ڈاکٹر محمد جنید ندوی
اکیسویں صدی کا انسان ذہنی، اخلاقی، معاشی اور سیاسی مفلسی اور پستی کے دور میں جی رہا ہے۔ وہ ذہنی اور اعتقادی ارتداد کا شکار ہے۔ آج علوم و فنون کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر سیلاب کی شکل اختیار کرگیا ہے۔ اس سیلاب کے آگے اخلاقی بند نہ باندھنے کی وجہ سے وہ نتائج حاصل نہ ہوسکے جس کی آج کے انسان کو ضرورت ہے۔ یہ آدمِ خاکی جس نظام کو تلاش کررہا ہے وہ نظام محمدِ عربیؐ آج سے چودہ صدیاں پہلے ہی دے گئے تھے۔ آج اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ آدمِ خاکی کو وہ راہ دکھائی جائے جو اس کی مفلسی کو ختم کرکے اُس باوقار مقام تک پہنچا دے جس کا وہ اصل میں مستحق ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ دنیا میں کوئی بھی معاشی نظام ظلم اور استحصال کی موجودگی میں قائم و دائم نہیں رہ سکتا۔ انسانی تاریخ میں معاشی نظام تبدیل ہوتے ہوئے نظر آنے کا بنیادی سبب معاشی نظاموں میں ظلم اور استحصال کی موجودگی رہی ہے۔
محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کا ایسا معاشی نظام قائم فرمایا جس سے ایک طرف ہر طرح کے معاشی ظلم اور بے جا استحصال کا سدباب ہو، اور دوسری طرف معاشرے میں اخلاقی فضائل کی نشوونما ہوسکے۔ آپؐ کے پیش نظر ایسا معاشرہ بنانا نہیں تھا جس میں کوئی کسی کے ساتھ خود نیکی نہ کرسکے اور افراد کے ساتھ نیکی اور بھلائی کا ہر کام ایک اجتماعی مشین کے ذریعے سے ہوتا رہے، کیونکہ اس طرح کے معاشرے میں اخلاقی فضائل کی نشوونما کا کوئی امکان نہیں رہتا۔ آپؐ نے اس کے برعکس ایسا معاشرہ تشکیل فرمایا جس میں افراد ایک دوسرے کے ساتھ رضاکارانہ اور بے غرضانہ فیاضی، ہمدردی اور احسان کا برتائو کریں اور ان کی بدولت آپس کی محبت فروغ پائے۔ اس غرض کے لیے آپؐ نے زیادہ تر انحصار لوگوں کے اندر ایمان پیدا کرنے اور ان کو تعلیم و تربیت کے ذریعے بہتر انسان بنانے کی تدبیروں پر کیا۔ پھر جو کسر رہ گئی اس کو پورا کرنے کے لیے آپؐ نے سخت احکامات سے کام لیا جو اجتماعی فلاح کے لیے ناگزیر ہیں۔
ایک مستحکم اور دیرپا معاشی نظام کے لیے معاشی اقدار کا اخلاقی قدروں سے مربوط ہونا لازم و ملزوم ہے۔ انیسویں اور بیسویں صدی میں دنیا کو مکمل طور پر لپیٹ میں لے لینے والے سرمایہ دارانہ اور اشتراکی نظامِ معیشت اکیسویں صدی تک پہنچتے ہی ناکام و نامراد ہوگئے۔ اس کا سبب معاشی اقدار کا اخلاقی قدروں سے مربوط نہ ہونا تھا، جس کا اقرار ان دونوں نظاموں کے چاہنے اور پرچار کرنے والے آج خود کررہے ہیں۔
محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے پیش کردہ معاشی نظام کی نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ اس نے معاشی اقدار کو اخلاق سے الگ رکھنے کے بجائے دونوں کو ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگ کردیا اور معیشت کے مسائل کو مجرد معاشی نقطۂ نظر سے لے کر حل کرنے کے بجائے انہیں اس مجموعی نظامِ حیات کے تناسب میں رکھ کر حل کیا جس کی عمارت کلیتہً خدا پرستانہ تصورِ کائنات اور اخلاق پر استوار کی گئی تھی۔
