ڈاکٹر طاہر مسعود
سن رکھا تھا کہ مجاہد صاحب کے لیکچر کی علمی سطح اتنی بلند ہوتی ہے کہ اکثر طلبہ و طالبات کے سروں کے اُوپر سے گزر جاتی ہے۔ اس کا ایک دلچسپ واقعہ جس کا میں چشم دید گواہ ہوں، مجاہد صاحب کی موجودگی میں شعبے کے طلبہ نے پکنگ کے لئے ہالیجی جھیل جانے کا پروگرام بنایا، اس زمانے میں شعبے میں اساتذہ و طلبہ میں ہم آہنگی مثالی تھی، آج کی طرح نہیں کہ شعبے کی تقریبات میں اکثر اساتذہ شریک ہی نہیں ہوتے اور پکنک پر طلبہ و طالبات اساتذہ کے بغیر ہی چلے جاتے ہیں۔ انھیں اساتذہ کی عدم شرکت کا احساس نہیں ہوتا اور نہ ہی اساتذہ کو اس کی پروا ہوتی ہے۔ طلبہ اور اساتذہ دریا کے دو کنارے ہوچکے ہیں جو آپس میں مشکل ہی سے ملتے ہیں۔ پچاس پچپن منٹ کے لیے ملتے بھی ہیں تو کلاس روم میں۔ پھر کہاں استاد اور کدھر طالب علم۔ دونوں فریقوں میں کسی کو کسی کی خبر نہیں ہوتی۔ خبر تو اس وقت ہوتی جب دلچسپی ہوتی۔
وہ دن گئے جب استاد اور شاگرد کا رشتہ عمر بھر کا ہوتا تھا۔ کلاس روم سے باہر بھی استاد، شاگرد کی ذاتی اور خاندانی زندگی اور اُمور و مسائل بھی ایک مشیر ایک ناصح مشفق کی حیثیت سے دخیل ہوتا تھا۔ا ب اُستاد اکثر صورتوں میں نوکری کرتا ہے اور شاگرد استاد کو ہدیۂ دل کے بجائے چاکری کا بل پیش کرتا ہے۔ اُستاد اور شاگرد کے تعلق میں ایک بے گانگی اور لا تعلقی سی آگئی ہے۔ ان دو چار اساتذہ کی بات نہیں جو اب بھی اپنے اساتذہ کے ماڈل کو سامنے رکھ کر مرتی ہوئی روایات کو انفرادی طور پر زندہ کرنے میں کوشاں ہیں۔ عمومی فضا تو بنتی ہے اکثریت کے طرز عمل سے، حسن معاملہ سے، اقدار و روایت تو ان سے پھوٹتی او رپروان چڑھتی ہیں۔ سوز پرستی نے جہاں ہر طبقے اور زندگی کے ہر شعبے کو ملیا میٹ کرکے رکھ دیا ہے وہیں تعلیم کا شعبہ سب سے زیادہ عبرتناک حد تک متاثر ہواہے۔ اکثر اساتذہ میں نہ علم کی طلب و جستجو ہے اور طالب علم کو غرض صرف ڈگری اور ڈویژن سے ہے، وہ بے چارہ تو جانتا ہی نہیں کہ علم کس چڑیا کا نام ہے۔ تو بات دُور جا پڑی، میں اس زمانے کا ذکر کررہا تھا جب استاد اور شاگرد ذوقِ علم اور محبت کی ڈور میں بندھے تھے۔ جب سب لوگ بس میں سوار ہوگئے اور بس ہالیجی لیک کے رستے پر بھاگنے لگی تو بس کے اندر طلبہ نے آپس میں چہلیں شروع کردیں۔ کسی طالب علم نے کیلا کھا کر اس کا چھلکا آگے بیٹھے ہوئے طالب علم کی طرف شرارتاً اُچھال دیا تو جب چھلکا اُڑتا ہوا جارہا تھا تو ایک فقرے باز طالب علم نے زور سے کہا ’’وہ دیکھو جا رہا ہے مجاہد صاحب کے لیکچر کی طرح‘‘ مزے کی بات تو یہ تھی کہ مجاہد صاحب اور دیگر اساتذہ کی موجودگی میں فقرہ چست کیا گیا، سب نے قہقہہ لگا یا جس میں مجاہد صاحب کی شگفتہ ہنسی شامل تھی۔ مجاہد صاحب کے پڑھانے کا اندازہ بھی دوسرے اساتذہ سے مختلف تھا، کبھی آتے تو طلبہ کو کلاس روم میں ہی کتابیں پڑھواتے ، انھیں چھوٹے موٹے تحقیقی اسائنمنٹ دے دیتے۔ محض پون گھنٹے کے یک طرفہ لیکچر پر انحصار نہیں کرتے تھے۔ غالباً حکمت و تدبر بھی تدریس کے اسی طریقے میں مضمرہے۔ ’’لیکچر مرکز طریقۂ تعلیم‘‘ کی خرابی یہ ہے کہ استاد تو پوری تیاری کے ساتھ کلاس میں آتا ہے اور طالب علم اس موضوع پر صفر ہوتے ہیں۔ استاد جو کچھ کہتا ہے لیکچر دیتا ہے، طالب علم اسے چپ چاپ سنتے اور قبول کرتے جاتے ہیں۔ کچے پکے، نوٹس بھی لے لیتے ہیں، کسی طالب علم کو سوال یا اختلاف کرنے کی توفیق اس لیے نہیں ہوتی کہ اس علمی موضوع پر وہ بالکل ہی کورا ہوتا ہے۔ اگر کلاس میں آتے ہوئے طلبہ بھی کچھ پڑھ کر آئیں تو وضاحت صراحت، استفسار اور سوالات بھی کریں۔ ایک خیال دوسرے خیال سے جب ٹکراتا ہے، ایک موضوع پر دو مختلف معلومات میں تطابق پیدا کرنے کا مسئلہ درپیش ہو تو اختلاف و اتفاق کی نوبت آتی ہے۔ چونکہ ترسیل علم کی ساری ذمہ داری بے چارے استاد کی جانِ ناتواں پر رکھ دی جاتی ہے اور طالب علم میں تحصیل علم کی پیاس پیدا کرنے پر توجہ نہیں دی جاتی تو کلاس روم مباحثہ اور تبادلۂ خیال کا مرکز بننے کے بجائے خاموش قبرستان کا منظر پیش کرنے لگتا ہے۔ حاضری رجسٹر بھی جسمانی حاضری کا رجسٹر ہوتا ہے، ذہنی موجودگی کی جانچ پڑتال ضروری نہیں سمجھی جاتی۔ پتا ہی نہیں چلتا کہ طلبہ ذہنی طور پر حاضر ہیں بھی یا کسی پارک اور ساحل سمندر کی سیر میں مصروف ہیں ۔ ہمارے تعلیمی نظام کی یہ وہ خرابیاں ہیں جن پر ارباب حل و عقد سوچنے اور نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتے۔
اوراقِ ناخواندہ، شخصی خاکے
نگاہِ شوق
یہ کائنات چھپاتی نہیں ضمیر اپنا
کہ ذرّہ ذرّہ میں ہے ذوقِ آشکارائی!
کچھ اور ہی نظر آتا ہے کاروبارِ جہاں
نگاہِ شوق اگر ہو شریکِ بینائی!
اسی نگاہ سے محکوم قوم کے فرزند
ہوئے جہاں میں سزا وارِ کار فرمائی!
اسی نگاہ میں ہے قاہری و جباری
اسی نگاہ میں ہے دلبری و رعنائی!
اسی نگاہ سے ہر ذرّہ کو جنوں میرا
سکھا رہا ہے رہ و رسمِ دشت پیمائی!
نگاہِ شوق میسر نہیں اگر تجھ کو
تیرا وجود ہے قلب و نظر کی رسوائی!
آشکارائی: ظاہر ہونا، ظہور۔ سزاوار: لائق ۔ کارفرمائی: حکومت، حکمرانی۔ دشت پیمائی: لفظی معنی بیابان ناپنا، یعنی طے کرنا۔
1۔ اس دنیا کے باطن میں جو کچھ ہے یہ اسے چھپاتی نہیں، اس لیے کہ ذرّے ذرّے میں نمایاں ہونے کا شوق بھرا ہوا ہے۔
2۔ اگر نگاہ شوق بینائی کی ساجھی بن جائے تو دنیا کا کاروبار کسی اور ہی رنگ میں نظر آئے گا۔
3۔ یہی نگاہِ شوق ہے جس کی برکت سے محکوم قوم کے لوگ دنیا میں حکمرانی کے اہل بنے۔
4۔ یہی نگاہِ شوق کبھی قاہری اور جباری کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔ یہ اُس وقت کی کیفیت ہے جب باطل کا غلبہ ہو اور اسے توڑنے کے لیے قوموں کو جلال و جبروت کی شان دکھانی پڑتی ہے۔ یعنی وہ زور و قوت سے کام لے کر باطل کے زور و قوت کو توڑتی ہیں۔ یہی نگاہِ شوق کبھی دلبری اور بانکپن کا لباس پہن لیتی ہے۔ یہ اُس وقت کی حالت ہے جب خدا کے بندوں کو آرام و اطمینان سے راہِ حق کی تعلیم و تربیت دی جاتی ہے۔ یہ قوموں کی جمالی شان کا اظہار ہوتا ہے۔
5۔ اسی نگاہِ شوق کی بدولت میرا جنون ہر ذرّے کو بیابان طے کرلینے کے طور طریقے سکھا رہا ہے۔ یعنی ہر فرد کو تعلیم دے رہا ہے کہ مشکلات کی پروا نہ کرو۔ ہمت اور جواں مردی سے کام لے کر انہیں ختم کردو۔
6۔ اگر یہ نگاہِ شوق تجھے نصیب نہیں تو سمجھ لینا چاہیے کہ تیری ہستی دل اور نظر دونوں کے لیے ذلت و خواری کا باعث ہے۔
(مطالب کلام اقبال اردو… غلام رسول مہرؔ)