کرب سے جب بے تاب ہو گیا تو ایک فروٹ والے سے چھری لے کر بوٹ کا اگلا حصہ کاٹ ڈالا اور اس طرح سے بہ مشکل میرے پائوں کی انگلیاں سیدھی ہو پائیں۔ اب ایک ٹکٹ میں دو مزے والی کیفیت حاصل ہو گئی تھی یعنی بوٹ اور چپل پہننے کا مزہ ایک ساتھ ہی محسوس ہونے لگا اچانک خیال آیا کہ ذرابندوق کو تو ٹیسٹ کرکے دیکھ لوں کہ چل بھی رہی ہے کہ نہیں یا ویسے ہی مجھے تھما دی گئی ہے۔ آسمان کی جانب نال کا رخ کرکے فائر کیا تو محض بندوق کا گھوڑا دبانے کی آواز ہی سنائی دی۔ بندوق کی نال سے کچھ بھی برآمد نہیں ہو پایا تھا۔ تنخواہ دس ہزار۔ ڈیوٹی بارہ گھنٹے جاگ کر کرنے کی تھی۔ یوں یومیہ 333 روپیہ بنتے تھے۔ روزانہ آمد ورفت کا کرایہ اور چائے پانی کا خرچہ 200 روپے۔ میرے لیے ایک ٹکا بھی نہیں بچ پاتا تھا۔ گوٹھ سارے میں صرف میرا رعب داب ہی تھا بلکہ الٹا ایک نقصان یہ اٹھانا پڑا کہ اس نوکری کی وجہ سے میرے ادھار کے بند کھاتے قرض دینے والوں نے پھر سے کھول لیے تھے اور اپنے قرضے کی رقم کی واپسی کا تقاضا انہوں نے کرنا شروع کر ڈالا تھا۔ ایک رات اسی غم میں غلطاں تھا اور دل و دماغ میں اداسی نے ڈیرے ڈال رکھے تھے کہ پٹرول پمپ کے مالک کے ڈرائیور نے قریب آکر کہا ’’اداس ہو؟ کیا آج پھر گھر سے بیگم کی ڈانٹ پڑی ہے اور پاپوش کا منہ دیکھنا پڑا ہے؟ جواب میں میں نے جب اسے اپنی غربت اور پی ٹی آئی حکومت کی مہنگائی کی درد کتھا سنائی تو لگا کہ گویا اس کے زخم بھی میں نے کرید ڈالے ہیں، لگا مجھے سے گلے مل کر آہ وبکا کرنے!! چند ثانیوں کے بعد وہ اٹھا اور سبیل سے میرے لیے پانی کا ایک گلاس بھر کر لایا۔ پہلے اس نے اپنا منہ پانی سے دھویا اور پھر میرا منہ اس نے یوں دھویا جیسے گاڑی کا شیشہ دھویا جاتا ہے۔ وہاں قریب ہی ایک رکشا کھڑا ہوا تھا۔ میں اس میں جا کر سو گیا۔ اچانک ہماری کمپنی کا انسپکٹر اس موقع پر وہاں معائنے کے لیے آن نکلا۔ جس نے مجھ سے ڈریس، بوٹ، ٹوپی، ٹارچ اور بندوق چھین لی اور مجھے بھی نوکری سے برطرف کر ڈالا۔ میں علی الصبح تہبند اور بنیان پہنے اپنے گھر پہنچا اور اس طرح سے بیروزگاری کے عفریت نے ایک مرتبہ پھر ہمیں آن گھیرا۔ اس پرستم ظریفی یہ ہوئی کہ بجلی کا بل 13000 ہزار اور گیس کا بل جو دیکھا تو وہ 1600 روپیہ کا تھا۔ میرے تو ہوش اڑ گئے اور ہمارے گھر میں قحط سالی جیسے آثار پیدا ہوگئے۔ ٹی وی میں دیکھا اور اخبارات میں پڑھا کہ تھر، اچھڑوتھر، کاچھو، کوہستان اور سمندری پٹی میں شدید قحط سالی کی وجہ سے لوگوں نے ان علاقوں سے محفوظ مقامات کی طرف نقل مکانی شروع کر دی ہے۔ گھر ویران اور گوٹھوں کے گوٹھ اس وجہ سے خالی ہو گئے ہیں۔ میں نے اور طوطن کی والدہ نے بھی اپنے گوٹھ سے ہجرت کا فیصلہ کر لیا اور محنت مزدوری کرنے کی خاطر شہر میں آکر ایک خالی پلاٹ پر جھونپڑی بنا کر رہنے لگے۔ شہر میں محنت مزدوری کرنے سے مجھے بھی روز کے دو تین سو روپے مل جایا کرتے تھے۔ ایک دن صبح کو ناشتہ کے لیے طوطن اور اس کی ماں کے لیے پوریاں اور دال خریدی۔ وہاں پر دیکھا کہ چھا چھرو سے نکل مکانی کرکے آنے والے میاں بیوی مع اپنے چار بچوں کے فوٹ پاتھ پر بیٹھے ہوئے ہیں۔ چھوٹے چھوٹے معصوم بچے بار بار روتے ہوئے اپنے ماں باپ سے فریاد کر رہے تھے کہ ’’بابا! بھوک لگی ہے! باباکھانا لا دو! باپ نے جب یہ منظر دیکھا تو غم زدہ ہو کر آسمان کی جانب دیکھ کر کہنے لگا۔ ’’یا اللہ! ہمارے ہاں گوٹھ میں بھوک اور فاقے تھے۔ یہاں پر بھی یہی کچھ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ دوسرے لوگ پوریاں اور اپنا من پسند کھانا کھا رہے ہیں اور میرے بچے بھوک سے نڈھال ہیں۔‘‘ میں نے اپنے ہاتھ میں موجود پوریوں سے بھرا ہوا تھیلا بچوں کے والد کو دے دیا۔ جسے لے کر وہ دوڑتا ہوا اپنے بچوں کے پاس پہنچا اور تھیلے میں سے دال اور پوریاں نکال کر انہیں کھلانے لگ گیا۔ اپنے دیس واسیوں کو یوں بھوک اور دکھ میں تڑپتا دیکھ کر میرا بھی جی بھر آیا اور آنکھوں میں آنسو آگئے۔ سوچنے لگا کہ آخر یہ کیسی تبدیلی آئی ہے؟ اور یہ کیسا نیا پاکستان بنا ہے؟ ہمارے بچے بھوک سے تڑپ رہے ہیں۔ مر رہے ہیں اور ہمارے دریا پر ڈیم بنائے جا رہے ہیں۔ غیرملکیوں کو شناختی کارڈ بنوا کر انہیں ہمارے سر تھونپا جا رہا ہے۔ چیخ کر بول پڑا ’’واہ عمران خان! تمہارا نیا پاکستان!‘‘