ماہرین معاشیات کی اکثریت اس بات پر متفق ہے کہ ہر معاشی نظام کے پس پشت ایک فلسفہ کارفرما ہوتا ہے۔ وہ فلسفہ الہامی یا غیر الہامی بھی ہوسکتا ہے، یعنی الہامی فلسفے کا دعوے دار شخص یہ اعلان اور اقرار کرتا ہے کہ وہ جس معاشی فلسفہ کو پیش کررہا ہے وہ اس کی ذہنی اختراع نہیں ہے بلکہ کسی مافوق الفطرت ہستی یا ذریعے سے اس تک منتقل ہوا ہے۔ اس کے برعکس غیر الہامی فلسفے کو پیش کرنے والا برملا اعلان اور اقرار کرتا ہے کہ وہ جس معاشی فلسفے کو پیش کررہا ہے وہ اس کی اپنی ذہنی اختراع ہے۔
محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی یہ دعویٰ نہیں کیا کہ وہ جس معاشی فلسفے کو پیش کررہے ہیں وہ ان کی ذہنی اختراع ہے، بلکہ آپؐ نے برملا اعلان اور اقرار کیا کہ یہ معاشی فلسفہ ایک مافوق الفطرت عظیم الشان ہستی ’’اللہ‘‘ کی طرف سے ان تک منتقل ہوا ہے۔ آپؐ کا معاشی فلسفہ یہ ہے کہ زمین کے تمام معاشی وسائل اور ذرائع نوعِ انسانی پر اللہ تبارک و تعالیٰ کا فضلِ عام ہے، جس کا تقاضا یہ ہے کہ شخصی، گروہی یا قومی اجارہ داریوں کی حوصلہ افزائی نہ کی جائے اور اس کے بجائے خدا کی زمین پر بنی نوع انسان کو اکتسابِ رزق کے زیادہ سے زیادہ ممکن حد تک کھلے مواقع دیے جائیں۔
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ دنیا کا ہر نظامِ معیشت ’’تصورِ ملکیت‘‘ ہی پر قائم ہوتا ہے۔ تصورِ ملکیت سے اس نظام کے اساسی اصول، تفصیلات اور جزئیات متعین ہوتی ہیں جس کے اثرات افراد کی انفرادی اور اجتماعی معاشرت پر پڑتے ہیں۔ شخصی ملکیت کے حوالے سے آج دنیا میں بسنے والے انسان محدود اور غیر محدود شخصی ملکیت کے مسائل میں الجھے ہوئے ہیں۔ ان مسائل کو حل کرنے کے لیے ان کو نت نئے تجربات سے گزارا جارہا ہے جس سے ان کے مسائل مزید بڑھ گئے ہیں۔
محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پیش کردہ معاشی نظام میں افراد کو شخصی ملکیت کا حق دیا گیا ہے مگر غیر محدود نہیں۔ فرد کے حقِ ملکیت پر دوسرے افراد اور معاشرے کے مفاد کی خاطر ضروری پابندیاں عائد کرنے کے ساتھ یہ نظام ہر فرد کے مال میں اس کے اقربا، ہمسایوں، دوستوں، حاجت مند اور کم نصیب یا محروم انسانوں اور مجموعی طور پر پورے معاشرے کے حقوق بھی قائم کرتا ہے۔ ان حقوق میں سے بعض جبری طور پر قابل تنفیذ ہیں اور بعض کو سمجھنے اور ادا کرنے کے لیے خود افراد کو ذہنی اور اخلاقی تربیت کے ذریعے تیار کرنے کا انتظام کیا گیا ہے۔
انسانی زندگی کا معاشی نظام فطری صورت پر چلانے ہی سے قائم و دائم رہ سکتا ہے۔ غیر فطری صورت پر چلائے جانے والے معاشی نظاموں کے زوال کی مثالیں تاریخ کے اوراق میں آج بھی محفوظ ہیں۔
