سائنس دانوں نے ایک نیا کمپیوٹر فونٹ تیار کیا ہے، جس کے بارے میں ان کا دعویٰ ہے کہ یہ لوگوں کے ذہن میں وہ معلومات برقرار رکھنے میں مدد دے گا جو وہ پڑھیں گے۔ اس فونٹ کو Sans Forgeticaکا نام دیا گیا ہے، جس کی تشکیل کے لیے ٹائپو گرافی اور نفسیاتی پہلوئوں کو مدنظر رکھا گیا، تاکہ دماغ اس فونٹ میں لکھی تحریر کو یاد رکھنے میں کامیاب ہوسکے۔ یہ فونٹ انتہائی احتیاط سے ’رکاوٹ‘ تشکیل دیتا ہے، جس کے نتیجے میں پڑھنے والے کو ذرا زیادہ کوشش کرنا پڑتی ہے، جس سے اُسے پڑھی جانے والی تحریر یاد رکھنے میں مدد ملتی ہے۔ آسٹریلیا کی آر ایم آئی ٹی یونیورسٹی کی ٹیم نے اس فونٹ کو تیار کیا جو کہ مفت دستیاب ہے۔ محققین کا کہنا تھا کہ مختلف طرزِ فکر کی مدد سے اس نئے فونٹ کو تیار کیا گیا، جو کہ بنیادی طور پر دیگر تمام فونٹس سے بالکل مختلف ہے۔ اس فونٹ میں تحریر ہلکی سی پیچھے کی جانب جاتی ہوئی لگتی ہے اور ہر حرف کا اپنا مخصوص انداز ہے، مگر تمام تر تبدیلیوں کے باوجود تحریر آسانی سے پڑھی جاتی ہے۔ محققین کا کہنا تھا کہ یہ نیا فونٹ طلبہ کے لیے امتحانات کی تیاری میں مفید ٹول ثابت ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ دیگر فونٹس میں پڑھنے والے جب تحریر پر نظر ڈالتے ہیں تو ان کی یادداشت پر کوئی نقش نہیں بنتا، مگر اس نئے فونٹ میں ایسی رکاوٹ دی گئی ہے جو کہ یادداشت میں نقش بنانے میں مدد دیتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یادداشت کی بہتری کے لیے تحریر اور رکاوٹ میں توازن بہت ضروری ہے، اگر فونٹ پڑھنے میں مشکل ہوگی تو دماغ اس کا تجزیہ نہیں کرسکے گا۔
وہ عام غذا جو خواتین کو بریسٹ کینسر کا شکار بنادے
برگر کھانے کا شوق خواتین کو چھاتی کے سرطان یا بریسٹ کینسر کا شکار بنا سکتا ہے۔ یہ بات ہارورڈ ٹی ایچ چن اسکول آف پبلک ہیلتھ کی ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی۔ پراسیس گوشت کو بہت عرصے سے مختلف اقسام کے کینسر جیسے لبلبے، مثانے اور آنتوں کے سرطان سے جوڑا جاتا رہا ہے مگر اس نئی تحقیق میں پہلی بار ثابت ہوا ہے کہ اس غذا کے استعمال اور چھاتی میں رسولی کے درمیان تعلق موجود ہے۔ تحقیق میں بتایا گیا کہ جو خواتین زیادہ فاسٹ فوڈ یعنی پراسیس گوشت کھاتی ہیں، اُن میں بریسٹ کینسر کا خطرہ 9 فیصد زیادہ بڑھ جاتا ہے۔ تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ بازار میں دستیاب عام سرخ گوشت مثلاً گائے یا بکرے کا گوشت ویسے کھانے سے یہ خطرہ نہیں بڑھتا۔ اس نئی تحقیق میں ماہرین نے خواتین کو مشورہ دیا کہ وہ اس جان لیوا کینسر سے بچنا چاہتی ہیں تو فاسٹ فوڈ سے منہ موڑ لیں۔ محققین کا کہنا تھا کہ ماضی کی رپورٹس میں پراسیس گوشت زیادہ کھانے سے مختلف اقسام کے کینسر کے خطرات میں اضافہ دریافت کیا گیا، حالیہ نتائج سے معلوم ہوا کہ خواتین میں اس غذا کا استعمال بریسٹ کینسر کا خطرہ بڑھا سکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پراسیس گوشت کا استعمال ترک کردینا خواتین کو بریسٹ کینسر جیسے مرض سے بچانے میں مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔ خیال رہے کہ خواتین میں ہلاکتوں کی دوسری سب سے بڑی وجہ چھاتی کا سرطان ہی ہے کیونکہ ہر 9 میں سے ایک خاتون میں اس جان لیوا مرض کا خطرہ ہوتا ہے۔
قیلولے کا ایک اور فائدہ
رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’قیلولہ کیا کرو (یعنی دوپہر کو کچھ دیر سو لیا کرو) کیونکہ شیطان قیلولہ نہیں کرتا‘‘۔
برسٹل یونیورسٹی کی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ دن کے وقت مشکل فیصلوں سے قبل ڈیڑھ گھنٹے کا قیلولہ زیادہ بہتر فیصلے کرنے میں مدد دیتا ہے۔ تحقیق میں دعویٰ کیا گیا کہ مختصر نیند ہمیں لاشعور میں چھپی معلومات کا تجزیہ کرنے میں مدد دیتی ہے اور ردعمل کا وقت تیز کرتی ہے۔ اس تحقیق کے نتائج سے ان شواہد کو تقویت ملتی ہے کہ قیلولہ کرنے کی عادت ذہنی افعال کے لیے بہت زیادہ فائدہ مند ہے۔ تحقیق کے دوران 16 رضاکاروں کے دماغوں میں آنے والی تبدیلیوں اور ذہنی ردعمل کے وقت کا موازنہ قیلولے سے پہلے اور بعد کے دورانیے سے کیا گیا۔ نتائج سے معلوم ہوا کہ یہ مختصر نیند کسی فیصلے کے فائدے یا نقصانات کی شناخت میں مدد دے سکتی ہے۔ محققین نے ان نتائج کو حیرت انگیز قرار دیا ہے۔ نتائج سے معلوم ہوا کہ قیلولے سے لوگوں کے ذہنی ردعمل کا وقت بہت تیز ہوگیا۔ ماضی کی تحقیقی رپورٹس میں یہ بات پہلے ہی سامنے آچکی ہے کہ قیلولے کی عادت یادداشت کو مضبوط بناتی ہے، مگر اس نئی تحقیق کے نتائج سے عندیہ ملتا ہے کہ اس عادت سے گہرائی میں جاکر فیصلے کرنے میں مدد ملتی ہے۔
کیمیا کا نوبیل انعام فرانسس ہیملٹن، جارج اسمتھ اور سر گریگوری ونٹر کے نام
اِس سال کیمیا کا نوبیل انعام ایسے تین سائنس دانوں کو دیا گیا ہے جنہوں نے ارتقاء کے عمل کو انسان کا تابع بناتے ہوئے نت نئے خامرے (اینزائمز)، پروٹین اور دواؤں کے طور پر استعمال ہونے والے مرکبات تیار کیے۔ اس سال (2018ء) کے نوبیل انعام برائے کیمیا کا نصف حصہ امریکی خاتون ماہر فرانسس ہیملٹن آرنلڈ کو دیا جارہا ہے کیونکہ انہوں نے پہلی بار خامروں میں ’’پابند ارتقاء“directed evolutionعملی طور پر ممکن بنایا، اور یوں نئی قسم کے حیاتی کیمیائی مرکبات (بایوکیمیکلز) تیار کرنے میں کامیابی حاصل کی۔
انعام کا بقیہ حصہ امریکہ کے جارج اسمتھ اور برطانیہ کے سر گریگوری ونٹر میں مساوی تقسیم کیا جارہا ہے، کیونکہ ان دونوں صاحبان نے ’’فیج ڈسپلے‘‘ نامی ایک تکنیک وضع کی تھی جس کے ذریعے خاص طرح کے ’’فیج وائرس‘‘ استعمال کرتے ہوئے مفید پیپٹائڈ مرکبات اور اینٹی باڈیز حاصل کی تھیں۔ اس سال کا نوبیل انعام برائے کیمیا ان ہی تحقیقات کا وثیقہ اعتراف ہے۔