چند ماہ میں قلت ِ آب کے خاتمہ کا حل

چیف جسٹس آف پاکستان محترم ثاقب نثار نے ملک کو پانی کی خطرناک کمی سے بچانے کے لیے بھاشا اور مہمندڈیم کی فوری تعمیر کا حکم دے کر قوم پر احسان کیا ہے۔ اس سلسلے میں فنڈ کے حصول کے لیے جناب عمران خان وزیراعظم پاکستان نے بھی اپیل کی ہے، جس کے جواب میں اب تک 4 ارب روپے سے زیادہ کا فنڈ جمع ہوچکا ہے۔ خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ اگر ڈیم نہ بنے تو سات سال کی مدت میں پاکستان بوند بوند پانی کو ترسے گا اور زمین بنجر ہوجائے گی ۔ سات سال کا جو خدشہ بتایا گیا ہے ہوسکتا ہے اس سے پہلے ہی اس کے منفی اثرات نمودار ہوجائیں۔ اس سے پیشتر ہماری ذمے داری ہے کہ بھاشا اور مہمند ڈیم کی تعمیر سے پہلے ایسا قدم اٹھائیں کہ پانی کی قلت کا خطرہ ٹل جائے۔ چند ماہ میں قلت ِ آب کے خاتمے کا حل موجود ہے جو ذیل میں دیا جارہا ہے۔
دیوسائی علاقہ گلگت بلتستان میں 34 ڈگری شمال اور 73 ڈگری مشرق میں واقع ہے۔ یہ تفریحی علاقہ ہے۔ یہاں پر دیگر دریائوں کے علاوہ دو دریا کالا پانی اور چھوٹا پانی بہتے ہیں۔ جھیلوں کا پانی ان میں شامل ہوتا ہے۔ ان پاکستانی دریائوں کا پانی ہندوستان میں جاگرتا ہے۔ اگر ان دریائوں کا رخ موڑ دیا جائے تو پاکستان پانی کے سلسلے میں 80 فیصد خودکفیل ہوسکتا ہے۔ یہ کام تقریباً 8 ماہ کی مدت میں مکمل ہوسکتا ہے۔ دریائوں کا رخ موڑنے کی وجہ سے ہوسکتا ہے کہ ہندوستان واویلا مچائے کہ اس کا پانی روکا جارہا ہے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا کیونکہ جب ہندوستان نے اپنے ڈیم بنانے کی آڑ میں ہمارا پانی روکا اور ہم نے شور مچایا تو اُن کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔ یہ پانی ہمارا ہے، اس پر حق ہمارا ہے اور ہمارا ہی رہے گا۔اب رہا اخراجات کا معاملہ، تو ہمارے پاس بھاشا اور مہمند ڈیم کا فنڈ موجود ہے۔ اگر کام کو ہنگامی بنیاد پر اس فنڈ کی مدد سے کیا جائے تو کوئی بڑی بات نہیں کہ جناب چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ سے پہلے دریائوں کا رخ مڑ جائے، زمینیں بنجر ہونے سے بچ جائیں، اور عوام کو ضرورت کا پانی مل جائے۔ اس کام کے لیے موجودہ فنڈ کم نہیں ہوگا کیونکہ عطیات جاری و ساری ہیں۔ چیف جسٹس محترم ثاقب نثار اور وزیراعظم پاکستان جناب عمران خان سے امید ہے کہ وہ عوام کی بھلائی کی خاطر کالا پانی اور چھوٹا پانی دریائوں کے رخ موڑنے کے لیے ہنگامی قدم اٹھائیں گے۔ اس سے پہلے اس سلسلے میں کمیٹی کی تشکیل ضروری ہے۔ محمد زکریا

پرنٹ میڈیا کی اہمیت