انسانی معاشروں میں معاشی میراث کی تقسیم ہر زمانے میں بنیادی مسئلہ بنارہا ہے۔ میراث کی غیر منصفانہ اور ظالمانہ تقسیم ہی دراصل معاشرتی فساد کا سبب بنتی ہے۔ آج کی مہذب اور غیر مہذب دنیا میں اس کی متعدد مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔
محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پیش کردہ معاشی نقشہ میں عورت اور مرد دونوں کو ان کی کمائی ہوئی آمدنی یا دیگر جائز ذرائع سے حاصل ہونے والی دولت کا یکساں مالک قرار دیا گیا ہے۔ اور دونوں صنفوں کو اپنے حقِ ملکیت سے متمتع ہونے کے یکساں حقوق دیے گئے ہیں۔
کسی بھی طرز کے معاشی نظام کی کامیابی کے لیے معاشی توازن کا برقرار رہنا بے حد ضروری ہوتا ہے۔ کسی معاشی نظام میں توازن نہ ہو تو وہ جلد یا بدیر ناکام ہوجاتا ہے۔
محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پیش کردہ معاشی نظام میں ایک طرف تو عوام کو بخیلی اور رہبانیت سے روک کر اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کے استعمال پر ابھارا گیا ہے، اور دوسری طرف انہیں اسراف، فضول خرچی اور عیاشی سے بھی سختی کے ساتھ منع کیا گیا ہے۔
انصاف پر مبنی معاشی نظام پیش کرنا اور اسے نافذ کرنا حقیقتاً ایک مشکل اور کٹھن کام ہے۔ عدل و انصاف سے عاری معاشرے میں کسی بھی طرح کے معاشی نظام کی کامیابی کا تصور کرنا ایک حماقت کے سوا کچھ نہیں۔ عدل و انصاف میسر نہ ہونے کی وجہ سے آج کرۂ ارض پر بسنے والے انسانی معاشروں کی کثیر تعداد معاشی بدحالی اور مفلسی کے اندھیروں میں سسک سسک کر دم توڑ رہی ہے جو اس بات کا بیّن ثبوت ہے کہ صرف معاشی نظام کا پیش کردینا کافی نہیں ہوتا۔
محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے جو معاشی نظام متعارف کرایا وہ عدل و انصاف پر مبنی تھا۔ آپؐ نے معاشی انصاف قائم کرنے کے لیے ایسا انتظام فرمایا کہ دولت کا بہائو نہ تو غلط ذرائع سے کسی خاص سمت میں چل پڑے اور نہ جائز ذرائع سے آئی ہوئی دولت کہیں ایک جگہ سمٹ کر بے کار رکی رہ جائے۔ اس کے ساتھ آپؐ نے یہ انتظام بھی فرمایا کہ دولت زیادہ سے زیادہ استعمال اور گردش میں آئے اور اس کی گردش سے خصوصیت کے ساتھ ان عناصر کو بھی حصہ ملے جو کسی نہ کسی وجہ سے اپنا مناسب حصہ پانے سے محروم رہ جاتے ہیں۔
محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے معاشی انصاف قائم کرنے کے لیے قانون اور ریاست کی مداخلت پر زیادہ انحصار نہیں فرمایا۔ چند ناگزیر تدابیر کو ریاست کی ذمہ داری قرار دینے کے بعد آپؐ نے اس مقصد کے لیے اپنی بقیہ تدابیر کا نفاذ افراد کی ذہنی و اخلاقی تربیت اور معاشرے کی اصلاح کے ذریعے سے کیا تاکہ آزاد سعی و جدوجہد کی معیشت کے منطقی تقاضوں کو برقرار رکھتے ہوئے معاشی انصاف کا مقصد حاصل ہوسکے۔
علم معاشیات کی تاریخ کا مطالعہ ہمیں یہ بتاتا ہے کہ قدیم اور جدید معاشی نظام یا فلسفوں کا ظہور انسانی معاشروں میں پائے جانے والے مختلف عناصر میں طبقاتی کشمکش کا نتیجہ ہے۔
محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے معاشرے کے مختلف عناصر میں طبقاتی کشمکش پیدا کرنے کے بجائے اس کے اسباب کو ختم کرکے ان عناصر کے درمیان تعاون اور رفاقت کی روح پیدا فرمائی۔ انسانی تاریخ میں ایسی مثال شاذ ہی نظر آتی ہے۔
محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عہدِ مبارکہ میں جس طرح معاشیات کے اصول عملاً ریاست اور معاشرے میں نافذ فرمائے تھے ان کے احکام اور نظائر کی تفصیلات ہمیں احادیث ِمبارکہ، فقہ، تاریخ اور سیرت طیبہ کی کتابوں میں میسر ہیں۔
محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے یقینا ایک معاشی نظام تجویز کیا ہے مگر اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ آپؐ نے ہر زمانے کے لیے ایک مفصل معاشی نظام بناکر رکھ دیا ہے جس میں معاشی زندگی کی تمام تفصیلات طے کردی ہیں، بلکہ اس کا مفہوم یہ ہے کہ آپؐ نے ایسے بنیادی اصول دیے جن کی بنا پر ہم ایک معاشی نظام خود بنا سکتے ہیں۔ آپؐ نے بشمول معاشیات، زندگی کے ہر شعبے کے متعلق حدود مقرر فرمادیں تاکہ ان حدود میں رہتے ہوئے اس شعبۂ زندگی کی تشکیل کی جائے اور حالات، ضروریات اور تجربات کے مطابق اس کی تفصیلات طے کی جائیں۔ یہ کام ہر زمانے کے لحاظ سے ہونا چاہیے اور ہوتا رہا ہے۔ انہی حدود کے اندر رہتے ہوئے مسلمان فقہا نے اپنے اپنے زمانے میں معاشی نظام کے احکام بڑی تفصیل سے مرتب کیے ہیں جو ہمیں فقہ کی کتابوں میں ملتے ہیں۔ ان تفصیلات میں سے جو چیزیں آج کی ضروریات کے مطابق ہیں ان کو ہمیں جوں کا توں لے لینا چاہیے، اور جو نئی ضروریات ہمیں لاحق ہوں ان کے لیے ہمیں مزید احکام کا استخراج کرنا چاہیے۔ لیکن اس کے لیے لازم ہے کہ وہ اسلام کے دیے ہوئے اصولوں سے ماخوذ اور اس کی مقرر کی ہوئی حدوں کے اندر ہوں۔
محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی نوع انسان کو اقتصاد و معیشت کے وہ عظیم انقلابی تصورات اور عملی اصول و ضوابط عطا فرمائے ہیں جس سے بہتر کوئی تصور، فکر یا فلسفہ معرضِ وجود میں نہیں آسکتا۔ آپؐ کے عطا کردہ نظامِ معاشیات کا ہر پہلو نقطۂ تمامیت اور رتبۂ خاتمیت کا حامل ہے۔ آپؐ نے تعلیمات ِ قرآن کو سنتِ مبارکہ کے روپ میں جس نقطۂ کمال تک پہنچایا ہے، انسانی فکر و دانش ارتقا کی تمام منازل کو طے کرکے بھی اس سے آگے نہیں جاسکتی۔
امر واقع یہ ہے کہ اس دنیا میں بسنے والے انسان آج ایسے معاشی نظام کے متلاشی ہیں جو ان کے معاشی دکھوں اور پریشانیوں کا حل فراہم کرسکے۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی وہ عظیم شخصیت ہیں جو اس دنیا کے بسنے والوں کو ایسا معاشی نظام دے سکتے ہیں جو دائمی اور ابدی خوشحالی کی ضمانت دینے کا دعوے دار ہے۔ شاعرِ اسلام، علامہ اقبال نے اس نقطے کی کیا خوب اور صحیح ترجمانی فرمائی ہے کہ