کراچی پریس کلب کے باہر گزشتہ 15 دنوں سے سراپا احتجاج پورٹ قاسم کے ڈاک ورکر اعلیٰ شخصیات اور ارباب حل و عقد کے منتظر ہیں۔ کراچی کے سیاسی، سماجی رہنما ان ورکرز سے اظہار یکجہتی کرنے کے لیے روزانہ احتجاجی کیمپ میں آتے ہیں۔ ان رہنمائوں میں جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمن، متحدہ قومی موومنٹ کے فاروق ستار، معروف مزدور رہنما حبیب جنیدی، یاسر منصور اور پی ٹی آئی کے رکن سندھ اسمبلی شاہنواز جدون نمایاں ہیں۔ احتجاج کے چودھویں دن پی ٹی آئی کے رکن سندھ اسمبلی نے احتجاجی کیمپ میں یقین دہانی کرائی کہ پی ٹی آئی کی حکومت مزدوروں کے ساتھ ہے، ان کے ساتھ انصاف کیا جائے گا، وہ وزیر ساحلی امور زیدی سے مل کر ان کے مسائل کا فوری حل نکالیں گے۔
سی بی اے یونین کے رہنمائوں کا کہنا ہے کہ وہ مطالبات کی منظوری تک اپنا احتجاجی کیمپ جاری رکھیں گے۔ سینئر ڈپٹی جنرل سیکرٹری عبدالواحد نے راقم عبدالصمد تاجی سے کیمپ میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہماری نئی حکومت سے درخواست ہے کہ وہ ہمدردی سے ہمارے مطالبات پر غور کرے۔ ہم میڈیا کے لوگوں کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ وہ ہمارے مسائل کو اچھی طرح اُجاگر کررہے ہیں۔ اسی دوران متحدہ کے فاروق ستار نے احتجاجی کیمپ کا دورہ کیا اور اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ یہاں محنت کرنے والے 14 روز سے احتجاج کررہے ہیں مگر کسی کے کان پر جوں نہیں رینگ رہی۔ انہوں نے کہا کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبہ کا بھی 50 فیصد حصہ پورٹ قاسم کے معاملات میں ہے چنانچہ وفاقی اور صوبائی دونوں حکومتوں کو اس جانب فوری توجہ دینی ہوگی۔
یونین نے اپنے اعلامیہ میں کہا کہ پورٹ قاسم پر پہلا جہاز 1981ء میں لنگر انداز ہوا تھا۔ ڈاک ورکرز روزِ اول ہی سے اس بندرگاہ سے وابستہ ہیں، پہلے پہل یہاں ایک دو برتھیں پکی تھیں باقی سارا پورٹ کچا تھا۔ تیز ہوا میں ہر وقت ریت اُڑتی رہتی تھی، ٹرانسپورٹ نہ ہونے کے برابر تھی، لوگ قائد آباد لانڈھی سے پورٹ تک 23 کلو میٹر کا سفر پیدل طے کرتے تھے اور جہاز ختم ہونے تک یہیں قیام پذیر ہوتے۔ صحت، صفائی اور حفاظت کا فقدان تھا، چنانچہ درجنوں ورکر یہاں بیمار، معذور اور شہید ہوئے، کھانے اور پینے کا صاف پانی نہ ہونے کے باوجود ان ورکرز نے ان تھک محنت اور قربانیاں دے کر اس پورٹ کو بامِ عروج تک پہنچایا۔ آج پورٹ کا مزدور بے بس، بے کس اور مجبور ہے، اسے دیوار سے لگایا جارہا ہے۔ پہلے انہیں قاسم انٹرنیشنل کنٹینر ٹرمینل(QICT) سے بے دخل کیا گیا پھر FAP فوجی اکبر پورشیا میرین ٹرمینل سے ان دونوں ٹرمینلز کے کیس سالہا سال سے عدالتوں میں زیر التوا ہیں۔ 2016ء میں برتھ نمبر 3 اور برتھ نمبر 4 کو چائنا کمپنی کو ٹرمینل بنانے کے لیے دیا گیا تو ڈاک ورکرز کو ایک بار پھر نظر انداز کیا گیا، جس پر ڈاک ورکرز نے احتجاجی تحریک شروع کی اور 11 اپریل 2016ء سے پورٹ قاسم پر مسلسل دھرنا دیا، جس میں نامور سیاسی و سماجی رہنمائوں نے بیانات بھی دیے اور خود آکر اظہار یکجہتی بھی کیا۔ ان رہنمائوں میں محترم سراج الحق، بلاول بھٹو، مفتی کفایت اللہ، قاری عثمان، شاہ محمود قریشی، نثار احمد کھوڑو، حافظ نعیم الرحمن، مسلم لیگ (ن) کے حکیم بلوچ، شفیع جاموٹ، تحریک انصاف کے علی زیدی، رحیم عادل شیخ، عمران اسماعیل وغیرہ شامل ہیں۔ اسی احتجاجی تحریک کے دوران وفاقی وزیر پورٹ اینڈ شپنگ کامران مائیکل نے پنڈال میں ایک معاہدے پر دستخط کیے، جس پر چیئرمین PQA آغا جان اختر نے بھی دستخط کیے۔ جس میں برتھ نمبر 3 اور برتھ نمبر 4 کے ساتھ ساتھ دیگر مسائل بھی حل کرانے کی یقین دہانی کرائی گئی۔ اسی معاہدے کے تحت 26 جولائی 2017ء کو برتھ بنانے والی چائنا کمپنی نے ڈاک ورکرز کی سی بی اے یونین سے معاہدہ کیا، سی بی اے یونین نے چائنا کمپنی کو ہر چیز میں رعایت دی تا کہ CPEC کے منصوبے میں مزدوروں کی وجہ سے کوئی کوتاہی نہ ہوجائے۔
26 جولائی 2017ء سے آج تک مزدور نہایت دلجمعی، جاں فشانی، محنت اور مہارت سے کام کررہے ہیں، مگر چائنا کمپنی تنخواہوں کی ادائیگی بروقت نہیں کرتی، کمپنی نے دسمبر 2017ء میں 6 ماہ کی تنخواہ ادا کی اور اب 9 ماہ گزرنے کے باوجود کمپنی نے ایک روپے کی ادائیگی بھی نہیں کی۔ جبکہ کمپنی مذہبی اور قومی تہواروں پر بھی ورکرز کو کوئی چھٹی نہیں دیتی، ورکرز تین شفٹوں میں 24 گھنٹے کام کرتے ہیں۔
آج تحریک انصاف کے علی زیدی وفاقی وزیر شپنگ ہیں، عمران اسماعیل گورنر سندھ ہیں، ہم ان سطور کے ذریعے ان کی توجہ اس جانب مبذول کراتے ہیں کہ جو وعدے آپ نے ان ورکرز سے گزشتہ سال کیے تھے آج انہیں نبھائیں، تادم تحریر احتجاج جاری ہے۔
ورکرز یونین آف پورٹ قاسم سی بی اے کے چار مطالبات
(1) چائنا کمپنی چارٹر آف ڈیمانڈ منظور کرکے نیا معاہدہ کرے
(2) کمپنی ’’ہونینگ فویون‘‘ پورٹ اینڈ شپنگ پرائیوٹ لمیٹڈ ورکرز کی 9 ماہ کی تنخواہ فوری ادا کرے
(3) پورٹ قاسم اتھارٹی ورکرز کے گیٹ پاس فوری جاری کرے
(4) کراچی پورٹ کی طرح ڈاک ورکرز (ریگولیشن آف ایمپلائمنٹ) ایکٹ 1974ء کا اطلاق پورٹ قاسم کے ورکرز پر بھی کیا جائے۔