ہمارے ذہنوں میں یہ سوال اکثر گردش کرتا رہتا ہے کہ رسائل و جرائد کے اس انبار میں پرنٹ میڈیا کی ضرورت و اہمیت شاید باقی نہ رہے اور اس طرح یہ بھی اس انبار میں ایک اضافے سے زیادہ کچھ ثابت نہ ہوسکے، لیکن اسی کے ساتھ ساتھ یہ احساس بھی شدت پکڑتا گیا کہ رسائل و جرائد کی اس قدر کثیر تعداد میںاشاعت مختلف موضوعات اور مختلف مقاصد کی وجہ سیہے،اسی طرح تقریبا ہر جریدے کی رسائی ایک مخصوص حلقے تک رہتی ہے اور ہر جریدہ اپنی حد تک کسی نہ کسی حلقے کی افادیت کا ذریعہ بن رہا ہوتا ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ بعض اوقات ہمارے ذہنوں میں یہ سوال اٹھنے لگتا ہے کہ الیکٹرانک میڈیا کے اس وسیع و عریض جال میں جس نے گھر گھر اور ہر فرد کی جیب میں جگہ بنالی ہے اور لوگوں کے دل و دماغ کو اس مضبوطی سے جکڑ لیا ہے کہ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ہی مفقود ہوچکی ہے ،ایسے موقع پر پرنٹ میڈیا کی حد تک کوئی کوشش کرنا بے سود اور کارگر معلوم نہیں ہوتا ؟
یہ سوچ کر کہ اب پرنٹ میڈیا کا دور باقی نہیں رہا ، اب صرف وہی کچھ پڑھا،سنا جاتا اور سمجھا جاتا ہیجو ٹی وی،موبائل ،ریڈیو یا سوشل میڈیا کے توسط سے ہم تک پہنچتا ہے اور کچھ تو یہاں تک کہہ جاتے ہیں کہ اب الیکٹرانک میڈیا کی بڑی مچھلی پرنٹ میڈیا کی چھوٹی مچھلی کو کھالے گی۔اس روش کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم دور حاضر میں پرنٹ میڈیا کی اہمیت اور اس کی افادیت و وسعت سے ناواقف ہیں اور صرف اسی خول میں گھوم رہے ہیں جو ہمارے سامنے ہے ،جب کہ حقیقی صورت حال سے یکسر ناواقف ہیں ،کیونکہ عالمی میڈیا کا ایک بہت بڑا حصہ اس وقت بھی پرنٹ میڈیا پر مشتمل ہے،بلکہ اسی کے ذریعے وہ اپنے بہت سے اداروں اور مختلف نظریات و تحریکات کی ترجمانی کر رہے ہوتے ہیں ،جس کی پشت پناہی بڑی بڑی نیوز ایجنسیاں کر رہی ہوتی ہیں۔نیشنل ری?ڈر شپ کی ایک سروے رپورٹ کے مطابق نیوز چینلز کے بعد پرنٹ میڈیا میں دس فیصد اضافہ ہوا ہے اور ایک سروے رپورٹ کے مطابق جہاں تیرہ کروڑ لوگ پرنٹ میڈیا کو اہمیت دیتے تھے وہاں اب یہ تعداد پندرہ کروڑ ساٹھ لاکھ کے اعداد و شمار کو پہنچ چکی ہے۔ان میں سیاسی اخبارات،تجزیاتی رسالے،علمی تحقیقی ماہنامے،سہ ماہی رسائل،سماجی اور طبقہ نسواں سے متعلق رسالے،آرٹ ،لٹریچر ،تفریحی رسالے،نیز زراعت ،سائنس،تجارت و اقتصادیات اور کھیل کے متعلق رسائل کا ایک لامحدود دمواد ہے جو جگہ جگہ پھیلا ہوا ہے اور بڑھتا ہی جارہا ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق ان سب رسائل و جرائد کی اشاعت میں بلین ڈالرز تک کی لاگت آجاتی ہے ،کیونکہ ان میں بہت سے رسالے ایسے بھی ہیں جن کی اشاعت کی تعداد ایک کروڑ سے بڑھ کر ہے ، ان سب سے وہی راہ ہموار کی جاتی ہے جو میڈیا کے دیگر ذرائع سے ہوتی رہتی ہے۔عالم عرب کے ایک معروف ادارے “موقع اللغہ والثقافہ?العربیہ”نے ایک اپنی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق پرنٹ میڈیا کی بڑھتی اہمیت کے سبب یہ تجویز دی ہے کہ وہ اپنے ہاں سے شائع ہونے والے مختلف رسائل و جرائد کو اپنے ہی شہروں کا نام دے کر شائع کریں تاکہ اس سے ترجمانی کے مزید اچھے نتائج حاصل ہوسکیں اور ان ممالک میں : اردن،امارات،بحرین،الجزائر،سعودی عرب، سوڈان ، صومالیہ ،عراق،کویت،یمن ،تونس،شام،فلسطین،قطر،لبنان،،مصر اور لیبیا شامل ہیں۔
جب کہ اعداد و شمار کی معروف ویب سائٹ www.statista.comکی ایک سروے رپورٹ کے مطابق سال 2016 تک صرف امریکہ میں 7،216 رسائل و جرائد کا اضافہ ہوا ہے جو کہ قارئین کی دلچسپی اور توجہات کی علامت ہے اور پڑھنے والوں میں بڑی تعداد ان افراد کی بھی ہے جو ان کا مطالعہ آن لائن کرتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ “یہودی پروٹوکولز” نامی مشہور کتاب کے بارہویں پروٹوکول میں ادب و صحافت کو غیر معمولی اہمیت دیتے ہوئے یہ دعوی کیا گیا ہے کہ “ہماری حکومتوں کی یہ کوشش ہوگی کہ وہ میڈیا کے بڑے حصے پر قابض ہوجائیں اور اگر غیر یہودی دس اخبار و رسائل نکالیں گے تو ہم ان کے مقابلے میں۰۳ اخبار و رسائل نکالیں گے ،اس طرح ہم لوگوں کو ایسے جال میں پھنسا دیں گے جن کا انہیں تصور بھی نہیں ہوگا”۔
پرنٹ میڈیا اور مطبوعات کی خصوصیت یہ ہے کہ اس کے اثرات گہرے اور دیرپا ہوتے ہیں ،معاشرے کے مختلف طبقات سے وابستہ لوگ ان کو پڑھتے ہیں،مستفید ہوتے ہیں،غور و فکر کا موقع زیادہ رہتا ہے، دوبارہ سہ بارہ پڑھا جاسکتا ہے،پڑھنے والا اس کو بلا واسطہ سمجھ سکتا ہے ،ثقافتی اور اجتماعی وحدت پیدا ہوتی ہے، اس اعتبار سے یہ رسائل پیغامات اور مقاصد کو دل و دماغ میں پیوست کرنے میں زیادہ اہم اور بنیادی کردار ادا کرتے ہیں ،اس لئے کہ ایک پیغام کو جب تکرار اور متعدد طریقوں سے پیش کیا جاتا ہے تو وہ ضرور اثر انداز ہوتا ہے۔
ان گزارشات کے بعد امید ہے کہ موجودہ دور میں بھی رسائل و جرائد کے کی اہمیت اور افادیت کا عقدہ حل ہوچکا ہوگا اور اسی وجہ سے پرنٹ میڈیا کی جانب اس جذبے اور فکر کے ساتھ زیادہ کی جائے کہ امت مسلمہ میں موجود فکری،دعوتی اور خاص کر تربیتی خلا کو پر کرنے کیے لیے یہ بہترین ذریعہ ابلاغ ہے۔اس طریقے سے دجالی میڈیا کے جس بھنور میں ہم پھنستے جارہے ہیں اس سے باہر نکل کر اپنی منزل کا رخ متعین کرسکیں اور احیائے دین ِحنیف کا وہ خواب جو ہر امتی شعوری اور لاشعوری طور پر دیکھتا رہتا ہے اس کی تعبیر پاسکیں۔
اس ساری صور ت حال کو دیکھتے ہوئے شریعت کے پاکیزہ دائریمیں رہ کر صحافت کے اس اونچے شعبے کو خوب سے خوب کام میں لایا جائے ،تاکہ ہم اپنی ترجمانی کا حق خود ادا کرسکیں اور کسی اور کو اس میں ملاوٹ کا موقع نہ دیں اور پھر اسی کے ذریعے مختلف راہیں ہموار کی جاسکیں۔ عبدالمتین